رپورٹ: ارشد ابرار ارش
ہمارے ہاں ، اجاڑنے اور بگاڑنے والے ہاتھ ہزار ہوتے ہیں جبکہ سنوارنے والے چار بھی نہیں ہوتے۔
یہ احوال حبس بھرے دن میں منعقد ہونے والی ایک پر وقار تقریب کا ہے جس کے روحٍ رواں ڈاکٹر خاور چوہدری ہیں اور یہ قصبہ ”حضرو “ کے نام سے اپنی پہچان رکھتا ہے جو اپنی زرخیز مٹی میں علم و ادب کی ایک وسیع داستان سموئے ہوئےہے ۔
میں ایک طویل ہال نما کمرے میں موجود ہوں ۔
“سات جنم “کے خالق معروف ناول نگار شفقت نغمی صاحب اپنے مکمل خد و خال کے ساتھ براجمان ہیں سامنے مرکزی نشستوں پر سابق فیڈرل سیکریٹری اور
پہلو میں ادبی شاخسار ”خوشبو کی دیوار کے پیچھے“ والے حمیدشاہد صاحب بیٹھے ہیں۔ جبکہ اگلی نشستوں پر سابق جسٹس صغیر حسن صاحب ، ڈین اوپن یونیورسٹی ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر ، پرنسپل ڈاکٹر ایاز ، پروفیسر ڈاکٹر عمر فاروق کے ساتھ علاقہ حضرو دھرتی کے کئی علمی و ادبی چہرے اپنی صبیح صورتوں اور روشن آنکھوں کے ساتھ موجود ہیں۔
چھچھ چوراسی “ کے نام سے اس پانچویں سالانہ تقریب کی تمام تر ذمہ داریاں
ڈاکٹر خاور چوہدری کے مضبوط کندھوں پر ہیں۔
وہ مائیک سنبھالتے ہیں ، مسکراتے ہوۓ اپنے لوگوں کے نام پکارتے ہیں ، حضرور کی ادبی تاریخ سناتے ہیں اور اس حبس بھرے دن تقریب میں موجود لوگوں کو پانی بھی پلا رہے ہیں کہ جیسے اس ہال میں شامل مختلف شہروں سےآئے ہوئے تمام مہمان ان کے اپنے کنبے اور خاندان سے ہیں ۔
کوئی بناوٹ نہیں ، بیس کتابوں کے خالق ہیں مگر پیشانی پر ایک بھی بل نہیں ، آنکھوں میں تفاخر کا شائبہ نہیں ، برتاؤ میں محبت ہے وہ جیسے فصاحت سے گردن تک بھری ہوئی کوئی صراحی ہیں یا لبالب بھرا ہوا کوئی جام سفال ہیں جو چھلکتا بھی نہیں اور سیراب بھی کیے جاتا ہے ۔
پانچ ماہ قبل جب اس ایوارڈ کی بابت پڑھا تو اپنی ازلی سستی کے سبب نیوز فیڈ سکرول کرتا آگے بڑھ گیا مگر ڈاکٹر صاحب سے گفتگو ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ تنظیم ہر ایک کو ریورڑیاں نہیں بانٹتی بلکہ ایک جیوری اور انتظامی کمیٹی کی جانچ پڑتال ، پرکھ اور باہمی مشاورت کے سانچے سے گزرنے کے بعد ہی قلمکاروں کا انتخاب کرتی ہے ۔
کتابیں بھیج دیں ، پانچ ماہ بیچ میں دبے پاؤں گزر گئے اور پانچ دن قبل ایک پیغام موصول ہوا
آپ کی کتاب ڈاکٹر حامد مرزا ایوارڈ کیلیے منتخب کی گئی ہے کیا آپ مقررہ تاریخ پر شرکت کر سکتے ہیں ؟
” اگر سفر محال ہے تو یہ ایوارڈ بذریعہ کورئیربھی ارسال کیا جا سکتا ہے ”
مگر میں پہنچ گیا ۔
عمروں کے تفاوت کے حامل لوگوں سے ہال بھرا ہوا ہے ۔ ضعیف و ناتواں باریش بزرگ بھی ہیں ،
علم و دانش کے پیکر مدرس و معلم بھی موجود ہیں ،
اور ارود ادب کی کئی چلتی پھرتی زندہ کتابیں بھی میرے سامنے براجمان ہیں۔
کسی نے فلاح عامہ کیلیے لائبریری کی بنیاد رکھی ہے ۔
کسی نے مقامی سطح پر ادبی مجلہ جاری کیا ہے تو کوئی کتاب کے فروغ کےلیے دن رات کوشاں ہے ۔
یہ تمام، قصبہ حضرو کے مضافاتی چہرے ہیں ۔
حضرو جو علم کا گہوارہ ہے ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں کبھی بلخ و بخارا سے لوگ تحصیل علم کے لیے سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے اس مٹی سے زرخیز ہوتے ، فیض پاتے اور بانٹتے تھے ۔
میں ان سب لوگوں کے لیے انجان چہرہ ہوں مگر باری باری محبت و شفقت سے گندھے ہوئے لوگ آتے ہیں ،
مجھے مبارک دیتے ہیں اور مہمان نوازی کی اجازت چاہتے ہیں ۔ مگر واپسی لازم تھی کہ جینے کے واسطےکئی جتن اور بھی کرنے ہوتے ہیں سو محبت سے بھرے ہوۓ ان لوگوں کے ساتھ ایک عہد باندھ کر گاڑی پکڑی اور اپنے شہر بے مہر کو لوٹ آیا ۔