افسانہ: روشنی/ محمد شاہدمحمود

You are currently viewing افسانہ: روشنی/ محمد شاہدمحمود

افسانہ: روشنی/ محمد شاہدمحمود

محمد شاہد محمود
مجھے اس کی بلند آواز ، اب ہر شب سرگوشیوں کی صورت سنائی دیتی ہے۔
وہ اکثر مصنوعی غصے سے با آواز بلند کہا کرتا تھا “نام تمہارا روشنی ہے لیکن تم رات میں سارے گھر کی بتیاں آخر بجھا کر کیوں رکھتی ہو ؟”
اور میں اصلی غصے سے چلا کر کہتی “مجھے زیادہ اور تیز روشنیاں اچھی نہیں لگتیں۔”
اس پر وہ مسکراتے ہوئے کہتا “افوہ کبھی تو ایک لفظ محبت کا بول لیا کرو۔”
اور پھر چپ چاپ صوفے سے اٹھ کر کہتا “شکر ہے جہاں ہم بیٹھے ہیں اس کمرے کی روشنیاں تم  نے  نہیں بجھائیں” اور جا کر راہداری کا ایک بلب جلا کر کہتا “خدا کے لئے یہ ایک تو مت بجھانا۔”
میں کوئی جواب نہ دیتی اور نہ ہی راہداری کا بلب بجھاتی۔
اُس دن اسے دفتر سے گھر لوٹے دس منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ دفتر سے کال آ گئی کہ ایمرجنسی کلائنٹ ہے ، جہاں بھی ہو جلد ا زجلد دفتر پہنچو۔”
اس نے وقت دیکھا ، ابھی شام کے چھ ہی بجے تھے۔
“شاید دیر ہو جائے ، تم کھانا کھا لینا ۔” اس  نے کہا اور بریف کیس اٹھائے باہر نکل گیا۔
دس منٹ بعد مجھے ہماری کار کی گڑگڑاہٹ سنائی دی ، میں بھاگتی ہوئی گیٹ پر دیکھنے پہنچی کہ یہ میرا وہم تو نہیں ہے۔
وہ گاڑی سے اتر چکا تھا اور گیٹ میں چابی گھما رہا تھا۔
“بس کینسل ہو گئی میٹنگ ؟” میں نے پوچھا۔
“ارے نہیں بھئی ،تمھارے چکر میں لیٹ ہو رہا ہوں۔”
وہ راہداری تک آیا اور بلب جلا کر بولا “اسے جلتے رہنے دینا پلیز۔ میری واپسی بارہ ایک بجے تک ہوگی۔” جواب سنے بغیر جس تیزی سے آیا تھا اسی تیزی سے واپسی کی راہ لی۔
شاید اس نے جواب سننے کی ضرورت اس لئے محسوس نہیں کی کہ اسے یقین تھا کہ یہ بلب جلتا رہے گا۔
ابھی ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ گھر کے فون کی گھنٹی بجی۔ کال کرنے والا یا تو سفاک تھا یا پھر ایسی باتوں کا عادی ہو چکا تھا۔ بنا تمہید باندھے بولا “آپ کے شوہر کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے۔ شاید نشے کی حالت میں تھا۔ گاڑی بہت تیز چلا رہا تھا۔ اس نے اپنے ساتھ اور دو لوگوں کو بھی ہسپتال پہنچا دیا ہے ، ابھی زندہ ہے۔” اور ہسپتال کا نام بتا کر لائن کاٹ دی۔
میرا پورا بدن کپکپا رہا تھا۔ سلیپنگ سوٹ پر بڑی سی چادر اوڑھ کر ہسپتال روانہ ہو گئی۔
شاید اسے جانے کی جلدی تھی یا شاید میں ہی وہاں دیر سے پہنچی ، وہ دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔
کئی برس بیت گئے۔ میں نے جاب شروع کر دی ، دوسری شادی کرنے کا خیال تک دل و دماغ سے نکال دیا۔ اس کی موت کا ذمہ دار ، میں خود کو ٹھہراتی ہوں اور رہا راہداری کا بلب ، وہ مسلسل جل رہا ہے۔ دن ہو یا رات ہمیشہ جلتا رہتا ہے۔ دو بار فیوز بھی ہوا مگر میں نے اسی وقت نیا لگا دیا اور دو درجن بلب خرید کر گھر میں رکھ دیئے۔

اب ہر شب سونے سے پہلے ، میں راہداری والے بلب کی روشنی تلے کچھ وقت گزارتی ہوں تو مجھے اس کی بلند آواز اب سرگوشی کی صورت سنائی دیتی ہے ، یہ کہتی ہوئی۔
“خدا کے لئے یہ ایک تو مت بجھانا۔”
_______


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.