تحریر : شمس رحمان
یوں تو ‘آزاد’ جموں کشمیر میں مزاحمتی یا متبادل سیاست کرنے والوں  کی طرف سے   احتجاج  کی روایت نئی ہر گز نہیں  ہے بلکہ 1947 میں     جب مسلم کانفرنس  کو یہ حکومت ‘بنا کر’   دی گئی تھی تب سے  متبادل مزاحمتی سیاست بھی موجو رہی ہے جو 1947 سے پہلے والے میرپور    میں موجود  تھی۔ تب سے  05 ستمبر 2023 تک بیسیوں تحریکیں ابھریں اور  ہزاروں احتجاج ہوئے ۔ تاہم ان میں سے   کسی  تحریک یاا  حتجاج  کی سطح حقیقی معنوں میں آزاد کشمیر اور نوعیت  عوامی نہیں تھی۔  نام  اور دعوے ضرور   ریاستی  سطح کے رہے ہیں۔
گزشتہ برس ستمبر  کے مہینے میں جب میں دس سال بعد  برطانیہ سے واپس وطن گیا    تو اپریل 2023  تک قیام کے دوران مختلف سطحوں ، پیشوں، سیاسی وابستگیوں کے سیاسی اور ‘غیر سیاسی’ افراد سے ملاقاتوں اور بات چیت  کے موقع ملے ۔ یہ تو واضح تھا کہ عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن متبادل اور مزاحمتی سیاسی جماعتیں جو اب ایک خاصی تعداد میں پائی جاتی ہیں  اور کی حمایت میں بھی   مسلسل اضافہ  ہو رہا ہے ان میں سے کسی کی طرف سے عوامی مسائل و مشکلات  کے خلاف عوام جدوجہد کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہ آئی ۔ سوائے اس  تاثر کے کہ لوگ بے حس  ہو چکے ہیں جی۔ کسی کو کوئی پراوہ ہی نہیں ہے۔ بریانی کی پلیٹ کو آزادی پر ترجیح دیتے ہیں ۔ یا پھر یہ کہ لوگ اقتداری سیاست دانوں  کے شکنجے سے نکلنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کیونکہ  شکنجے پر برادری کے نام کا تالا لگا ہوا ہے اور چابی اقتداری سیاست دانوں کے پاس ہے۔ کچھ  کو یہ کہتے بھی سنا کہ جو کچھ  لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے یہ ان کا ‘علاج’ ہے۔
 اس پر یہ مختصر سا مکالمہ بھی ہوا۔
کیوں بھائی؟
اس لیے کہ ان ۔۔۔ کو ووٹ ہی کیوں دیتے ہیں؟َ اب بھگتیں ۔
تو کس کو ووٹ دیں؟
کسی پڑھے لکھے سلجھے ہوئے  شریف آدمی کو۔
وہ کہاں ہیں؟
شریف آدمی تو سیاست میں آتا ہی نہیں جناب۔
خود مختاری والوں  سے پوچھا کہ انتخابات میں حصہ لینے  میں کیا حرج ہے۔ جواب ملا کہ جب تک الحاق کے نظریے والی شق موجود ہے انتخابات میں جانا ممکن نہیں۔
اس شق کے خلاف مہم بھی تو نہیں چل رہی؟
اس لولی لنگڑی اسمبلی میں چلے بھی جائیں تو کیا ہوگا جی۔ ہمیں تو پوری ریاست کو متحد اور خود مختار بنانا ہے تب جا کر جو اسمبلی قائم ہو گی وہ با اختیار ہو گی ۔
تب تک لوگ کیا کریں۔
وہی جو کر رہے ہیں۔ بھاگیں جھنڈی والی گاڑیوں کے پیچھے ٹوٹی سڑکوں پر بھوکے پیٹ اور  ننگے پاؤں۔
مایوسی  سی  مایوسی   ہر طرف  محسوس ہوئی۔ اس دوران   عبدالجبار بٹ کے گھر پر عوامی ایکشن کمیٹی  کے بارے میں معلوم ہوا۔
عوامی ایکشن کمیٹیاں
 یہ تو پہلے ہی معلوم تھا کہ پونچھ میں گزشتہ سال یعنی 2022 سے   کمیٹی متحرک تھی لیکن میں سمجھتا تھا کہ شاید وہ آٹے کی سبسڈی اور پندرھویں ترمیم کی حد تک تھی  ۔ تاہم اب پتہ چلا کہ کمیٹی  نہ صرف متحرک ہے بلکہ اس کے تنظیمی ڈھانچے اور مقاصد میں بھی وسعت پیدا ہو رہی تھی۔
کہیں کہیں اس گیت کی صداء بھی آتی تھی ۔۔۔ ہم محنت کش اس دنیا سے جب اپنا حصہ مانگیں گے ۔۔۔ اک کھیت نہیں ، اک  باغ  نہیں ۔۔ ہم ساری دنیا مانگیں گے۔  (شاید فیض احمد فض کا کلام ہے جو  فلم مزدور میں گایا گیا تھا)۔
دوبارہ جولائی 2023 کے آخر میں گیا  تو    میرپور عوامی ایکشن کمیٹی  کوٹلی میں عوامی ایکشن کمیٹیوں کے ‘ گرینڈ جرگے’  میں شرکت کا موقع ملا ۔ یہ پونچھ اور میرپور  ڈویژن کی کمیٹیوں کا   ” بڑا گہٹھ ”  یعنی مرکزی اجلاس تھا۔ اس  میں عمر نذیر صاحب نے موجودہ تحریک کا مختصر پس منظر اور غرض و غایت بیان کی۔   پس منظر میں  دیوار پر لگے بینر  پر تین مطالبات لکھے ہوئے تھے ۔
1۔  بجلی کے بلات  میں ظالمانہ  ٹیکسز کا خاتمہ
2۔ آٹا سمیٹ اشیائے خرد و نوش   پر سبسڈی ( کھانے پینے کی چیزوں   کی رعایتی قیمتوں  )   کی بحالی
3۔ حکمران طبقات، اشرافیہ اور  ججوں کی مراعات کا خاتمہ
اس اجلاس میں جے کے ایل ایف  کے دو  دھڑوں کے  سربراہان سردار صغیر اور ڈاکٹر توقیر کو دیکھ اور سن کر اچھا لگا۔ لیاقت حیات بھی ہوتے تو اور اچھا ہوتا۔   ڈاکٹر توقیر نے   اپنے مختصر خطاب میں  میرپور عوامی ایکشن  کمیٹی کی نمائندگی کرنے والے   نوجوان ہنما نغمان عارف  کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے   عوامی ایکشن کمیٹیوں کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا۔
 سردار صغیر صاحب نے بتایا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کی اس موجودہ تحریک کا آغاز انجمن تاجراں اور سول سوسائٹی نے راولاکوٹ سے کیا تھا۔ بعد میں جب عوام کا رحجان ان کی طرف ہو گیا تو ‘لوگوں’ نے ان کی راہ کو درست سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ جڑت کا اظہار کیا۔ سردار صغیر نے  کہا کہ عوامی تحریکوں کو دو اطراف سے خطرہ  ہوتا ہے   ۔  ایک تو بالادست طبقات کی طرف سے جو تحریکوں میں ‘ اپنے بندے’  بھیج کر  انتشار پھیلاتے ہیں اور دوسرے  ان حلقوں اور قوتوں   سے جو اپنے حامیوں    کو ایکشن کمیٹیوں سے  کاٹ کر تحریک کو    ہائی جیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔  انہوں نے یہ چتاونی بھی دی کہ تحریک  کا ایپی سنٹر   ‘ انجمن تاجران، سول سوسائٹی ‘ راولاکوٹ ہے اگر اس  کو ‘ ڈسٹرب’ کرنے کی کوشش کی گئی تو  یہ تحریک درست سمت میں موثر انداز میں آگے  نہیں بڑھ سکے گی۔
اجلاس کے آخر میں تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے    اجلاس میں سے ہی منتخب کردہ ایک کمیٹی نے اجلاس میں پیش ہونے والی تجاویز  میں سے چند تجاویز کو منظور کیا۔ جن کا خلاصہ یہ تھا کہ اگر مطالبات پورے نہیں کیے جاتے تو  ایک طرح کی ‘ سول نافرمانی’    کا آغاز کیا جائے جس میں  بجلی کے بلات جمع کروانے سے انکار، مزید مقامات پر مزید دھرنے اور   مطالبات پورے نہ ہونے کی  صورت میں قومی ہڑتال۔
اس اجلاس میں یہ دیکھ کر بھی خوشی ہوئی  کہ عوامی ایکشن کمیٹی میرپور کے جن نوجوانوں کے ساتھ میں گیا ہوا تھا انہوں نے نغمان عارف کی قیادت میں انتہائی متحرک ، مثبت اور موثر کردار ادا کیا۔
واپسی پر میرپور کے نوجوانوں  سے بات چیت سے لگا کہ وہ خاصے پر امید ہیں کہ میرپور میں مزید دھرنے بھی دیے جا سکتے ہیں، بلات جمع نہ کروانے کی مہم بھی شروع کریں گے اور  قومی ہڑتال  کے لیے بھی کام  کا آغاز کر دیں گے۔ تاہم سچی بات یہ ہے کہ مجھے لگتا تھا کہ دھرنے تو ٹھیک ہے سیاسی طور پر سرگرم افراد دھرنا دے لیں گے۔  لیکن بلات جمع کرنے سے انکار یا بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکلنے والی امیدیں میرے خیال میں امید سے زیادہ خواہش  یا  ‘ خواہشاتی سوچ ”  تھی۔
یہاں یہ بتانا غیر مناسب نہیں ہو گا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کا تصور ریاست میں نیا نہیں ہے۔ میری معلومات کے مطابق  ریاست میں پہلی عوامی ایکشن کمیٹی 1964 میں  میر واعظ مولوی فاروق نے قائم کی تھی۔ تاہم میری معلومات کے مطابق ‘ آزاد جموں کشمیر ‘  میں عوامی کمیٹی  سات سا ل قبل  گلگت بلتستان میں عوامی ایکشن کمیٹی  کی طرف سے مختلف الخیال گروپوں کو    ٹھوس اور روزمرہ کے عوامی مسائل کے گرد  ایک پلیٹ فارم  پر لانے  کے  کامیاب تجربے کے بعد شروع کی گئی تھی۔
عوامی رحجان میں تبدیلی ؟
 چند دن بعد مجھے محسوس ہوا کہ کالگڑھ ( اسلام گڑھ) بازار  اور  ارد گرد کے گاؤں میں مہنگائی اور بجلی بلات وغیرہ   کے بارے میں رحجان بدل رہا ہے۔  ایک دم سے عام آدمی کی گفتگو کا رخ پاکستانی جماعتوں کی سیاست سے ہٹ کر تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور خاص طور ے بجلی کے ‘ دل کُش’ بلوں کی طرف ہو  رہا تھا۔ چند دن بعد   موڑا رکھیال کی مسجد  سے یہ اعلان سن کر تو میں حیران رہ گیا کہ بجلی کے بل  ادا نہیں کرنے  بلکہ انجمن تاجراں کے صدر جناب یونس فائیکو جنرل سٹور والوں کے پاس جمع کروا دیں۔ 25 اگست کو میری واپسی تک کوئی ایک ہزار کے قریب انجمن تاجراں کے صدر کے پاس جمع ہو چکے تھے۔  مقامی عوامی ایکشن کمیٹی جو کہ رٹھوعہ ہریام پل کی تکمیل کے لیے قائم ہوئی تھی اس نے بھی دیگر عوامی مسائل  پر بھی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ 
ادھر میرپور میں بھی عوام کا غم و غصہ ہر طرف محسوس کیا جا سکتا تھا۔ لوگ کہتے تھے ‘ بل دے ہی نہیں سکتے تو دیں گے کیا’ ۔
اس دوران مظفر آباد ڈویژن  جو کوٹلی میں   عوامی ایکشن کمیٹی کے ‘ بڑے گہٹھ ‘  میں شامل نہیں تھے وہاں سے انجمن تاجراں اور عوامی ایکشن کمیٹی ،   بار کونسل اور دریگر شہری تنظیموں نے  سات مطالبات پر مشتمل چارٹر آف ڈیماندز ( منشورِ حق) پیش کیا ۔  اس میں  بجلی کے بلوں  پر ٹیکسوں کے خاتمے، آٹے کی مصنوعی قلت دور کرنے،  حکمران طبقات کی  بے جا مراعات کے خاتمے کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کو  بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے مبرا قرار دینے ، لوہاڑ ٹنل کی تعمیر، کوہالہ روڈ کو بہتر بنانے اور دارلحکومت کے لیے  گریٹر واٹر سپلائی  کا منصوبہ شروع کرنے کے مطالبات بھی شامل کیے گئے۔  مطالبات منظور نہ ہونے پر   31 اگست کو ہڑتا  ل اور احتجاج کی کال دی جس پر  خوب عمل ہوا۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ آزاد کشمیر  بیدار ہو رہا ہے۔  لیکن یہ بیداری مختلف ہے۔ نئی ہے۔ 
میرپور میں  عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے  مختلف سیکٹروں میں عوامی دھرنے دیے جا رہے تھے اور  عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے 05 ستمبر کو قومی ہرتال کے لیے بھی  عوام کو  آگاہ اور تیار کرنے کا کام مسلسل جاری تھا۔ میرپور  میں اس کے لیے دو تنظیمیں متوازی کام کر رہی تھیں۔ ایک طرف عوامی ایکشن کمیٹی تھی اور دوسری طرف میرپور بار کونسل۔ بار کونسل نے اعلان کیا کہ وہ 05 ستمبر کو چوک شہیداں میں احتجاج کے لیے اکٹھے ہوں گے جبکہ ایکشن کمیٹی نے اس روز شام پانچ بجے سٹیڈیم سے محکمہ برقیات کے دفتر کی طرف جلوس کی شکل میں جا کر وہاں جلسہ کرنے کا اعلان کیا۔ کچھ لوگوں کو اس تقسیم پر بہت مایوسی ہوئی۔( اس کے پس منظر اور وجوہات کو یہاں  شعوری طور پر زیر بحث نہیں لا یا جا رہا)۔
سیاسی بیداری ؟
05 ستمبر   کے روز   ہم چند دوست مانچسٹر میں تھے ۔ میرا خیال تھا کہ  راولاکوٹ اور کوٹلی میں بڑے جلوس جلسے ہوں گے جب کہ میرپور میں  شاید اتنے زیادہ لوگ نہ نکلیں۔ لیکن جوں جوں ویڈیوز آتی گئیں اور  سجاد جرال صاحب کی وال  لائیو ہوتی رہی ہمارے حیرت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ تبصرہ نگار عوام کے جم غفیر کو سکرین پر لا کر پورے اعتماد کے ساتھ دعوے کر رہے تھے کہ یہ میرپور کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔
اس اجتماع میں  کی جانے والی تقاریر سے معلوم ہوا کہ اس میں میرپور شہر کے علاوہ ارد گرد کے تما چھوٹے بڑے دیہاتوں سے بھی ہزاروں کی تعدا میں لوگ آئے ہوے تھے۔ یہ بار کونسل اور انجمن تاجراں کا اجتماع تھا ۔  میں سوچ رہا تھا کہ  میرے ساتھ میرپور کے جو دوست تھے وہ شاید درست ہی کہہ رہے ہیں کہ اب اس اجتماع کے بعد شام کو کیا ہونا ہے۔  تاہم پہلے اجتماع کی طرح ہمارا یہ اندازہ بھی غلط ثابت ہوا۔  شام کے جلوس کو ‘ مرکزی دھارے’ کے صحافیوں نے کوئی اہمیت نہ دی لیکن شکریہ خان میرپوری کا جن کی وال  پر ہم مختلف سیکٹروں سے آتی ریلیوں کو  دیکھتے رہے ۔ جب یہ ریلیاں سٹیڈیم میں اکٹھی ہوئیں تو یہ احتجاج بھی  ہزاروں افراد پر مشتل ایک بڑا اجتماع  بن چکا تھا۔
اگرچہ اس  کے شرکاء کی تعداد صبح والے   جلسے سے  تھوڑی کم  تھی لیکن  یہ عوامی ایکشن کمیٹی  کا اجتماع تھا  اور یہ لوگ میرپور کے مختلف سیکٹروں سے آئے ہوئے تھے۔  صبح کے جلسے کے برعکس شام کو پولیس کی بھاری نفری بھی برقیات کے دفتر کے باپر تعینات تھی ۔ تاہم مظاہرین اور قیادت نے   شام کو  تقاریر کے بعد واضح ہو چکا تھا کہ عوامی ایکشن کمیٹی  زیادہ تر ایسے  نوجوانوں پر مشتمل ہے جو پونچھ اور مظفر آباد ڈویژنوں اور کوٹلی و بھمبر ضلعوں کی کمیٹیوں کے ساتھ مل کر  آزاد کشمیر کو  مثبت راہوں پر آگے بڑھانے کی تحریک  میں کردار ادا کرنے کے بارے میں انتہائی سنجیدہ ہیں۔ 
مظفر آباد کے بعد میرپور بھی بیدار نظر آیا اور پونچھ نے تو سب کو بیدار کرنے میں  مرکزی کردار ادا کیا۔  اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ آزاد کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا  اور شاید آزاد کشمیر کی سطح پر پہلا  عوامی احتجاج۔ مطلب جس میں پورے خطے کے عوام نے  گاؤں سے شہروں  تک ہر مقام پر احتجاج کیا۔ یہ ایک عارضی اُبال ہے یا کہ ایک دور رس بیداری ؟
اب کیا کریں ؟ اس پر پر بات کرنے سے پہلے چلیے اس  کیفیت کو جسے میں ‘سیاسی بیداری’ قرار دے رہا ہوں    ریاست جموں کشمیر میں عوامی بیداری کے تاریخی پس منظر کی روشنی میں دیکھ لیتے ہیں تاکہ  اپنی سوچ اور سمجھ کو تاریخی تناظر اور   سیاق و سباق  سے کٹی  مجرد سوچ سمجھ بننے سے بچا سکیں۔
ریاست جموں کشمیر میں سیاسی بیداری کا پس منظر
جاگنے اور بیداری کی اصطلاحات کو سماجی تغیر ( تبدیلی) کے  سیاسی تجزیے اور سماجی تبدیلی کی سیاست میں مرکزی اور بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
جاگنے یا بیدا ر ہونے  کا  لغوی یا اصلی یعنی بنیادی مطلب تو ہوتا ہے نیند سے جاگنا ۔ جسمانی نیند سے جاگنا۔ نیند جب انسان کا بدن اور  دماغ   سویا ہوا ہوتا ہے۔  اعصابی نظام قدرے  غیر فعال  اور شعور  معطل ہویا  ہوا ہوتا ہے۔ اپنے ارد گرد سے بے خبر ۔
سماجی تبدیلی  کی اصطلاح میں بیدارے یا جاگنے  سے مراد عوام میں اپنے  اجتماعی حالات کے شعور اور اس شعور کے بل پر اپنے حالات  خلاف آواز اٹھانا لی جاتی ہے۔ عوامی بیداری کا تصور انفرادی طور پر تو شاید قدیم  زمانوں میں بھی استعمال ہوتا ہو لیکن سیاسی معنوں    میں یہ اصطلاح  جدید عوامی سیاست سے  جُڑی ہوئی ہے۔ جدید عوامی سیاست  کی پیدائش سے پہلے  سیاست  بادشاہوں اور جاگیرداروں  کا اختیار اور استحقاق سمجھا جاتا تھا۔ بادشاہ اور جاگیردار  حکومت کرتے تھے اور عوام تابع داری۔ یعنی وہ حکم کرتے اور یہ بجا لاتے تھے۔
ریاست جموں کشمیر میں عوامی بیداری 1930 کے زمانے میں پیدا ہوئی تھی۔  ریاست کی تاریخ میں پہلی بار عوامی حقوق کی ایک فہرست ( عوامی تحریک کا پہلا منشورِ حق)  بنا کر برطانوی حکومت کے نمائندے کو پیش کرنے سے لے کر 1947 میں ریاست جموں کشمیر کی تقسیم تک اس عوامی تحریک کی وجہ سے ریاست میں  تاریخ میں پہلی سیاسی جماعت قائم ہوئی۔ پہلی بار انتخابات ہوئے   اور ایک   عوامی اسمبلی کا قیام  عمل میں لایا گیا۔   
تاہم اس  دوران  پہلے قدیر خان کی پر اسرار تقریر ،  گرفتاری اور مقدمے  اور پھر ‘ کشمیر چھوڑ دو’  جیسے اقدامات سے عوامی ریاستی تحریک  پہلے ‘مسلمانوں’ کی اور پھر ‘ وادی کشمیر کے مسلمانوں’ کی تحریک  تک محدود ہوئی اور پھر تقسیم ہو گئی۔
تب یہ خطہ  جس  کا  سرکاری نام اب ‘ آزاد جموں و کشمیر ‘ ہے وجود میں آیا۔ ‘ آزاد کشمیر ‘             کا تصور  ابتداء میں ریاست کے ایک معروف ترقی پسند  سیاسی  رہنما، مصنف، صحافی  اور تجزیہ نگار اور  مزدور کسان کانفرنس کے ایک بانی پریم ناتھ بزاز نے  1946 میں پیش کیا تھا ۔ بعد ازاں اس کی وضاحت ” آزاد کشمیر : ایک سوشلسٹ جموریہ ”   نامی کتاب میں کی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ‘آزاد’ کشمیر کو چار معاملات میں پاکستان کے ساتھ الحاق کر کے اندرونی طور پر خود مختار رہ کر ایک   سوشلٹ جمہوری ریاست کے طور پر قائم  کرنا چاہیے۔
مہاراجہ کے  مخمصے ،   پونچھی و میرپوریوں کی بغاوت ، پٹیالہ دستوں کی در اندازی،  پاکستانی قبائلیوں کی یلغار کے بعد   مہھاراجہ نے 26 اکتوبر کو مبینہ طور پر  بھارت سے الحاق کر لیا اور  ریاست کی طرح مزدور کسان  کانفرنس  بھی دو لخت ہو گئی۔  تاہم اس دوران  4 اکتوبر 1947 کو  وادی ، پونچھ،  میرپور اور جموں سے تعلق رکھنے والے  کچھ مسلم کانفرنسی  رہنماؤں نے ایک عبوری حکومت بنا کر اس کو پوری ریاست کی نمائندہ حکومت قرار دے دیا۔ اس کے دو ہفتے بعد قبائلی  جتھے ریاست میں داخل ہو گئے  ۔ مہاراجہ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کر لیا۔ بھارتی فوج سری نگر کے ہوائی اڈے پر اتر گئی۔  چند ماہ کی مار دھار کے بعد  بھارت معاملہ اقوام  متحدہ میں لے گیا ۔ اب تک وئیں  پڑا ہوا ہے۔
تقسیم  کے بعد
اس ساری فوجی اور سفارتی / عالمی  سرگرمیوں  کا  زمین پر نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست تین حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ مختلف اندازوں کے مطابق کوئی  اڑھائی تین لاکھ ریاستی باشندے   جان سے  گئے اور کوئی ڈیڑھ ملین کے قریب ہجرت پر مجبور ۔    تین حکومتیں قائم ہوئیں۔  وادی کشمیر،  جموں اور لداخ پر مشتمل ” بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر”   جموں ، پونچھ اور ودی کشمیر کے کچھ حصوں پر مشتمل ‘ پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر’  ۔ عام طور پر اقوام متحدہ اور مختلف عالمی تنظیموں / اداروں  کے نقشوں اور کاغذات میں ‘پاکستانی  زیر انتظام جموں و کشمیر ‘ میں  گلگت بلتستان بھی شامل  ہوتا ہے۔ کیونکہ گلگت بلتستان  جس کو  ‘آزاد کشمیر کی طرح  مقامی  باغیوں نے آزاد کروایا تھا کو  اس کے قائدین نے 6 نومبر کو   پاکستان کے حوالے کر دیا  ۔ پاکستان نے  آزاد کشمیر کی طرح ان علاقوں کی اپنی حکومت قائم کرنے کی بجائے  28 اپریل 1949 کو مبینہ طور پر   ‘آزاد کشمیر’ کی حکومت  کے صدر سردار ابراہیم   کے ساتھ کراچی میں ایک پر اسرار معائدے کے تحت  گلگت بلتستان کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیے۔   سردار ابراہیم   پہلے تو چپ رہے ۔ کچھ نہ کہا کہ مطلوب تھا پردہ ان کا  لیکن آخری عمر میں بار بار کہتے رہے کہ میں نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے ۔ کیے ہوں تو انگلیاں کاٹ لیں۔ غازی  ملت اس وقت بھی خاموش رہے اور پردہ قائم رکھا  جب  05 فروری 1948 کو  اقوام متحدہ میں  بھارتی مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعظم  شیخ عبداللہ  کی  طرح  انہوں نے بھی اقوام متحدہ میں تقریر کرنا تھی مگر ان کی جگہ پاکستان کے مشتاق گورمانی  نے کر دی ۔
بہرحال  اگر ریاست جموں کشمیر  میں اس وقت کے سیاسی نظریات کو ایمانداری سے دیکھا جائے      تو یہ تقسیم اس لحاظ سے ‘کامل’  تھی کہ وادی کشمیر ، جموں اور لداخ کے میں مجموعی طور پر بھارت سے الحاق کی حمایت زیادہ تھی۔ وادی میں نیشنل کانفرنس کی وجہ سے اور جموں  و لداخ میں دو قومی نظریہ کی وجہ سے۔  غیر مسلم پاکستان سے الحاق نہیں چاہتے تھے۔ جبکہ  ‘آزاد کشمیر’ اور گلگت بلستان کے علاقوں میں مہاراجہ کے خلاف بغاوت ہوئی تھی اور دونوں خطوں میں الحاق پاکستان کا رحجان واضح طور پر غالب تھا۔
اقوام متحدہ  نے  ریاست جموں کشمیر کی تینوں حکومتوں کو  اپنے اپنے خطے کے مقامی معاملات    کا انتظام چلانے کے لیے تسلیم کیا  تاہم  ان میں سے کسی کو   پوری ریاست کی نمائندگی  یا اس  کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔   اگرچہ اپنے طور پر  شیخ عبداللہ کو ہٹانے کے بعد جو حکومت وہاں بنائی گئی اس نے بھارت کے ساتھ الحاق کی ” توثیق” کی اور ‘ آزاد کشمیر’ والے بھی  اپنی عبوری  یا موجودہ حکومت کو پوری ریاست کی ‘نمائندہ’  کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

آزادی  اور قبضے کا تضاد
اب  ہمارے اس مضمون کی مناسبت سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بھارتی اور پاکستانی زیر انتظام علاقوں کے اپنے اپنے انتظام کاروں کے ساتھ تعلقات  میں  اس قدر نظریاتی ہم  آہنگی پائی جاتی تھی تو پھر  ان تعلقات میں  کشیدگی کہاں سے در آئی؟ پیار کی شادی جبری شادی میں کیسے بدلی۔
مختصر جواب اس کا یہ ہے کہ ایک طرف شیخ عبداللہ اور دوسری طرف  سردار ابراہیم درحقیقت دونوں ہی ریاست جموں کشمیر کی آزادی اور خود مختاری کے حامی تھے۔ شیخ عبداللہ 1946 میں کشمیر چھوڑ دو کی تحریک شروع کرنے تک    اس نیشنل کانفرنس   کے سب سے مقبول رہنما تھے جس نے 1944 میں ‘ نیا کشمیر’ کے نام سے  خطے کی تاریخ میں پہلی بار ایک سیاسی منشور شائع کیا تھا۔ جس میں ‘ آئینی بادشاہت ‘   کو تسلیم کیا گیا تھا۔   یہ منشور ریاست میں  کشمیری تشخص کے ریاستی سیاسی تشخص بننے کے عمل کا نقطہ  عروج تھا ۔ اس میں کشمیر سے مراد پوری ریاست”  جموں کشمیر لداخ  اقصائی چن اور علاقہ جات”  سے تھی۔ مگر  کشمیر چھوڑ دو کی تحریک پر بیٹھ کر شیخ عبداللہ اس کو واپس وادی کشمیر میں لے آئے۔
سردار ابراہیم بھی  18 جولائی 1947   تک ریاست  میں   آئینی بادشاہت کے حامی تھے۔ 18 اگست کو مسلم کانفرنس کی  مرکزی کمیٹی میں خود مختار کشمیر کی جو قرار داد متفقہ طور پر منظور ہوئی تھی  وہ اس کے رکن تھے یعنی انہوں نے خود مختار کشمیر کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
دونوں  ریاست میں حالات بدلنے کی وجہ سے ریاستی مفادات کی بجائے اپنے اپنے مفادات کے لیے بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کی انگلی پکڑ کر اقتدار میں آنے کے لیے خود مختاری سے منحرف ہو کر الحاق کے گن گانے لگے۔ تاہم دونوں اندر سے بھارتی اور پاکستانی بننے کے لیے تیار نہیں تھے اس لیے دونوں    منفرد تشخص اور جیسی تیسی اندرونی خود مختاری   پر قائم رہے۔
دونوں پر پاکستان و بھارت کے حکمرانوں کو شک تھا کہ یہ اندر خانے خود مختاریے ہیں ۔ اس لیے  ادھر  بھارت نے شیخ عبداللہ کو 1953 میں امریکہ کے ساتھ مل کر  ‘ خود مختاری ‘  کا اعلان کرنے کے شک میں معذول کر کے قید میں ڈال دیا گیا اور  ادھر پاکستان نے سردار ابراہیم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی کیا۔  اس کا جو ردعمل ان کی اپنی جماعتوں اور برادریوں میں ہوا  اس سے بھارتی زیر انتظام  کشمیر میں  بھارت سے الحاق کے  مخالفین کی حوصلہ افزائی ہوئی اور پاکستانی  زیر انتظام کشمیر میں پاکستان سے الحاق کے مخالفین کی۔
اس کے بعد سے  بھارت اور پاکستان کے زیر سایہ بننے اور ٹوٹنے والی سرکاریں دونوں طور  بنتی ٹوٹی رہیں ۔ ہر دو خطوں میں سڑکیں، سکول، ہسپتال، نلکے ٹوٹیاں ، ڈیم، پل وغیرہ جیسی عوامی ضروریات، مختلف شعبوں میں ملازمتوں  اور اشیاء خورد و نوشت کی قیمتوں اور بجلی و پانی  کے بلات وغیرہ  کا انتظام  اپنے اپنے انتظام کاروں کے ہاں نظام کی نسبت سے چلتا رہا۔  لیکن بھارتی زیر استعمال  خطے میں  بھارتی قبضے کے خلاف اور پاکستانی  زیر استعمال خطے میں  پاکستانی قبضے کے خلاف مزاحمت کی سیاست زور پکڑتی رہی۔   تاہم  مزاحمت کی اس سیاست میں ایک  واضح فرق تھا۔ بھارتی مقبوضہ  علاقے میں  مزاحمتی سیاست بھارتی قبضے اور الحاق بھارت کے خلاف تھی ۔ لیکن  پاکستانی خطے میں پاکستانی قبضے اور  الحاق پاکستا ن  کی مخالف قوتوں کی توجہ بھی بھارتی مقبوضہ علاقے خاص طور سے وادی کشمیر اور وہاں بھارتی قبضے پر ہی مرکوز رہی۔ 
خاص طور سے 1988/89  میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ‘ مسلح  تحریک’ کے آغاز   کے بعد  تو پاکستانی زیر استعمال علاقے ‘ آزاد’ کشمیر یا پاکستانی حکمرانوں کی طرف سے  بھارتی قبضے کے خلاف تحریک کے زریعے اپنا قبضہ پکا کرنے کی پالیسی کے خلاف بات کرنے کا مطلب تھا ‘ بھارت کے قبضے کو جائز قرار دینا’۔ ‘ آزادی پسندوں اور مجاہدوں کی مخالفت کرنا۔ کشمیر کی آزادی کی مخالفت کرنا۔ پاکستان کی مخالفت کرنا لہذا اسلام کی مخالفت کرنا۔ “
یہ سب کچھ میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ برطانیہ میں بھی اور ‘آزاد’ کشمیر میں بھی اور پھر گزشتہ کوئی دس پندرہ سالوں کے دوران وادی کے کچھ اس تحریک کے  اندر فعال کرداروں ،  نوجوان نسل کے کچھ  طلبا، مصنفین، صحافیوں اور  سول سوسائٹی کے لوگوں سے  بات چیت کے ذریعے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وہاں کیسے سب کچھ شروع ہوا اور پھر کیسے  ‘نظریاتی’ فرق کی وجہ سے تقسیم در تقسیم اور پھر ٹوٹ پھوٹ کا عمل پیدا ہوا اور پھر کیسے  مزاحمت کی پر امن اور سیاسی شکل کا زندہ رہنا بھی نا ممکن ہو گیا۔ 
اب کیا کریں؟  مزاحمتی سیاست   سے عوامی سیاست  کی طرف ؟ 
یوں اس ‘آزاد’ کشمیر میں مزاحمتی سیاست   محاذ رائے شماری کے قیام سے قبل کے عرصے اور نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی طرف سے بیانات اور کبھی کبھی چھوٹے موٹے احتجاجوں کے سواء یہاں وسائل کے استحصال، انفرا سٹرکچر کی پسماندگی، منصوبوں کی عدم تکمیل، ملازمتوں میں بے ایمانیوں ، اداروں میں بد عنوانیوں ، برادریوں کے نام  پر اپنی ہی برادریوں کے استحصال  ،  مہنگائی کے ساتھ ساتھ بجلی کے  زیادہ بلات اور ان پر طرح طرح کے ٹیکسوں کے بارے میں  احتجاج تو ہوئے ، تقریریں بھی ہوئیں لیکن کوئی واضح تحریک  چل کر قائم نہ رہ سکی۔
بظاہر ایسا  نظر آ رہا ہے کہ اس  کام  کا کم از کم آغاز پہلی بار  عوامی ایکشن کمیٹیوں نے کر دیا ہے۔     جس طرح عوام نے اس تحریک میں شرکت کی ہے اس سے   صاف ظاہر اور واضح ہے کہ   عوامی تحریک  کی بنیاد رکھ دی گئی ہے  ۔ اس  بنیاد کو مضبوط کر کے اس پر کیسی عمارت تعمیر کی جانی ہے اور وہ کتنی مضبوط ہو گی  ،  اس میں مختلف خیالات اور نقطہ ہائے نظر کو سمونے کی کتنی گنجائش  اور  ‘آزاد’  جموں کشمیر  کے   عوام کو درپیش مسائل کو  عوام کی شرکت سے حل کرنے  کے لیے کتنی اہلیت و صلاحیت ہو گی  اس کا دارومدار عوامی ایکشن کمیٹیوں کی قیادت اور عوامی ایکشن کمیٹیوں سے باہر اس تحریک کا حصہ بننے والی قوتوں جن میں بار کونسلیں اور   قوم پرست جماعتیں سر فہرست ہیں کے طرز عمل  پر ہو گا ۔
  اس وقت    یہ    تحریک فوری طور پر یا جلد از جلد   مفت یا   لاگت کی قیمت پر  بجلی  حاصل کرنے ، اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں  میں کمی لانے  اور حکمران طبقات کی بے جا  نو آبادیاتی  حاکموں  کے جیسی مراعات  کے خاتمے  کے لیے ہے۔ لیکن تاریخی حالات  عوامی ایکشن کمیٹیوں کو ایسے مقام پر      لے آئے ہیں کہ  وہ آزاد کشمیر کے  حال اور مستقبل کے حوالے سے  ایسی عوامی سیاست کو فروغ دیں جو اس خطے کے بنیادی مسائل سے نپٹ سکے ۔
1۔   حقیقی حالات کے حقیقی اور ایماندارانہ جائزے کے بعد یہاں قائم  فرسودہ ، پسماندہ اور عوام  کی زندگیاں مشکل بنانے والے  ڈھانچے     کے متبادل موجودہ حالات کا عکاس اور عوام کی زندگیاں بہتر بنانے والے بیانیے اور سیاست کو عام کرنا ہو گا۔   
2۔ ایک مخصوص نظریے کے نام پر آزاد کشمیر کے دیگر باشندوں کو سیاست اور عوامی دفاتر سے دور رکھنے  کی سیاست  کو بھی پر امن  طور پر  جمہوری میدان میں چیلنج  کر کے یہاں ایک  بہتر جمہوری اور باختیار و باوقار حکومت کے قیام  کے  لیے بھی راہ ان ہی کو ہموار کرنا ہو گی۔
3۔ اس راستے پر عوامی تحریک کو ” آزاد” جموں کشمیر  کے اندر اور باہر   ان تمام افراد اور تنظیموں  کی مددوحمایت کی ضرورت ہو گی جو آزاد کشمیر میں ایک  حقیقی نمائندہ حکومت ، معاشی خوش حالی ، بدعنوانیوں سے پاک انتظامیہ ،  عوام کے مفادات کا خیال کرنے اور عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کا مقصد رکھنے والے سیاسی نمائندے اور ارکان  اسمبلی  اور  انصاف کی بنیاد پر فیصلے کرنے والی عدلیہ چاہتے ہیں ۔
 ریاست کا مستقبل 
جہاں تک پاکستان کے قبضے کا تعلق ہے یہ تحریک اس کے خلاف نہیں ہے۔ پاکستان کے قبضے کا تعلق پوری ریاست جموں کشمیر کی آزادی سے ہے۔ یہ درحقیقت پاکستان کے متعلقہ احکام اور اداروں کے لیے سوچنے  کا مقام ہے کہ وہ یہاں بدلتے ہوئے  مادی حالات  کا پوری ریاست کے تاریخی اور موجودہ تناظر کے ساتھ ساتھ پاک بھارت اور جنوب ایشیاء کے حالات کی روشنی میں تجزیہ کر کے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان  کے ساتھ موجودہ تعلقات کا جائزہ لے کر وہاں انتخابات  اور پبلک سروس میں جانے کے لیے الحاق کی شق کا فوری خاتمہ کریں ۔ اس کی بجائے  اس  شق  پر اتفاق کر لیں  کہ خود مختار کشمیر والے جیت کی صورت میں اپنے خطے کی خود مختاری کا اعلان نہیں کریں گے۔
آزاد  جموں کشمیر کے وسائل کے استعمال  اور یہاں بڑے منصوبوں کے حوالے سے برابری کی بنیاد پر باہمی حقوق اور  ذمہ داریوں  کا ایک ایماندارانہ معاہدہ کریں  اور جب تک پوری ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہوتا اس معائدے کے تحت  عوامی مفادات میں یہاں کے معاملات چلائیں۔
یہ تحریک بھارت کے ساتھ الحا ق  کی تحریک بھی نہیں ہے۔ تاہم  کچھ ایسے آثار نطر آ رہے ہیں کہ بھارت سرکار اور خفیہ ادارے اس صورت حال کو بالکل اسی طرح   استعمال کرسکتے ہیں جس طرح کہ پاکستان  سرکار اور خفیہ اداروں نے وادی کشمیر میں  الحاق بھارت کے  خلاف ‘ پاکستان نواز’ اور ‘ خود مختاری نواز’  کشمیری حلقوں کو استعمال کیا۔    اس پہلو پر یہاں سیر حاصل بحث نہیں کی جا سکتی اس لیے اس پر الگ سے لکھنے کی کوشش کروں گا۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact