معاشرہ اور معاشرتی تبدیلی ۔۔۔ سلسلسہ وار کالم 

تحریر: شمس رحمان 

اب تک کا خلاصہ یہ ہے کہ نئئ ایجادات جیسے بھاپی انجن  اور نئے آلات  نے انگلینڈ کی  پیداواری قوتوں   میں بے پناہ اضافہ  کر دیا ۔ اس کا تعلق بھی  ہمارے ساتھ  نوآبادیاتی راج کی وجہ سے یوں جُڑا کہ  اسی بھاپی انجن والے بحری جہازوں  پر  میرپور کے  نوجوان مزدور کسان  برطانیہ پہنچے ۔ اس کے چند عشروں بعد جب بھارت سے  نوآبادیاتی راج  کا خاتمہ ہوا اور ادھر ریاست جموں کشمیر تقسیم ہو گئی  تو ہزاروں کی تعداد میں بے روزگار میرپوری مزدور کسان اورکچھ  سابق فوجی روزگار کی تلاش کے سلسلے میں برطانیہ گئے جہاں انہوں نے  کاٹن ملوں، اینٹوں کے بھٹوں اور فاؤنڈریوں  میں کام سخت محنت طلب کام کیے ۔ 1950 کے عشرے میں میرپور سے کشمیری مزدوروں کی برطانیہ  ‘ چین مائگریشن’ ( لنگڑو لنگڑی۔ سلسلہ وار)  کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد وہاں  مزدوروں کی مانگ میں بہت اضافہ ہو گیا۔ مزدروں کی کمی کو سابق نوآبادیوں سے مزدرو ں کو بلا کر پورا کیا گیا۔  بعد میں نئے امیگریشن قوانین اور منگلا ڈیم  کے نتیجے میں میرپور شہر اور گرد و نواح کے گاؤں کے منگلا جھیل میں غرق  ہونے  کے باعث   اجڑنے والوں   ، خاص طور پر میرپور شہر  کے باسیوں  میں سے بھی کئی نے برطانیہ کا رخ کیا۔

جہاں تک  پیداوار یعنی روزی روٹی پیدا کرنے کے  عمل اور سلسلے کا تعلق ہے میرپور جو اب ‘آزاد’ کشمیر کا ضلع تھا  میں  روزی روٹی پیدا کرنے کا   وہی صدیوں پرانا طریقہ جاری و ساری  تھا ۔  تاہم  اب زمین کے علاوہ ملازمتیں بھی روزی کمانے کا  ایک بڑا ذریعہ بن  رہی تھیں جن کے لیے تنخواہ ‘آزد’ کشمیر کے بجٹ سے دی جاتی تھی جو پاکستان سرکار  آزد کشمیر کے وسائل اور تارکین وطن کے زرمبادلہ کے استعمال کے بدلے دیتی تھی  ۔

   ساٹھ کی دہائی سے زمین کی بجائے  تارکین وطن خاص طور پر برطانیہ سے بھیجا جانے والا پیسہ  روزی کا سب سے بڑا ذریعہ بنتا جا رہا تھا  ، جس  کے نتیجے میں صدیوں سے موجود معاشرتی ڈھانچے کی جڑ بنیاد بدلنا شروع ہو گئی تھی۔  فصل کی شکل میں زمین سے روزی حاصل کرنے کا عمل تیزی سے سکڑنے لگا۔ یعنی اب کاشتکاری  سے وابستہ افراد کی تعداد میں واضح کمی آنا شروع ہو گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جس کا بھی کوئی انگلینڈ میں تھا انہوں نے والدین سے کاشتکاری ختم کروا دی ۔ کیونکہ والدین کو اس سخت محنت و مشقت سے آزاد کروا نا چاہتے تھے جس میں وہ انہیں بچپن سے جُتا ہوا دیکھتے آئے تھے۔ وہ والدین کی زندگیاں آسان بنانا چاہتے تھے ۔

چونکہ انگلینڈ میں  کسی ایک برادری  کے محنت کش ہی نہیں گئے تھے بلکہ  تقریباً ہر ایک برادری کے نوجوان گئے تھے اس لیے اب  مختلف برادریوں کے ‘ ولائیتیوں ‘ نے زمین خریدنے کی قوت حاصل کر لی۔  غیر زمیندار برادریوں کے جو نوجوان برطانیہ  سے کمائی کر کے واپس بھیجنے لگے تو ان کے والدین یا بڑے بھائیوں نے  زمینیں خریدنا شروع کر دیں۔ لہذا   زمین  فصلوں کی بجائے  اب خرید و فروخت کی شکل میں  کمائی کا ایک بڑا ذریعہ  بن کر ابھری۔  اس دوران تین  اور بڑی معاشی سرگرمیوں نے جنم لیا جن کے نتیجے میں معاشرتی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیوں کا آغاز ہوا۔

 ایک تو  پرانا میرپور منگلا ڈیم میں غرق ہونے کے بعد نیا میرپور بنا ، جہاں پرانے میرپور  شہر سے اجڑنے والوں کے ساتھ ساتھ  زیر آب آنے والے سینکڑوں گاؤں سے اجڑنے والے بھی آکر بسنے لگے ۔نئے شہر کی آبادکاری  کے عمل   نے شہر میں نئے سماجی و معاشی اور سیاسی رشتے پیدا کیے ۔

 دوسرے ولایت کے پیسے سے پکے مکانات اور دوکانوں کی تعمیر کا عمل بڑے پیمانے پر شروع ہوا  جس کے نتیجے میں تعمیر سے متعلق اور ساتھ ساتھ  دیگر ضرورت اور تعیش کی  دوکانوں کی مانگ بھی بڑھ گئی جس سے چھوٹے چھوٹے بازار ہر ایک قصبے میں پیدا ہونے لگے۔ غیر زمینداروں کی طرف سے زمین خریدنے اور کاروبار شروع کرنے کے نتیجے میں زمینداری و کاشتکاری معیشت پر قائم قبائلی اور جاگیردارانہ طبقاتی ڈھانچہ زمین بوس ہو گیا۔ اگرچہ ابھی تک میرپور کی زیادہ تر آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے لیکن دیہاتوں کا پرانا تانا بانا یعنی سماجی ڈھانچہ بڑی حد تک  بدل گیا ہے ۔ اب سماجی حیثیت اور رتبہ زمینداری کی بنیاد پر نہیں طے پاتا بلکہ دولت ، کاروبار ،سیاسی اور   سرکاری عہدوں، اور پیشہ ورانہ تعلیم   ( زیادہ پیسے کمانے والے شعبوں) سے متعین ہوتی ہے۔ اس وقت میرپور ڈویژن کے تمام اضلاع کے شہروں اور ارد گرد کے دیہاتوں میں معاشی سرگرمیوں میں زمینداری نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے ( دیگر اضلاع میں شاید صورت حال مختلف ہو لیکن رحجان اسی طرف آگے بڑھ رھا ہے)  ۔ اس کی جگہ اب زمین کی خرید و فروخت ( رئیل اسٹیٹ)  ، مختلف قسم کے بڑے  کاروبار بشمول صحت اور تعلیم کے کاروبار، دوکانداری، دفاتر میں کڑوروں روپوں کی رشوت ، پاکستان کے تمام برانڈوں کے سٹور آمدنی کے بڑے ذرائع ہیں ۔  ان طبقات میں اب آمدنی کا مطلب  روٹی  سے ‘ترقی’ کر کے   امارت اور اثر و رسوخ  بڑھانے    میں  بدل گیا ہے۔

 تیسری عظیم معاشی سرگرمی جس سے میرپور ہی نہیں  آزاد جموں کشمیر کی معیشت پر مقامی اختیار میں بے پناہ اضافہ ہونا تھا وہ تھی  پرائیوٹ  کوآپریٹو بینکوں کا قیام  تھا ۔ بدقسمتی سے اس   بڑے معاشی منصوبے کو پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے جابرانہ اقدامات کے ذریعے ختم کر دیا ۔ بینک بند کر دیے گئے اور  بینکاروں کو جان کے لالے پڑ گئے۔  اکثر لوگ یہ  سمجھتے ہیں کہ ان بینکوں کو اس لیے بند کیا گیا تھا کہ ان کے مالکان چوہدری  برکت اور چوہدری نور حسین وغیرہ  نے فراڈ کیا تھا۔ میں بھی یہی سمجھتا تھا۔ لیکن بعد ازاں جب  برطانیہ میں  کچھ تحقیق کی  تو پتہ چلا کہ  فراڈ کے اس الزام کی مثال لوگ یہ دیتے تھے کہ وہ  بینک  کا پیسہ استعمال کرتے تھے یعنی بینک  کے سرمائے سے سرمایہ کاری کرتے  تھے۔ حالانکہ سارے بینک یہ کرتے ہیں ۔ کچھ جیالے  کہتے ہیں کہ بھٹو سرکار نے صرف میرپور میں  ہی نہیں پاکستان بھر میں نجی بینکوں کو سرکاری ملکیت میں لے لیا تھا۔ تاہم وہ یہ حقیقت نظر انداز کر جاتے ہیں کہ میرپور میں نجی بینکوں کو  سرکاری ملکیت میں نہیں لیا گیا بلکہ بند کر دیا گیا تھا۔

ان تمام معاشی  سرگرمیوں پر تفصیلی تجزیے کی ضرورت ہے لیکن فلحال کم از کم میں اس کے ساتھ انصاف کرنے کے قابل نہیں ہوں۔   اس لیے مجموعی طور پر  پرانے سے نئے میرپور کی طرف  منتقلی کے معاشرتی ڈھانچے پر اثرات یعنی معاشرتی تبدیلی پر کچھ روشنی ڈالنے کی کوشش  تک ہی محدود رہوں گا۔

میرپور کا نیا مادی ڈھانچہ  

 خلاصہ یہ کہ آج میرپور کا پرانا مادی ڈھانچہ نیا روپ دھار  رہا  ہے۔  معاشرتی ڈھانچے کی مادی بنیاد بدل گئی ہے۔ نئی پیداواری قوتوں نے پرانی پیداواری قوتوں کو شکست دے دی ہے۔ یعنی  پیداوار  بدل گئی ہے۔ پیداوار کے آلات بدل گئے ہیں۔ پیداوار کے لیے محنت کے انداز بدل گئے ہیں۔ پیداوار کی تقسیم کے پیمانے بدل گئے ہیں۔ پرانے پیداواری رشتوں کی جگہ نئے پیداواری رشتے لے رہے ہیں ۔    پرانے معاشرتی ڈھانچے کی جگہ نیا معاشرتی ڈھانچہ  لے رہا  ہے۔  آج کا آزاد کشمیر ایک  ایسی منڈی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، جہاں سب کچھ باہر سے آتا ہے ۔ سرمایہ بھی اور مال بھی۔ صرف صارفین مقامی ہیں ۔

قبائلی و جاگیرداری سے دوکانداری/ سوداگری معاشرے کا سفر

اس وقت تک کے تجزیے کا نچوڑ یہ ہے  کہ مختلف تاریخی حالات اور واقعات  ( اتھل پتھل)  کی وجہ  سے  میرپور کے پرانے ڈھانچے کی جگہ نیا ڈھانچہ  لے رہا ہے۔ اب آیے یہاں سے آگے  قدرے تفصیل سے دیکھتے ہیں کہ نیا ڈھانچہ کیا ہے؟  کیسا ہے؟   کسی معاشرے کے ڈھانچے کا پتہ  کیسے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کیسا ہے؟   ویسے تو اس کے لیے مختلف  عینکیں ( نظریات ) موجود ہیں جو معاشرے کو مختلف زاویوں سے دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔ تاہم ، ہم نے اس مضمون میں چونکہ تاریخی مادیت کو چُنا ہے اس لیے اس ہی کی عینک سے دیکھیں گے۔  اگر ہم غور سے سنتالیس کے پہلے کے معاشرے کا  بعد  کے معاشرے سے موازنہ کریں تو واضح نظر آئے گا کہ  پیداوار یعنی روٹی روزی  کے ذرائع ،  پیداوار کےآلات،  پیداواری قوتوں اور پیداواری تعلقات کی معاشی  بنیا د  بدلنے کے نتیجے میں سماجی، سیاسی و ثقافتی تعلقات   میں بھی  تبدیلی کا  عمل شروع ہوا ہے جو بتدریج واضح ہوتا جا رہا ہے۔

مادی حالات میں تبدیلی کے اثرات  

اب ذرا قریب سے دیکھتے ہیں کہ   مادی حالات جس کو معاشرے کی  مادی بنیاد بھی کہا جاتا ہے میں کیا تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ پہلے عمومی تناظر پیش کرنے کے بعد   تبدیلیوں پر بات   کی گئی ہے کہ  پیداوار، پیداوار  کے ذرائع، پیداوار کے آلات، پیداواری قوتیں اور  پیداوری تعلقات  میں کیا تبدیلیاں  ہوئیں اور اب کیا ہے ؟

نوآبادیاتی راج میں رہنے والے  معاشروں کا مطالعہ کرتے وقت ایک اہم بات جو ہمیں ذہن میں رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ نوآبادیاتی راج کی وجہ سے ہمارے معاشروں کے ڈھانچوں ( معاشرتی ڈھانچوں)   کے اندر   ایک  نیا، بہت بڑا ، گہرا اور بنیادی تضاد پیدا ہو گیا۔ نیا اس لیے کہ   جنوب ایشیائی علاقوں پر کسی بیرونی طاقت کی  طرف  سے  اگرچہ یہ پہلا قبضہ نہیں تھا۔ اس سے پینسٹھ ہزار سال پہلے افریقہ سے آنے والے شکاری باشندوں  سے لے کر    تیرہ سو سال پہلے محمود غزنوی تک  آٹھ مختلف بیرونی حاکموں نے  برصغیر پر راج کیا ۔ ہر عہد میں ظاہر ہے کہ مقامی ارتقائی عمل پر اچھے اور  بُرے اثرات مرتب ہوئے۔

تاہم انگریزی  راج پیداوار اور تجارت کا   ایک ایسا نیا نظام لے کر آیا جو پہلے دنیا میں موجود ہی نہیں تھا۔ سرمایہ داری نظام  اور اس سے پیدا ہونے والے سیاسی، انتظامی، حکومتی ، معاشی اور ثقافتی ادارے    سہولویں صدی سے برطانیہ میں سرمایہ داری  طرز پیداوار  کی ‘کوکھ’ سے پیدا ہوئے اور پروان چڑھے تھے۔ ان کو بتدریج برصغیر میں لاگو کیا گیا  ، خاص طور سے زمینوں کے انتظام و انصرام   یعنی پیدوار کے سب سے بڑے ذریعے پر ، تو یہاں کے  نظام کی جڑ بنیاد     بدل گئی۔ لیکن اس نئے نظام کو سمجھنے کے لیے درکار تعلیم  تک صرف ایک اقلیت کو ہی رسائی حاصل تھی اس لیے اکثریت اس نظام  سے  نا واقف رہی ، اس لحاظ سے کہ یہ اصل میں کیسے پیدا ہوا اور کیسے کا م کرتا ہے۔ برطانیہ میں جوں جوں سرمایہ داری ترقی کرتی گئی جاگیرداری کے غلبے اور اجارے کے ادارے ایک ایک کر کے پسپا ہوتے گئے۔  کلیسا، بادشاہ اور جاگیرداروں کی جگہ طاقت  سرمایہ دار، پارلیمنٹ اور سیکولر  سول سوسائٹی کے  اداروں کے پاس منتقل ہو گئی۔ اسی میں خاص طور سے جمہوری اور بائیں بازو کے فعال ارکان (  فعالیوں)  کی طرف سے   نوآبادیاتی راج یعنی دوسرے ممالک پر قبضوں  کی مخالفت بھی ہوئی اور نوآبادیاتی نظام مخالف تحریکوں کو حمایت بھی ملی۔

ہمارے ہاں آزادی  کی تحریکیں تو کامیاب ہو گئیں  ( جیسے میرپور/ آزاد کشمیر میں بھی مہاراجہ راج تو ختم ہو گیا) لیکن     سرمایہ داری کی بنیاد  صنعت کاری جس میں سے  مزدوری ، مزدور تحریکیں اور  جمہوریت پیدا ہوئی تھی   فروغ نہ پا سکی۔    عوام کو سیاست کار نظریاتی خوابوں کے ذریعے تحریک دیتے رہے۔  تاہم  عملی طور پر آج بھی معاشرے میں کئی صدیاں اکٹھے چل رہی ہیں  ۔ کچھ خطوں اور طبقوں میں جہاز کی رفتار سے اور کچھ میں   ریڑھے کی رفتار سے  گھسٹ رہی ہیں۔ یہ تضاد اب بھی  معاشروں کو پیچھے کی طرف کھینچے ہوئے ہے۔  کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ سرمایہ داری نظام میں  سب مسائل و مصائب کا حل مل جاتا ہے۔ کہیں بھی نہیں ملا۔ تاہم جاگیرداری اور قبائلی معاشی اور سیاسی نظاموں  کی بے شمار پسماندگیوں، محرومیوں اور  فرسودگیوں سے  عوام کی اکثریت کو خلاصی  مل  جاتی ہے۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact