Sunday, May 12
Shadow

راولاکوٹ کی خواتین لکھاری تحریر:  ڈ اکٹر محمد صغیر خان

تحریر:  ڈ اکٹر محمد صغیر خان

                    چنگی سنگی تہذیب کے حامل اس علاقے کی عمومی معاشرت اور زندگی اپنے ہی خوبصورت رنگوں سے مہکتی چہکتی رہتی ہے۔ اگرچہ یہاں کے لوگ جذباتی، غصہ ور، کسی قدر راست گو اور بہت سے حوالوں سے ’بھولے بادشاہ‘ بھی ہیں۔ لیکن یہاں مدت مدید سے تعلیم و تعلّم کو بہرحال خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ تعلیم کے باب میں جہاں مردوں کو توجہ کا مرکز جانا مانا گیا، وہاں تعلیم نسواں کے حوالے سے بھی ہمیشہ سرگرمی دیکھی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس علاقے میں تعلیم یافتہ خواتین کی تعداد مردوں کے برابر نہیں بلکہ ان سے کئی زیادہ ہے۔ یہ امر اپنے تئیں ایک خوش بختی ہے اور بلند فکری بھی تو ساتھ ہی اعلیٰ ظرفی اور کشادہ قلبی بھی۔ تعلیم نسواں کو اس علاقے میں عام کرنے میں اگرچہ بزرگوں کی سرپرستی ضرور رہی ہے لیکن اس کی بنیاد افسر جان استانی، فاطمہ استانی، حمیدہ استانی، فیروزہ استانی اور اقبال نشاں استانی جیسی قابل صدر تکریم و تقلید خواتین ہی کے ہاتھوں پڑی۔

                    خواتین میں اعلیٰ تعلیم کے ذوق کو آگے بڑھانے میں سردار بہادر علی خان پوسٹ گریجویٹ کالج کھڑک کا کردار نمایاں رہا ہے۔ یہ ادارہ ابتداء سے ہی تعلیم نسواں کا محور و مرکز رہا ہے اور بلاشبہ آج راولاکوٹ بلکہ پورے پونچھ میں خواتین کی بے مثل تعلیم میں اس کے کردار کی اہمیت مسلمہ ہے۔

                    گرلز کالج کھڑک اور اس علاقے میں تعلیم نسواں کی بات ہو تو جہاں اور بہت سے کرداروں کا ذکر لازمی ہے وہاں میڈم خالدہ شمسی کا تذکرہ بہرحال اہم ہے۔ میڈم خالدہ شمسی نے بطور استاد بالعموم اور بطور پرنسپل گرلز کالج کھڑک اس علاقے میں تعلیم کو عام کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ میڈم خالدہ شمسی نے جہاں علمی میدان میں فی میل ایجوکیشن کی حوصلہ افزائی و رہنمائی کی وہاں ادبی و تخلیقی عمل میں بھی اساتذہ و طالبات کو آگے بڑھنے کا ہنر سکھایا۔ اگر راولاکوٹ کی ادبی تاریخ اور اس میں خواتین کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو اس باب میں اوّلیت کا سہرا یقینا میڈم خالدہ شمسی ہی کے سر سجتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے دور میں ناصرف ’بزم ادب‘ کے ذریعے اساتذہ و طالبات کو ادبی عمل سے روشناس کروایا بلکہ اہم ادبی تقریبات کے انعقاد سے خواتین میں ادبی شعور بھی اُجاگر کیا۔ میڈم خالدہ شمسی خود بھی قلم و قرطاس سے خصوصی تعلق رکھتی تھیں اس کی کئی تحریریں یقینا قابل لحاظ ہیں۔

                    میڈم خالدہ شمسی کے بعد اس علاقے کی ادبی تاریخ میں جو دوسرا نام بہت باوقار گنا جاتا ہے وہ ڈاکٹر عذرالطیف ہے۔ ڈاکٹر عذرالطیف اُردو کی پروفیسر بھی ہیں، وہ خود بھی بہترین تخلیق کار تھیں۔ ازاں بعد وہ لاہور منتقل ہو گئی تھیں۔ وہاں رہتے ہوئے اُنہوں نے ’’اُردو میں نثری نظم… ارتقاء اور امکانات‘‘ جیسے اہم موضوع پر ڈاکٹریٹ کیا۔ ڈاکٹر عذرالطیف کی متعدد تحریریں اگر مرتب ہوں تو مقامی ادبی تاریخ کے لئے خاصے کی چیز ہو گی۔

                    پروفیسر غلام شہناز (پرنسپل پی جی سی کھڑک) ایک اہم مقامی لکھاری ہیں۔ وہ بنیادی طور پر اُردو کی استاد ہیں۔ وہ مستقل طور پر مضامین و مقالات وغیرہ لکھتی رہتی ہیں۔ اُنہوں نے معروف ادیب، محقق و شاعر، ڈاکٹر صابر آفاقی کے فن و شخصیت پر مقالہ لکھ کر ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔ محترمہ غلام شہناز نے طالبات میں ادبی شعور کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

                    ڈاکٹر عظمیٰ جو بنیادی طور پر اسلامیات کی استاد ہیں، نے بھی ہمیشہ اپنا تعلق تحقیق و تحریر سے برقرار رکھا ہے۔ اسلامی حوالے سے خواتین کے کردار پر ان کی جامع و مختصر تصنیف ایک اہم دستاویز ہے۔

                    پروفیسر نسیم سلیمان گرلز کالج ریڑ بن کی پرنسپل ہیں۔ وہ ادب سے گہرا شغف رکھتی ہیں۔ ان کی دو تصانیف ’’یادوں کی الماری‘‘ اور ’’دیپ بکھری یادوں کے‘‘ طبع ہو چکی ہیں۔ ان کی تیسری تصنیف ’’اشکوں کے دئیے‘‘ زیرطبع ہے۔ مقامی ادبی تاریخ میں ان کو نثری تخلیق میں اوّلیت کا اعزاز حاصل ہے۔

                    پروفیسر سلمیٰ اکرم گرلز کالج کھڑک کے شعبہ اُردو میں استاد ہیں۔ وہ بہترین اد بی و شعری ذوق رکھتی ہیں اور گاہے بگاہے لکھتی رہتی ہیں۔ ’’پونچھ میں شعری روایت‘‘ جیسے اہم موضوع پر مقالہ لکھ کر اُنہوں نے الخیر یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔ پروفیسر موصوفہ کم کم مگر بہترین شاعری کرتی ہیں۔

                    پروفیسر عائشہ یوسف ایک متحرک ادبی کردار اور تخلیق کار ہیں۔ وہ بھی گرلز کالج کھڑک کے شعبہ اُردو میں استاد ہیں۔ اُنہوں نے ’’آغاناصر کی شخصیت اور فن‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھا اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ اخبارات اور رسائل میں تحقیقی و تخلیقی مضامین برابر لکھتی آ رہی ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے وہ ’’گنجینہء گوہر‘‘ کے نام سے مقامی اخبارات میں کالم بھی لکھ رہی ہیں۔

                    مقامی شعری روایت کا جائزہ لیں تو محترمہ شازیہ کیانی کا نام اوّلین میں شمار ہوتا ہے۔ شازیہ کیانی جو کئی برسوں سے امریکا میں مقیم ہیں، کا اوّلین شعری مجموعہ ’’کبھی ایسا ہوا جاناں‘‘ 2000ء میں شائع ہوا۔ علاوہ ازیں ان کی نثری تحریریں بھی گاہے بگاہے شائع ہوتی رہتی ہیں۔

                    ابتدائی تخلیق کاروں میں ایک اہم نام نادرہ آرزوؔ کا ہے۔ نادرہ آرزو کا شعری مجموعہ کوئی دو دہائیاں قبل ’’دردکی سند‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا اور خاصی پذیرائی حاصل کی تھی۔

                    مقامی ادبی تاریخ میں شکیلہ تبسم کا حوالہ کافی اہم ہے۔ اس کا شعری مجموعہ ’’دھنک کے رنگ‘‘ کے عنوان تلے کئی برس پہلے شائع ہوا تھا۔ علاوہ ازیں وہ کام بھی لکھتی ہیں اور ان کے کئی افسانے بھی طبع ہو چکے ہیں۔ وہ مقامی ادبی سرگرمیوں میں کافی متحرک رہتی ہیں۔

                    غزالہ غزل، مقامی خواتین شعراء میں خاصی ممعروف ہیں۔ وہ کئی برسوں سے شاعری کرتی آ رہی ہیں۔ اسی طرح کرن عزیز کشمیری بھی قریب قریب راولاکوٹ سے متعلق کالم نگار ہیں جو مقامی اخبارات میں مستقل لکھتی آ رہی ہیں۔

                    مقامی خواتین لکھاریوں میں سمائرہ ایاز بھی ایک اعتبار اور وقار رکھتی ہیں۔ پی جی سی بوائز راولاکوٹ میں اُردو کی استاد ہیں۔ اُنہوں نے آزادکشمیر میں اُردو سفرنامے کی روایت پر ایم فل کر رکھا ہے۔ ان کی تحریریں اور مضامین مختلف جرائد میں مستقل شائع ہوتے رہتے ہیں۔

                    راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والی خواتین اہل قلم میں ایک اہم نام محترمہ رابعہ رزاق ہے۔ رابعہ رزاق آج کل کراچی میں مقیم ہیں۔ وہ بنیادی طور پر کہانی کار ہیں۔ ان کا ایک ناول بھی طبع ہو چکا ہے، جبکہ ’’جیو‘‘ اور دوسرے معروف ٹی وی چینلز کے لئے وہ کئی ڈرامے تخلیق کر چکی ہیں۔

                    مقامی لکھاریوں میں عنبرین تبسم بٹ بھی اہم شمار ہوتی ہیں۔ وہ مختلف موضوعات پر مضامین اور کہانیاں لکھتی رہی ہیں۔ متذکرہ بالا خواتین کے علاوہ بھی کئی خواتین سنجیدہ اور گہرا ادبی ذوق و شعور رکھتی ہیں اور مختلف اصناف میں طبع آزمائی بھی کرتی ہیں۔

                    راولاکوٹ میں تعلیم نسواں کی شرح کے حوالے سے دیکھا جائے تو یقینا یہاں کی ادبی روایت میں خواتین قلمکاروں کا حصہ اس سے کئی زیادہ ہونا چاہیے لیکن شاید مخصوص مقامی حالات کے باعث خواتین علم کی طرف تو پورے زورو شور سے راغب ہوئیں اور ہیں مگر ادب سے بوجوہ دور نہیں تو ذرا گریز پارہی ہیں۔ لیکن کسی قدر ’’کم پرتی‘‘ کے باوجود یقینا مقامی طور پر ایک جاندار و شاندار ادبی روایت موجود ہے جسے یقینا آنے والے کل مزید ترقی اور بڑھوتری ملے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact