تحریر: حمیرہ شیخ، العین۔
شمسی سال کے مطابق رہا ہوگا یہی کوئی 1996 یا پھر 1997۔ہم درجہ چہارم کے طالب علم تھے۔ ہمارا پیارا سا اسکول جو کہ اس وقت کچھ خاص پیارا نہیں لگتا تھا مگر پھر بھی زندگی کا اہم حصہ تھا۔ اسکول جائے بغیر بھی سکون نہیں رہتا تھا اور چھٹی ہو جانا بھی کسی نعمت سے کم نہیں لگتا تھا۔۔۔زندگی کے اوراق پلٹتے پلٹتے ہم اسی وقت میں گویا لوٹ گئے ہیں۔
خیر اِدھر اُدھر نہ جاتے ہوئے ہم اپنے پیارے اسکول “جامعہ فاروقیہ صبرحد” میں سالانہ جلسہ کی تقریب میں آپکو لے چلتے ہیں۔ یہ وہ جلسہ تھا جس میں نہ صرف طلباء بلکہ اس وقت کے نامور ادباء بھی شرکت فرمایا کرتے تھے۔ جلسہ کی تیاری چار چھ ماہ پہلے سے شروع ہو جاتی تھی۔ اور جن طلباء کو پرفارمنس دینا ہوتی ان کے تو مزے ہو جاتے۔ جن میں ہم بھی شامل تھے۔ خصوصی پروٹوکول کے تحت ریہرسل کرنے کے لیے کلاس سے چھٹی کر کے مشق کے کیے طلب کر لیا جاتا تھا۔ حاضری بھی لگتی تھی اور کلاس سے چھٹی بھی ہو جاتی تھی۔ گویا حاضر کے حاضر بھی اور غائب کے غائب بھی۔
جن طلبا کی آواز اچھی ہوتی وہ حمد،نعت، نظم میں حصہ لیتے۔ اور جن کی آواز میں دم ہوتا وہ تقریر وغیرہ میں حصہ لیتے تھے۔ چونکہ یہ اسلامی مدرسہ تھا لہذا موسیقی کی گندگی اور اس طرح کی تمام خرافات سے بالکل محفوظ تھا۔ جن کی اداکاری اچھی تھی وہ ڈرامہ میں حصہ لیتے۔
اور قران پاک کی تلاوت کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ پورے مدرسہ کا جو بہترین قاری ہوتا وہ تلاوت کرتا تھا اور اسی سے جلسہ کی ابتداء ہوتی تھی۔
خیر! ایسے ہی جلسوں میں سے اک جلسہ سال 1996 کا جلسہ تھا۔ جس کے انعقاد کا مقصد نہ صرف طلباء کی حوصلہ افزائی بلکہ آس پاس کے لوگوں کو تعلیمی شعور بھی دینا تھا۔ جلسہ کے انعقاد کے لیے ایسے موسم کو منتخب کیا گیا تھا کہ نہ زیادہ سردی ہو اور نہ ہی گرمی۔ پھر بھی اس کو دن کے بجائے رات میں رکھا گیا کہ لوگ اپنے کام کاج سے فارغ رہیں اور بھر پور شرکت کر سکیں۔
مغرب کے بعد سے جلسہ کی ابتداء ہوئی جس کو شاہنواز نے تلاوت قران پاک سے رونق بخشی۔ شاہنواز وہ بچہ تھا جس کے پیروں میں پولیو کا مرض تھا۔ اور وہ تیسری کلاس کا طالب علم تھا۔ اگرچہ اس بیماری نے اس کو اوروں سے مختلف کر دیا تھا مگر جب وہ تلاوت کرتا یا نعت پڑھتا تو اک جذب کی کیفیت، اک عجیب سا سکوت ماحول پہ طاری ہو جاتا تھا۔ جب اس نے تلاوت شروع کی تو اس کی آواز کے سحر میں ہر کوئی گرفتار ہوگیا اور انعامی تقریب جو کہ آخر میں پیش آنی تھی اس کا انتظار کیے بغیر سامعین میں بیٹھے اک بزرگ نے اس کو ہدیہ پیش کیا۔ سبحان اللہ! وہ کوئی عامی تھے۔ مجھے اس “ایک روپیہ” کے ہدیہ کا ملنا اور اپنے دل میں پیدا ہونے والے رشک کا احساس؛ دونوں آج بھی یاد ہیں۔ اگر اللہ تعالٰی کسی سے کوئی نعمت لیتے ہیں تو اس کو ضرور ایسا کچھ دیتے ہیں جس سے اچھے اچھے محروم ہوتے ہیں۔ پھر حمد اور نعت کا سلسلہ چلا۔
مختلف زبانوں میں نعت سنائی گئی۔ عربی میں نعت صائمہ اور ان کے ساتھ اک اور طالبہ نے ملکر سنائی تھی۔ بعد میں ان دونوں طالبات کو استری انعام میں ملی تھی۔ اسی دوران عشاء کی اذان ہو گئی۔ (موئذن بھی کیا لوگ ہوتے ہیں! دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے یہ حق کی طرف بلانا نہیں بھولتے۔) پھر کیا تھا کچھ لوگ تو فورا اٹھ گئے اور باقیوں کے لیے اعلان ہوا کہ جلسہ کا سلسلہ نماز کے بعد دوبارہ شروع کیا جائے گا، سارے لوگ نماز کے لیے تشریف لے جائیں۔
آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کہ زمیں بوس ہوئی قوم حجاز
اک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
نماز کے بعد چونکہ کھانے کا وقت تھا اس لیے لوگوں میں سموسے تقسیم کیے گئے۔ وہ سموسہ اب کوئی طباخ نہیں بناتا۔ اس کی لذت ہی الگ ہوا کرتی تھی۔اس میں لوگوں کے اخلاص کا ذائقہ تھا۔ غربا کے چندے سے چلنے والے یہ مدرسے بھی عجیب نعمت ہیں۔
جلسہ کا سلسلہ پھر شروع ہوا اور طلبا کے بعد ادباء نے اپنے ذوق سے جلسہ میں مزید جان ڈال دی۔ تقسیم انعامات کے لیے شرکاء میں سے نامور لوگوں نے اٹھ کر اپنے ہاتھوں سے انعامات بچوں کو دیئے۔ سونے کا انتظام نہیں تھا مگر گاؤں کے سادا لوگ،بعض وہیں قالینوں پہ محو خواب ہو گئے۔ جو مہمان دور سے تشریف لائے تھے ان کے لیے کھانے کا انتظام تھا۔ وہ لوگ کھانے اور آرام کرنے کے لیے اس ہال میں لے جائے گئے جہاں پہلے سے ان کے لیے جگہ مختص کی گئی تھی۔
ہم اور ہمارا چھوٹا بھائی دونوں جلسہ میں آئے تھے۔ ہمارا آنا تو اس لیے ناگزیر تھا کہ ہم نے اک انگریزی کی تقریر اور اک(ٹھیٹ) ہندی میں نعت سنانی تھی اور ہمارا بھائی معاذ کچھ اپنے شوق اور کچھ غالبا ہماری حفاظت کے لیے ساتھ کیے گئے تھے۔ ساتھ آنے تک تو ٹھیک تھا، مسئلہ تب بنا جب ہم کو تمام تقریب کے اختتام پہ ہوش آیا کہ ہمارا محافظ تو خود غائب ہے۔ پیر کے نیچے سے زمین کھسکنا کسے کہتے ہیں یہ خوب سمجھ میں آیا۔ ساری کلاسوں میں جا جا کر ہم نے ہمارے محافظ صاحب کی تلاش شروع کی تو بحمدالله اک کلاس میں دری پہ سوتے ہوئے نظرآئے۔
معاذ کو جگانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا اور گھر تک کھینچ کھانچ کر لانے میں تو دانتوں پسینہ ہی آگیا۔ مگر ہم پھر بھی بہت خوش تھے کیونکہ تیسری پوزیشن لانے پر ایک قلم اور انگریزی کی تقریر پر ملنے والا انعام بھی ساتھ تھا۔
گھر آئے تو امی کو جاگتا پایا۔ مستورات گھر میں لاؤڈ اسپیکر پر ساری تقریب سے مستفید ہوتی رہیں تھیں۔ اور امی کو ہم دونوں کے لوٹنے کا انتظار بھی تھا۔ اپنے انعام کے قلم کو حفاظت سے رکھ کر ہم سونے چلے گئے