Saturday, April 27
Shadow

حفصہ نے خواب دیکھا/ کہانی کار: پروفیسر نسیم امیر عالم

پروفیسر نسیم امیر عالم
حفصہ ایک بہت پیاری بچی تھی ۔بے حد حساس اور ذہین،بطور شاعر اسے علامہ اقبال بہت پسند تھے۔اقبال حفصہ کو اس لیے بھی پسند تھے، کہ انہوں نے مسلمانوں کی آزادی و خودمختاری کا جو خواب دیکھا تھا ۔آج وہ “پاکستان” کی شکل میں پورا ہو گیا تھا۔ اب حفصہ ایک ایسا خواب دیکھنا چاہتی تھی کہ اس کا یہ پیارا وطن جو بدامنی، لوٹ مار، فساد، افراتفری، نفسا نفسی کا گہوارہ بن کر “خراب ستان” بن چکا تھا۔ دوبارہ “پاک ستان” بن جائے۔ وہ دن رات اسی ادھیڑ بن میں رہتی  کہ وہ یہ خواب دیکھے کہ پاکستان “اچھا ملک” بن گیا۔ جیسے قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں کا جذبہ تھا، وہ ہی جذبہ پیدا ہو گیا۔ وہ سمجھتی تھی کہ ایک دن اقبال سوئے اور خواب دیکھا اور جب وہ اٹھے تو خواب سچ ہو گیا۔ اب ننھی حفصہ کو کون سمجھائے کہ خواب عملی کوشش مانگتے ہیں۔ پھر ایک دن یہ ہی سوچتے سوچتے وہ سو گئی۔ آنکھ کھلی تو دیکھا کہ خلاف معمول شور شرابا، چیخ و پکار نہیں تھی۔ اس نے آنکھیں ملتے ہوئے کھڑکی سے باہر جھانکا تو یہ دیکھ کر اس کی حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ گاڑیوں پر سائلنسر لگے ہوئے ہیں۔ نہ شور، نہ دھواں، واہ!

ٹی وی پر خبر سن کر منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ خبر کچھ یوں تھی

کہ ایک صاحب کو 1 لاکھ کا بریف کیس کسی دکان

 سے ملا ہے، جن صاحب کا ہو وہ آکر لے جائیں۔ نیچے پتہ اور فون نمبر بھی درج تھا۔ ابھی وہ یہ خبر سن کر حیران ہو رہی تھی کہ ایک خبر نے اسے چونکا دیا کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اختلافات بھلا کر ملک کو ترقی کی راہ پر دیکھنے کیلیئے  خود کام کرنے کیلیئے سڑکوں پر محنت و مشقت کرنے آگئی ہیں۔ تا کہ عوام کی شکایات دور کی جا سکیں۔

ٹی وی پر تمام بڑے لوگ سائیکل چلاتے اور عام لوگوں کی طرح کام کرتے نظر آرہے تھے۔ واہ پاکستان کے لوگ واقعی “پاک” ہو گئے۔ اس نے بے حد مسرت کے ساتھ سوچا۔ ناشتہ جلدی جلدی کرکے جب وہ اسکول وین میں بیٹھی تو تھوڑی دیر بعد حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا۔ وین کا ڈرائیور تیز رفتاری کی بجائے درمیانی رفتار کے ساتھ وین چلا رہا تھا۔ اور تو اور ایک بوڑھی عورت کے سڑک پار کرنے کے انتظار میں تمام ٹریفک رک گئی تھی۔ وہ اسکول پہنچی تو معلّمات ڈانٹ ڈپٹ اور چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرنے کے بجائے محبت، مرّوت، اور شفقت کا مجسمہ دکھائی دیں۔ اسلامی تہذیب کی علامت “اسکارف” بھی تمام بچیوں کے سر پر نظر آیا۔ اسکول کی اسلامی مگر پر سکون فضا کے بعد جب وہ چھٹی کے بعد گھر کیلیئے روانہ ہوئی تو حسب معمول ٹھیلے پر سے چاٹ خریدی، آج چاٹ والے بابا نے پلاسٹک کےدستانے پہن رکھے تھے۔ چاٹ کم تھی مگر معیاری تھی۔ اور تو اور فروٹ والے چاچا جو کل تک مہنگا فروٹ فروخت رہے تھے آج سستا پھل بیچتے دکھائی دیئے۔ وہ یہ سب دیکھ کر بہت متاثر اور خوش ہوئی۔ آگے چل کر دیکھا کہ کچھ شہری اپنی مدد آپ کے تحت پودے لگا رہے ہیں۔ اپنی گلیوں، محلے کی صفائی خود کر رہے ہیں۔ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آرہی تھی۔ سکون ہی سکون، خوشی ہی خوشی۔ لوگ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے بجائے ایک  دوسرے کو راستہ دے رہے تھے۔ ٹھنڈے میٹھے پانی کی سبیلیں جگہ جگہ نظر آرہی تھیں۔ بچے خوش اور بڑے مطمئن نظر آرہے تھے۔ اور وہ جیسے خواب کے عالم میں تھی۔ یوں شام ہو گئی۔ آج شام دودھ والے نے امی جان سے معافی مانگی کے آئندہ وہ دودھ میں پانی نہیں ملائے گا۔
حفصہ حفصہ! اسے امی کی آواز کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی۔ اور اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ اوہ! تو کیا وہ سب خواب تھا۔ اس نے دکھ کے ساتھ کھوئے ہوئے انداز میں سوچا۔ مگر یہ خواب کب حقیقت بنے گا۔ کیا ایک اور اقبال کی اس وطن کو ضرورت ہے جو آئے اور خواب دیکھے اور وہ خواب سچ ہو جائے۔
ہم نے تو پہلے ہی ننھی حفصہ کو کہہ دیا تھا کہ خواب عملی کوشش مانگتے ہیں۔
“ہے کوئی! جو ننھی حفصہ کا خواب پورا کردے

6 Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact