کہانی کار: منیبہ عثمان
بہت سال پہلے کی بات ہے، پہاڑوں کے دامن میں ایک چھوٹی سی وادی تھی جہاں ایک ننھی سی لڑکی، ریا، اپنے دادا دادی کے ساتھ رہا کرتی تھی۔ ریا کے والدین کا انتقال اُس کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا، لہٰذا ہوش سنبھالتے ہی اُس نے اپنے دادا دادی کی محبت اور شفقت دیکھی۔ دادا دادی بھی اُس پر جان چھڑکتے تھے اور اُس کی خوشی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے۔
ریا دن بھر اپنے گھر کے باہر چھوٹے سے باغیچے میں کھیلتی رہتی۔ اُس کے دادا، باغیچے میں اُگے پھولوں سے خوبصورت گلدستے بنا کر بیچا کرتے تھے، اور یہی اُن کی گزر بسر کا واحد ذریعہ تھا۔ ریا کی دادی جان بڑی محبت سے پھولوں کی دیکھ بھال کرتیں، جبکہ ریا رنگ برنگے پھولوں اور اُن کے اردگرد منڈلاتی تتلیوں کے ساتھ کھیل کر بہت خوش رہتی۔
ایک دن، پہلی مرتبہ، وہ اپنے دادا کے ساتھ قریبی قصبے کے بازار گئی۔ بازار میں گھومتے ہوئے اُس نے بہت سی کھلونوں کی دکانیں دیکھیں اور ایک دکان کے سامنے اُس کے قدم رک گئے۔ دادا ابو نے پلٹ کر دیکھا تو ریا ایک کھلونے کی دکان کے سامنے گڑیا کو حسرت بھری نظروں سے تک رہی تھی۔ دادا ابو سمجھ گئے کہ ریا کو یہ گڑیا پسند آگئی ہے، مگر اُن کی جیب میں اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اُسے گڑیا دلا سکیں۔
دادا نے ریا کو پکارا تو وہ دوڑتی ہوئی اُن کے پاس آئی اور معصومیت سے بولی، “دادا جان، مجھے وہ گڑیا چاہیے، وہ بہت پیاری ہے۔” دادا نے اُسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا، “بیٹا، میں ضرور آپ کو وہ گڑیا دلاؤں گا، مگر ابھی ہمیں گھر چلنا ہوگا، کیونکہ دادی جان نے کھانا تیار کیا ہوگا۔” ریا نے دل میں اپنی چھوٹی سی خواہش دبا لی اور بوجھل قدموں کے ساتھ دادا کے ہمراہ گھر کی طرف چل دی۔
جب وہ گھر پہنچے تو دادی جان نے اُن کا انتظار کر رکھا تھا۔ دادا ابو نے دادی جان کو گڑیا کی بات بتائی۔ دادی نے اپنے چھوٹے سے بٹوے سے کچھ پیسے نکال کر دادا کو دیے اور کہا، “یہ پیسے میں نے پھولوں کے بیج لانے کے لیے رکھے تھے، لیکن میں ریا کو افسردہ نہیں دیکھ سکتی۔ آپ فوراً جا کر وہ گڑیا لے آئیں۔” دادا جان نے جلدی سے پیسے پکڑے اور دوبارہ بازار کی طرف روانہ ہوگئے۔
جب وہ دکان پہنچے تو دیکھا کہ وہ گڑیا کسی اور خریدار نے خرید لی تھی۔ دادا جلدی سے دکان کے اندر گئے اور پوچھا، “کیا آپ کے پاس اُس جیسی کوئی اور گڑیا ہے؟” دکاندار نے معذرت کے ساتھ جواب دیا، “نہیں، وہ واحد گڑیا تھی، اور وہ بھی میں ابھی بیچ چکا ہوں۔”
دادا ابو بہت اداس ہو گئے۔ لیکن انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ اپنی ریا کو ضرور وہ گڑیا دلائیں گے۔ یہ سوچتے ہوئے وہ اُس خریدار کے پیچھے چل پڑے۔ خریدار ندی کے اُس پار، ایک چھوٹی سی بستی میں داخل ہوا اور وہاں اُس نے گڑیا ایک چھوٹی بچی کو دی، جو اُسے پا کر بےحد خوش ہوئی۔ دادا ابو نے یہ منظر دیکھا تو اُنہیں فوراً ریا یاد آئی۔ انہوں نے اُس خریدار سے پوچھا، “آپ نے یہ گڑیا کس کے لیے خریدی ہے؟”
خریدار نے جواب دیا، “یہ گڑیا میں نے اپنی بیٹی کے لیے خریدی ہے۔ کل کھیلتے ہوئے اُس کی گڑیا ندی میں گر گئی تھی، اور اُس کے ساتھ دلی لگاؤ کی وجہ سے وہ پوری رات روتی رہی اور بیمار ہو گئی۔ آج میں نے اپنی کلچوں والی چنگیر بیچ دی تاکہ یہ نئی گڑیا اُس کے لیے خرید سکوں۔”
یہ سن کر دادا جان نے دادی کے دیے ہوئے پیسے اُس شخص کو دے دیے اور کہا، “یہ پیسے شاید تمہارے کام آ سکیں۔” وہ شخص حیران رہ گیا، مگر دادا ابو خاموشی سے واپس چل دیے۔ واپسی کے راستے میں دادا جان اسی سوچ میں ڈوبے رہے کہ وہ اپنی ریا کے لیے کیا کریں۔
ندی کے پاس بیٹھ کر دادا جان نے چھوٹے چھوٹے پتھر ندی میں پھینکنے شروع کر دیے۔ اچانک اُن کی نظر ندی میں ایک جھاڑی میں پھنسی ہوئی چیز پر پڑی۔ جب انہوں نے قریب جا کر دیکھا تو وہ حیران رہ گئے، کیونکہ وہ وہی گڑیا تھی جو اُس شخص کی بیٹی سے ندی میں گر گئی تھی۔ دادا جان نے خوشی خوشی گڑیا اُٹھائی اور سوچتے ہوئے گھر کی طرف چل پڑے، کہ اللہ تعالٰی کبھی چھوٹی سی نیکی بھی رائیگاں نہیں جانے دیتے۔
================
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.