Monday, April 29
Shadow

Author: editor

:  جناب احمد حاطب صدیقی کے ساتھ نشست کی روداد : ماوراء زیب

: جناب احمد حاطب صدیقی کے ساتھ نشست کی روداد : ماوراء زیب

ہماری سرگرمیاں
ماوراء زیب پریس فار پیس پبلی کیشنز نے میلے کے دوسرے دن جناب احمد حاطب صدیقی کے ساتھ ایک نشست رکھی تھی۔ ارادہ یہی تھا کہ ان کے ساتھ لسانیات کے حوالے سے گفتگو ہوجائے اور کچھ سوالات جوابات کا سلسلہ ہوجائے۔ اس نشست کے حوالے سے کافی فکر تھی کہ کسی طرح بیٹھنے کا انتظام ہوجائے۔ اب منظر پر نمودار ہوتے ہیں ڈاکٹر زین العابدین۔ کیا مزے کی اور مہمان نواز شخصیت ہیں۔ نمل یونیورسٹی کے شعبۂ عربی میں کام کرتے ہیں اور ہمارے ادارے کی ساتھی  محترمہ  تابندہ شاہد کے گھر والوں کے پرانے جاننے والے تھے۔ وہ اپنے کچھ شاگردوں اور ساتھی اساتذہ کے ساتھ ہمارے سٹال پر آئے تھے۔ ان کے ساتھ بہت اچھا تعارف رہا اور وہ زبردستی مُصِر رہے کہ ہماری مہمان نوازی ہو۔ ادارے کے  گرافک  ڈیزائنر استاد محترم ابرار گردیزی بھی اس وقت سٹال پر موجود تھے۔ ڈاکٹر زین العابدین صاحب کا خیال تھا کہ ہم سب کو کچھ کھلایا پلایا...
نمل یونیورسٹی   کتاب میلہ: پہلا دن ، ماوراء زیب

نمل یونیورسٹی   کتاب میلہ: پہلا دن ، ماوراء زیب

ہماری سرگرمیاں
ماوراء زیب بائیس اپریل 2024، پہلا دن آج نمل یونیورسٹی، اسلام آباد میں سپرنگ فیسٹیول کے نام سے ایک میلے کا افتتاح کیا گیا۔ میلے میں جہاں بہت سی سرگرمیوں کا اہتمام کیا گیا تھا وہیں شعبۂ اردو زبان و ادب، نمل یونیورسٹی کی طرف سے ایک کتاب میلے کا انعقاد بھی کیا گیا ہے۔ دوسرے بہت سے پبلشرز کے ساتھ پریس فار پیس پبلی کیشنز نے بھی اپنی کتابوں کا سٹال نہایت اہتمام کے ساتھ سجایا۔ میزبانی کے فرائض مابدولت کے ساتھ ساتھ حفص نانی اور زبیر الدین عارفی نے نبھائے اور کیا خوب نبھائے۔ بعد ازاں شمیم عارف اور ذوالفقار علی بخاری نے بھی اپنا حصہ بھرپور جوش و جذبے کے ڈالا۔  میلے تک پہنچتے پہنچتے کافی وقت لگ گیا کیونکہ پہلا دن تھا اور راستوں کا اندازہ نہیں تھا۔ سٹال پر پہنچ کر حافظ منیر سے ملاقات ہوئی جو ادارے کی طرف سے کتابوں کا انبار لیے موجود تھے۔ کتابیں لے کر سجانا شروع کیں اور تصاویر کا ایک ناخت...
ڈاکٹر برگر/انعم طاہر  

ڈاکٹر برگر/انعم طاہر  

افسانے
تحریر: انعم طاہرسر آپ یہاں ؟ ثاقب نے چپس اور برگر بیچنے والے آدمی کو غور سے دیکھتے ہوئے انتہائی گرم جوشی سے کہا جیسے اس کے ہاتھ کوئی خزانہ لگ گیا ہو۔ریڑھی والا جسے ثاقب سر کہہ کر مخاطب کررہا تھا ایکدم ٹھٹکا تھا، غیر محسوس انداز میں اس نے اپنے چہرے پہ موجود ماسک کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی حالانکہ ماسک نے ویسے بھی کافی حد تک اسکا چہرہ چھپا رکھا تھا۔ اس نے ثاقب کو نظر انداز کیا جیسے کہ اس نے اس کو دیکھا ہی نہ ہو نہ کچھ کہتے سنا ہو۔ مہارت سے دو برگر تیار کرکے اس نے خریدار کو تھمائے اور بغیر گنے پیسے جیب میں ڈال لیے۔ اسی اثنا میں ثاقب اس کے قریب آیا اور اسے پھر سے مخاطب کرنے لگا۔سر آپ سر اشعر ہیں ناں، میں ثاقب آپ نے مجھے نہیں پہچانا۔ اشعر نے ثاقب کے چہرے کو بغور دیکھا۔ وہی آس وہی امید وہی اپنائیت۔۔۔۔۔۔ ثاقب کے چہرے کو دیکھنا ایک جھٹکا تھا جو اسے ماضی میں کہیں بہت پیچھے لے آیا تھا۔ ثاقب تو کیا وہ ...
ریزگاری مبصر ۔ عبدالحفیظ شاہد

ریزگاری مبصر ۔ عبدالحفیظ شاہد

تبصرے
مبصر ۔ عبدالحفیظ شاہد۔ واہ کینٹسنو! یہ وقت رخصت ہے، سکوت سفر طاری ہےختم عمروں کا زر، باقی لمحوں کی ریزگاری ہےسنو! یہ آس کی ڈوری اٹھا لو ہاتھ سے میرےمیرے ہاتھوں میں کچے دھاگوں کی بے اعتباری ہےسنو! میں خواب اب بھی دیکھتا ھوں دل کے کہنے سےمیری آنکھوں میں اب بھی زخم، دل میں بیقراری ہےسنو! پلکوں پہ جتنے خواب تھے، ان کو اٹھا لینامیری آنکھوں پہ ان کا بوجھ، میری طاقت سے بھاری ہےوقت کا ان دیکھا پہیہ  رواں دواں رہتا ہے ۔انسان کی عمر کی نقدی رفتہ رفتہ  ختم ہوتی جاتی ہے اور جس وقت ریزگاری بھی  ہاتھوں سے پھسلنا شروع ہوجاتی ہے، تب انسان کو اس گرانقدر  جنس  کی بے قدری کا احساس ہوتا ہے۔   وقت تو گزر جاتا ہے لیکن یادوں کے کرچیاں  آہستہ آہستہ  زندگی کے شب و روز  میں کسک چھوڑ جاتی ہیں۔ پھر  انسان ان گزرے لمحوں کو تعویز بنا کر مانگ میں سجانے کی کوشش کرتا ہے۔لیکن سب بے سود۔ بس یہ یادیں اور باتیں زندگی کو گھسی...
شازیہ عالم شازیؔ، شاعرہ ، مصنفہ، سوشل ورکر،  کراچی (پاکستان)

شازیہ عالم شازیؔ، شاعرہ ، مصنفہ، سوشل ورکر،  کراچی (پاکستان)

رائٹرز
شازیہ عالم شازیؔ مایہ ناز شاعرہ ، مصنفہ  اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں فلاح عامہ کےلیے کوشاں فعال سماجی شخصیت ہیں۔ وہ کراچی میں  رہائش پزیر ہیں۔    پیشہ ورانہ اعتبار سے وہ ایک  نجی ادارے کے ساتھ بطور منیجر وابستہ ہیں۔ اب تک  غزل، نظم اور ہائیکو میں طبع آزمائی کی ہے۔  وہ  متعدد رفاہی ، ادبی  اداروں اور سماجی تنظیموں کے ساتھ  منسلک ہیں۔ وہ  جہان رنگ ادبی تنظیم کی چیئرپرسن بھی ہیں۔ان کی علمی، ادبی اور سماجی خدمات کے اعتراف میں متعدد اداروں  کی طرف سے متعدد اعزازت اور ایوارڈز  سے نوازا گیا ہے۔  شازیہ عالم شازیؔ کی تصانیف سمندر راز داں میرا پلکوں پہ سجے خواب  (زیر طبع) ...
ارشد ابرار ارش کی ریز گاری، تاثرات : مہوش اسد شیخ

ارشد ابرار ارش کی ریز گاری، تاثرات : مہوش اسد شیخ

تبصرے
تاثرات : مہوش اسد شیخکتاب ریزگاری پبلش ہو کر منظر عام پر آئی تو اس کے مصنف کا نام میرے لیے نیا تھا۔ خوبصورت سرورق کی حامل ریزگاری پہلی نظر میں ہی دل کو بھاگئی۔ فیس بک پر ہر طرف اس کے چرچے ہونے لگے، دیکھتے ہی دیکھتے پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا۔آخر ایسا کیا ہے اس کتاب میں، یہ تو ایسے سیل ہوئی جیسے سچ مچ کی ریزگاری ہو۔ جلد ہی سننے میں آیا کہ دوسرا ایڈیشن آ گیا۔ دل سے بے اختیار ماشا اللہ نکلا۔ اب تو دل نے خواہش کی، یقیناً پڑھنے کی چیز ہے پڑھنا چاہیے۔اس کا مطالعہ کرنا شروع کیا تو معلوم پڑا کیا چیز ہے ۔۔ اگرچہ مصنف کا نام میرے لیے نیا تھا لیکن انداز بیان کسی سینیئر لکھاری سا نہایت پختہ۔ لفاظی کے کیا کہنے، رواں اسلوب بھئی داد دئیے بنا چارہ نہیں۔ یہ عام افسانوی مجموعہ نہیں، منفرد افسانوں پر مشتمل ایک پیاری کتاب ہے۔ کتاب مکمل کیے کئی دن بیت گئے، اس پر لکھنے کا سوچتی رہی مگر میرے اپنے الفاظ تو کہیں کھو ...
پروفیسر خالد بزمی کا حمدیہ مجموعہ “جبین نیاز “تحریر ۔ عافیہ بزمی

پروفیسر خالد بزمی کا حمدیہ مجموعہ “جبین نیاز “تحریر ۔ عافیہ بزمی

آرٹیکل
تحریر ۔ عافیہ بزمی۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بارہ مارچ 1932 کو امرتسر میں شیخ عبدالعزیز کے گھر میں پیدا ہونے والے محمد یونس نے علم و ادب میں خالد بزمی کے نام سے شہرت پائی ۔وہ 13 جولائی 1999 میں 67  سال کی عمر میں لاہور میں وفات پاگئے تھے ۔ان کی ناگہانی وفات سے ان کا بہت سا ادبی کام شائع ہونے سے رہ گیا تھا ۔خالد بزمی کی بیٹی ہونے کی حیثیت سے میری ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ میں ان کا وہ تمام کام شائع کروا سکوں ۔اسی سلسلے میں  2005 میں  ، میں ان کا نعتیہ مجموعہ  " سبز گنبد دیکھ کر " شائع کروایا اور اب 2023 میں ان کا حمدیہ مجموعہ "جبین نیاز " کے نام سے منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوئی ہوں ۔ الحمدللہأج ان کے 92 ویں یوم ولادت کے موقعہ پر ان کے حمدیہ مجموعہ " جبین نیاز " کے بارے میں کچھ الفاظ حوال قلم کر رہی ہوں ۔ان کے دنیا سے جانے کا دکھ تو ہر لمحہ دل میں موجود رہتا ہے لیکن مجھے یہ خوشی بھی ہوتی ہے ...
بوڑھا درخت۔۔۔۔ علی فیصل

بوڑھا درخت۔۔۔۔ علی فیصل

شاعری
علی فیصل جو ہو چکا ہے کچھ  بوڑھا۔جھک گیا ہے،تھوڑا سا ہے وہ خمیدہ۔ نوخیز پودے اسے ہٹانا چاہتے تھے ۔   اپنی جگہ وسیع تر بنانا چاہتے تھے ۔شجر ناتواں کو جڑوں سے ہٹا کر۔اپنے وجود کو فورا بڑھانا چاہتے تھے۔ بوڑھا درخت انہیں سیراب کرنا چاہتا تھا۔  ان کے ننھے وجود کا سہارا بننا چاہتا تھا۔غافل پودے یہ جان پاتے ہی نہیں۔یہ حقیقت وہ سمجھ پاتے ہی نہیں۔شجر ناتواں کی جڑیں ان کا سہارا تھیں۔ان کی بقاء و زندگی کا استعارہ تھیں۔بوڑھے درخت کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے۔دراصل خود کو یہ کمزور کرنا چاہتے تھے۔ اس شجر کی جڑیں تو بہت گہری تھیں۔ وہ نادان خود پر  ظلم کرنا چاہتے تھے۔  !! ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact