Saturday, May 18
Shadow

Tag: محمد شاہد محمود

افسانہ: ادیب تحریر : محمد شاہد محمود

افسانہ: ادیب تحریر : محمد شاہد محمود

افسانے
تحریر : محمد شاہد محمود۔ ناکام عشق کا تا حیات روگ بعد از حیات بھی رہے گا ؟ خالی پیٹ یہ گمان غلط ثابت ہو رہا ہے۔ بد گمانیاں خالی ذہن کی پیداوار ہوتی ہیں اور خوش گمانیاں بھرے پیٹ کی پیداوار ہوتی ہیں۔ خالی پیٹ نے مجھے نئے فلسفہء خودی سے روشناس کرا دیا ہے۔ میں دنیا بدلنے نکلا تھا۔ میں دنیا تو نہ بدل سکا البتہ دنیا نے مجھے کہیں کا چھوڑا۔ شاعروں ، افسانہ نگاروں اور مفکروں نے مجھے ایسی دنیا دکھائی جس کا وجود ہی نہ تھا ، یہ محض سراب تھا۔ یہ سراب دکھانے والے ادباء بھی کیا اسی سراب کی بھینٹ چڑھے جی رہے ہیں ؟ یا کہ اس سراب سے گزر کر نئی دریافت شدہ دنیا میں جی رہے ہیں ؟ ایک ایسی دنیا ،  جو شاعروں ، افسانہ نگاروں اور مفکروں نے اپنے لئے خود تخلیق کی ہے ؟ انہیں خیالات میں کھویا سمت کا تعین کئے بغیر چلا رہا تھا۔ جب بھوک سے نڈھال ہونے لگا فٹ پاتھ کے کنارے بیٹھ گیا۔ آنکھوں کے سامنے مناظر شاید خوش نما تھے ،...
نظم : آدم کی پسلی از قلم : محمد شاہد محمود

نظم : آدم کی پسلی از قلم : محمد شاہد محمود

شاعری
از قلم : محمد شاہد محمود۔ مجھے مارنے والے اکثر اپنی خواہشوں کے بھنور میں منوں مٹی تلے بے نام و نشاں ہو گئے تکمیلِ از سر نو میں فنا کے حلقوم پر زندگی کی تیغ و دو دھاری تلوار کے درمیان آج بھی رقص بسمل میں مصروف صدائے زندگی ہوں میں اک جہاں ، اک جان سے گزر کر بیش بہا جہان بساتی زندگی سے نبرد آزما ہوں میں ازل تا ابد ابد تا ازل آدم کی پسلی سے پیدا آج بھی مثلِ حوا ہوں آدم میری پسلیوں و پستانوں سے زندگی کی رمق پا کر میری کوکھ سے جنم لیتا ہے میں تخلیق کار ، انجامِ حقیقت و آبروئے انجام ہوں بچپن , کھلونے ,  گلیاں سکھی , سہیلیاں دلارے موسم خزاں رت کی خشک ہوا زندگی کے رنگ , امنگ سب مجھ سے ہیں سب مجھ میں ہیں میں مثلِ حوا  ہر کہانی کی بنیاد بھی ہوں اور مرکزی خیال بھی کہانی مجھے لکھتی ہے اور میں قلم کو کہانی دیتی سیاہ و سفید روشنائی عطا کرتی زندگی کی معراج پر سدرۃ المنتہیٰ ہوں میں مثلِ حوا آج کے آدم کی مک...
نظم : سب اچھا ہے / محمد شاہد محمود

نظم : سب اچھا ہے / محمد شاہد محمود

شاعری
( بقلم محمد شاہد محمود ) یہاں حاکم بھی محکوم ہے یہاں بڑے عہدیداران بڑے غلاموں کے ادنیٰ غلام ہیں یہاں گلوں میں طوق ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں پہنائی گئیں ہیں یہ طوق ، بیڑیاں اور ہتھکڑیاں نظر نہیں آتیں ان طوق ، بیڑیوں اور ہتھکڑیوں کے طفیل ملی چبھن بھی نظر نہیں آتی چبھن صرف محسوس ہوتی ہے طاقت کا راج ہے ، طاقت ہی آزاد ہے ہم سبھی طاقت کے غلام ہیں الفاظ ازاد ہوتے ہوئے بھی تحویل میں ہیں الفاظ تحویل میں ہوتے ہوئے بھی آزاد…؟ کوئی تعمیری و مزاحمتی لفظ لکھنا چاہے بھی تو وہ لکھے جانے سے پہلے ہی مٹا دیا جاتا ہے طاقت کے بیچوں بیچ ناتواں اجسام الفاظ اپنے جسموں میں قید ، لب بستہ ہیں صفحات کورے ہیں لکھنے پر پابندی عائد ہے کیوں کہ سب اچھا ہے _______...
افسانہ : حال محمد شاہد محمود

افسانہ : حال محمد شاہد محمود

افسانے
افسانہ : حال محمد شاہد محمود محمد شاہد محمود کڑاکے دار موسمِ سرما کا آغاز ہو چکا ہے۔ سرد موسم میں نرم گرم کمبلوں یا رضائیوں سے نکل کر ناشتے کی تیاری ، دل گردے کا کام ہے۔ سونے پہ سہاگہ پاکستان میں صبح سویرے سوئی ناردرن گیس کی بندش ہے۔ پاکستان میں صبح کے سات بجے ہیں۔ تمام سننے والوں کو ارسلان کامران کا سلام پہنچے ، صبح بخیر کہتے ہوئے دعا گو ہوں آپ کا ہر دن خوش گوار دن ثابت ہو ، بعض گھرانوں میں ناشتہ تیاری کے مراحل میں ہوگا اور کچھ گھروں میں ناشتہ تناول کیا جا چکا ہوگا۔ جبکہ چند گھروں کے مردِ مجاہد ، ناشتے کی تڑپ میں ، گیس سلینڈر کی نوزل اور گیس سلینڈر کی پائپ سے نبرد آزمائی کرتے نظر آ رہے ہوں گے۔ بعض گھروں میں اہل خانہ ، مٹی کے تیل کا چولہا دیا سلائی دکھا کر جلا رہے ہوں گے یا پانی کے چھینٹوں سے بجھا رہے ہوں گے۔ جن علاقوں میں گیس پائپ لائن منصوبے ہر اگلے الیکشن میں بطور بڑا ہتھیار استعمال...
افسانہ : سویرا محمد شاہد محمود

افسانہ : سویرا محمد شاہد محمود

افسانے
محمد شاہد محمود ہما نے دور جاتے ایک وجود کو الوداعی نظروں سے دیکھا اور قمیض سرکا کر ، کندھے کی گولائی پر پڑا نیل کا نشان دیکھ کر مسکرائی۔ پسینے سے تر بدن پر لباس چپک رہا تھا۔ دھول اور مٹی میں محنت و مشقت کے باعث سانسیں بے قابو ہو رہی تھیں۔ اس کی گوری گردن پر کالی لکیر واضح نظر آ رہی تھی۔ اگلے ہی لمحے درد کی ٹیس ، چہرے پر پھیلی مسکراہٹ ، کرب میں بدل گئی تھی۔ جلدی سے پیراہن درست کیا اور گھر کی جانب خراماں خراماں چلنے لگی۔ اگلی صبح نئے عزائم لئے ایک بار پھر اسی میدان میں موجود تھی۔ ایک جگہ ٹھٹھک کر رک گئی۔ "تم زنگ آلود ہو۔ کیا ایک ہی جگہ پڑے رہتے ہو ؟" ہما نے زمین پر پڑے وجود کا بغور جائزہ لے کر سوال کیا۔ "میری جلد بازی نے مجھے زنگ لگا دیا ہے"۔ روہانسی بڑبڑاہٹ میں جواب ملا۔ "تمہیں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے تھا۔ خیر آؤ میرے ساتھ"۔ ہما نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور سہارا دے کر اسے م...
افسانہ: روشنی/ محمد شاہدمحمود

افسانہ: روشنی/ محمد شاہدمحمود

افسانے
محمد شاہد محمود مجھے اس کی بلند آواز ، اب ہر شب سرگوشیوں کی صورت سنائی دیتی ہے۔ وہ اکثر مصنوعی غصے سے با آواز بلند کہا کرتا تھا "نام تمہارا روشنی ہے لیکن تم رات میں سارے گھر کی بتیاں آخر بجھا کر کیوں رکھتی ہو ؟" اور میں اصلی غصے سے چلا کر کہتی "مجھے زیادہ اور تیز روشنیاں اچھی نہیں لگتیں۔" اس پر وہ مسکراتے ہوئے کہتا "افوہ کبھی تو ایک لفظ محبت کا بول لیا کرو۔" اور پھر چپ چاپ صوفے سے اٹھ کر کہتا "شکر ہے جہاں ہم بیٹھے ہیں اس کمرے کی روشنیاں تم  نے  نہیں بجھائیں" اور جا کر راہداری کا ایک بلب جلا کر کہتا "خدا کے لئے یہ ایک تو مت بجھانا۔" میں کوئی جواب نہ دیتی اور نہ ہی راہداری کا بلب بجھاتی۔ اُس دن اسے دفتر سے گھر لوٹے دس منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ دفتر سے کال آ گئی کہ ایمرجنسی کلائنٹ ہے ، جہاں بھی ہو جلد ا زجلد دفتر پہنچو۔" اس نے وقت دیکھا ، ابھی شام کے چھ ہی بجے تھے۔ "شاید دیر ہو جائے ، تم...
اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ” ہم مہرباں” تبصرہ : محمد شاہد محمود

اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ” ہم مہرباں” تبصرہ : محمد شاہد محمود

آرٹیکل, تبصرے
محمد شاہد محمود کوئی بھی کتاب مکمل کرنے کے بعد آپ تبصرہ نگاری کا ارادہ رکھتے ہیں ؟ تو بشمول پیش لفظ دیگر ادباء کی آراء مت پڑھئیے۔ اپنا تبصرہ قارئین کی نذر کرنے بعد ، پیش لفظ اور ادباء کی آراء پڑھئیے۔ آپ جس کسی بات کا بھی تعین کرنا چاہتے ہیں ، بخوبی کر پائیں گے اور کتاب میں شامل آراء پر اپنی رائے محفوظ کر پائیں گے۔ کتاب کھولتے ہی خوبصورت احساس جلی حروف میں لکھا "انتساب پیاری بیٹیوں کے نام" ہے۔ جن کی محنتوں اور محبتوں کی وجہ سے یہ کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ کتاب دو سو چالیس صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں ییس افسانیں اور دو خاکے شامل ہیں۔ سبھی تحریروں کا بہاؤ پڑھنے میں سہل اور دلچسپ ہے ، جبکہ تحاریر کے عنوانات منفرد ہیں۔ اختر شہاب صاحب کی والدہ اکبری صاحبہ کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رحمتوں کے زیر سایہ جگہ عطا فرمائے۔ جن کا نام اختر شہاب صاحب کے والدِ گرامی نے محبت میں "ملکہ اکبری سلطانہ" رکھا تھا...
ادبِ اطفال | محمد شاہد محمود

ادبِ اطفال | محمد شاہد محمود

آرٹیکل
محمد شاہد محمود فی زمانہ بچوں کے لئے لکھی گئیں زیادہ تر کہانیاں ، بچوں کی سمجھ سے بالاتر نظر آتی ہیں۔ یہی حشر بچوں کی زیادہ تر نظموں کا کیا جا رہا ہے۔ قابلیت ثابت کرنے کے چکر میں بچوں کی ذہنی سطح مدنظر رکھتے ہوئے نہیں لکھا جا رہا۔ اگر کوئی سبق آموز پہلو اجاگر کرنا مقصود ہو ، تقریر اور فلسفہ کی صورت میں لکھا جاتا ہے۔ ایسا بھی پڑھنے میں آیا ہے کہ راقم کہانی میں بچوں کا کردار جمعہ پڑھنے بھیج دیتا ہے اور پھر باقی کہانی خطیب کی زبانی بیان کر دی جاتی ہے۔ کچھ کہانیاں ایسی بھی پڑھیں ہیں جو دل دہلا دینے والی ہیں ، بچوں کی حساسیت بھی نظر انداز کی جا رہی ہے۔ بلا شبہ بچوں کی تربیت میں دینی علوم شامل ہونے چاہئیں ، یہ ضروری ہے۔ لیکن بچوں کے لئے ایسا ادب مرتب کرنا کہ کم عمری میں ہی انہیں فیکٹ اور فکشن میں تمیز ہی نہ رہے ؟ یہ صرف ہمارے یہاں بتدریج رائج ہو رہا ہے۔ کہانیوں میں پرستان کی  پریاں اب وعظ فرم...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact