نام کتاب: چہ میگوئیاں(افسانچے)
مصنفہ:ناہید گل
اشاعت:2024
سرورق:آئینہ خان
پبلشر:پریس فار پیس
تاثرات: آرسی رؤف
ایک قاری تحاریر کے آئینے میں مصنف کو پرکھتا ہے تو دوسرا تحریر کی بنت، اس کے پیغام اور مقصد کو مقدم رکھتا ہے۔میں نے جب جب ناہید کی تحریر کو پڑھا دونوں ہی پہلوؤں سے جانچنے کی کوشش کی ۔اولین الذکر پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی تحاریر کو شخصیت کے آئینے میں دیکھوں تو یہ کسی سلجھی ہوئی ،ریاضت پسند، آموزش کی دلدادہ شخصیت کی فنکاری کا منہ بولتا ثبوت پیش کرتی ہیں اور اگر ان کی شخصیت کو ایک طرف رکھ دوں اور اس سے ہٹ کر تحریر کو دیکھوں تو ان کا قد کاٹھ ان کی عمر سے کہیں بلند دکھائی دیتا ہے۔
گویا وہ کوئی پیدائشی قلم کار تو ہیں ہی سیکھنے کے عمل میں کود پڑیں توایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹتیں تا وقتیکہ کہ کوئی نثر پارہ یا شعری متاع قاری کے ہاتھ میں نہ تھما دیں۔
ایسا ہی کچھ معاملہ “چہ مگوئیاں ” کا بھی ہے۔ابھی چہ میگوئیوں کا آغاز ہی ہوا تھا،اور اس سے پہلے کی ادھر ادھر سے کوئی یلغار ہوتی ناہید گل صاحبہ کی “چہ میگوئیاں” سبقت لے گئیں۔جنہیں سب فقط چہ میگوئیاں ہی گماں کئے بیٹھے تھے خراماں خراماں ان کے ہاتھوں میں حقیقت کا روپ دھارے موجود تھی۔
آئینہ خان کا تخلیق کردہ سرورق اس قدر خوبصورت ہے کہ اس کی دل کھول کر پذیرائی نہ کرنا ناانصافی ہو گی۔
افسانچے کے اسلوب سے خوب میل کھاتا سرورق آنکھوں کے رستے دل میں اتر گیا۔
تقریبا نوے صفحات پر پھیلے ہوئے افسانچے ہوں یا اگلے چند صفحات پر موجود یک سطری افسانچے ، یا پھر اس سے آگے کے صفحات پر موجود مختصر معاشرتی اور پراسرار کہانیاں ہر ایک ہی ایک منفرد پلاٹ کا حامل نثر پارہ ہے۔ جو دعوت فکر بھی دیتا ہے اور معاشرے کے تاریک پہلوؤں کی قلعی بھی خوب کھولتا ہے۔جملوں کی کاٹ اس قدر عمدہ ہے کہ دیر تک روح پر جس کا گھاؤ محسوس ہوتا ہے۔مثلا افسانچہ “چھان بورا” میں
“تھیلے میں باسی روٹیاں دیکھ کر عشرت اور بچوں کی باچھیں کھل اٹھیں۔”گویا غربت کدے میں موجود خاتون کا عشرت ہونا ہے معاشرے میں میں موجود غربت کا فسانہ بیان کر رہا ہے۔
افسانچہ فرق کی پنچ لائن ملاحظہ ہو
“ابا نے واقعتا مجھ میں اور بھوری میں کوئی فرق نہیں رکھا۔”
کہیں کہیں فقروں یا جملوں کی بجائے کاٹ مکمل طور پر خیال کے در پر یوں ہتھوڑے برساتی ہے کہ جیسے قاری کے سامنے مجسم ہوکر۔ ان کی کہانی “بھدے ہاتھ۔” کچھ ایسی ہی ہے۔
“نام “ان تمام مصنفات کے دل سے اٹھتی ہوک کا بیان ہے جو اپنے بھائی ،باپ، شوہر کے ناموں کا استعمال کرتے ہوئے یا پھر فرضی ناموں سے لکھ رہی ہیں۔
یہ کہنا ہر گز مبالغہ نہیں کہ اتنی تعداد میں افسانچے کسی اور خاتون کے موئے قلم سے وارد نہیں ہوئے۔پھر ہر تحریر کے منفرد پلاٹ اپنے اندر قاری کو پڑھتے چلے جانے پر مائل رکھتے ہیں یہ مصنفہ کی ذائد خوبی ہے۔
گویا ہر تحریر اتنی متنوع ہے کہ اس پر فردا فردا ایک دفتر تحریر کیاجا سکتا ہے گویا چھوٹے سے افسانچے میں پوری زندگی کو تفسیر کر دیا گیا ہو۔
پیاری مصنفہ کو “چہ میگوئیاں” کرنے میرا مطلب لکھنے پر بہت مبارک باد۔
حرف آخر
آخر میں یہ کہوں گی کہ پریس فار پیس کے تحت چھپنے والی اس کتاب کا ایک ایک صفحہ بھی اگر روزانہ پڑھا جائے تو بوریت کا سوال تو کیا پیدا ہو گا ، فکر کو خوب مہمیز عطا ہو گی۔