کتاب کا نام ۔۔۔۔طیفِ عکس

شریک مصنفہ :شفا چودھری

مبصرہ ۔۔۔۔۔خالدہ پروین

وہاڑی (جنوبی پنجاب) کی سونا ،چاندی اور  مٹھاس اگلتی سر زمین سے تعلق رکھنے والی خوش اخلاق ، خوش مزاج اور دردِ دل کی مالکشفا چودھری ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی صلاحیت سے مالامال ہیں  تاہم ان کا خاص میدان افسانہ نگاری ہے۔ حساس اور منفرد موضوعات پر نفسیاتی الجھنوں اور گرہوں کو بیان کرتے ان کے افسانے مختلف ادبی پلیٹ فارمز پر اول ،دوم ، سوم اور چہارم پوزیشنز حاصل کر چکے ہیں ۔

“طیفِ عکس” سے پہلے افسانوی مجموعہ “گلِ صحرا” میں موجود افسانے:

بٹوارا

وفا

چاند رات

حاصل

نمایاں پوزیشن کے حق دار ٹھہرے ہیں ۔

              مزید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گونگے لمحے

خاموش نظمیں

عکس کے پار

نمایاں پوزیشن کے حامل رہے۔

افسانہ   “راز”   نے عالمی افسانہ فورم پر بھرپور پزیرائی حاصل کی ۔

غزل اور نظم کہ ہیت میں شعری تخلیقی کاوشات

 “قلم کی روشنی” اور “نئے افق” میں شائع ہو چکی ہیں ۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طیفِ عکس میں عکوس کو مدِنظر رکھتے ہوئے مصنفہ شفا چودھری نے چھے کہانیاں بعنوان “خوف کا رقص” ,  “مسکراہٹ کا رنگ” ، “کوکلا چھپاکی”  ، “خواب کے پنچھی” ، “نخلِ امید”  آور “جگنو ”   تحریر کی ہیں ۔

: خوف کا رقص

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 عُمر نامی نوجوان کی کہانی جس کا بچپن والدین کی چپقلش کی نظر ہو گیا ۔ والد کی زیادتی اور ماں کی بےبسی سے بھرپور سسکیاں اسے ذہنی مریض بنا دیتی ہیں ۔ باپ کی موت اس کے لیے غم کے بجائے سکون کا باعث ٹھہرتی ہے لیکن بچپن میں ماں کی زبان سے ادا ہونے والے کلمات “میں پاگل نہیں ہوں” اس کے دل ودماغ میں اس طرح  پیوست ہو جاتے ہیں کہ ماحول بدلنے اور جوان ہونے کے باوجود وہ اس اذیت سے چھٹکارا نہیں حاصل کر پاتا بلکہ ایک ناکارہ فرد اور ذہنی مریض ہونے کی حیثیت سے بیڈ کے نیچے اپنے آپ کو محفوظ اور پُرسکون تصور کرتا ہے۔اس کا دوست اسے اس تنہائی اور اذیت سے چھٹکارا دلانے کی خاطر شادی کے لیے مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن بیڈ کے نیچے اسے سسکتے دیکھ کر وہ بھی پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے ۔

مصنفہ نے  ایک بچے کی نفسیات پر والدین کے لڑائی جھگڑوں کے اثرات کو بہت عمدگی سے پیش کیا  ہے ۔یہ معاشرے کا ایک اہم مسئلہ اور اپنے فرض سے غفلت ہے جسے فریقین اپنی رنجش میں بھلا بیٹھتے ہیں ۔ ان تنازعات کے اثرات کسی بھی بچے کو ذہنی ، جذباتی اور شخصی ابنارمیلٹی تک پہنچا سکتے ہیں جیسا کہ عُمر کے ساتھ ہوا ۔

آسائشات اور مال و دولت کی فراوانی بھی اس تکلیف اور احساسِ محرومی کو ختم نہیں کرتی سکتی ۔کوئی مخلص دوست اور ہمدرد ساتھی بھی معاون و مددگار ثابت نہیں ہو سکتا ۔

مصنفہ نے بڑی عمدگی سے کہانی کے ذریعے خوب صورت پیغام قارئین تک پہنچایا ہے ۔کہانی کی زبان تکلیف اور احساسات و جذبات کی منتقلی میں معاون ثابت ہوئی ہے ۔ اشاروں وکنایوں کا حامل اسلوبِ بیان تجسس سے بھرپور ہونے کے علاوہ قاری کے دل ودماغ پر گہرے اثرات مرتب کرنے کا باعث ثابت ہوا ہے ۔

کہانی عکس کے ساتھ بھرپور مطابقت رکھنے کے علاوہ ذہنی مریض کی کیفیات کی عمدہ عکاسی ہے ۔

منظر نگاری اس قدر شاندار تھی کہ

 نگاہوں کے سامنے ہر چیز دکھائی دے رہی تھی بلکہ کانوں نے آوازوں کو سنا بھی مثلاً:

“میری آنکھوں میں دیکھو”

“میں پاگل نہیں ہوں”

“تم پاگل ہو”

مصنفہ کی عمدہ تخلیقی کاوش قابلِ داد ہے۔

مسکراہٹ کا رنگ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دولت کے حصول کی خاطر محبت بھرے دل کو ٹھکرانے والا تخلیق کار(مصور) جب مقابلے میں ملنے والی رقم کی خاطر مسکراہٹ پینٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مسکراہٹ طنزیہ شکل اختیار کر جاتی ہے۔

مصنفہ نے بڑی عمدگی سے تخلیق کار کے لیے خلوص کو لازمی شرط قرار دیا ہے۔  مصور حقیقت کو تصور کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے کینوس پر منتقل کرتا ہے لیکن حقیقت میں دلوں کو دکھ پہنچانے والا کبھی بھی مسکراہٹ تخلیق نہیں کر سکتا جیسا کہ مصور کو سامنا کرنا پڑا ۔ چوں کہ اس نے صنفِ نازک  کے محبت بھرے دل کو دولت کے حصول کی خاطر ٹھکراتے ہوئے الم سے دو چار کر دیا تھا لہٰذا انعام کی خاطر جب عورت کی مسکراہٹ پینٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو مسکراہٹ طنز میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔اس کا ضمیر اس کے فن کے آڑے آ کر اسے ناکامیوں سے دو چار کر دیتا ہے ۔

“درد دو گے تو کیا مسکراہٹ اگا پاؤ گے”۔ “سچ میں جھوٹ کی پیوند کاری نہیں ہو سکتی”

اس کہانی کے کلیدی جملے ہیں  جو کامیابی اور ناکامی دونوں کا راز اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔

کہانی کا کاٹ دار مکالماتی انداز اس کہانی کی جان ہے جو تاثر کو گہرا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

منظر نگاری ہمیشہ کی طرح شان دار ہے۔

کوکلا چھپاکی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک لڑکی کی کہانی جو لڑکپن میں کوکلا چھپاکی کھیل کے دوران کوکلا پیچھے رکھتے ہوئے ادا کیا جانے والا جملہ ” جس کو کوکلا زور سے لگے گا اس کی اسی سال شادی ہو گی” سن کر دل میں خوش کن احساسات کو جگہ دیتی ہے ۔آخر کار ایک ایک کرکے سوائے اس کے سب سہیلیاں رخصت ہو جاتی ہیں ۔ احساسات و جذبات کی وہ خوشبو جسے وہ اپنے اندر دبائے رکھتی ہے ایک دن اچانک ہاتھ فقیر کے ہاتھ سے مَس ہونے کے بعد بے قابو ہو کر ہیجانی کیفیت کا شکار کر دیتی ہے ۔والد بیٹی کی اس کیفیت سے پریشان ہو کر اس کو مولوی صاحب سے دم کروانے کا سوچتا ہے ۔جواباً بیٹی کہتی ہے کہ

 “ابا اب تو مجھ پر جِن بھی عاشق نہیں ہوتا”۔

کوکلا چھپاکی ایک کھیل ہےجو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی لڑکیوں کے دلوں کو گدگدانے اور خوش کن تصورات میں گم کرنے کا سبب بنتا ہے ۔

کہانی کی انفرادیت اس کا علامتی انداز ہے ۔۔۔۔”خوشبو نے انگڑائی لی” ، “دائرہ سکڑتا گیا” ، “ہاتھ مس ہوتے ہی خوشبو نے دائرہ تنگ کیا” ، “اب تو مجھ پر جن بھی عاشق نہیں ہوتا”۔۔۔۔اندرونی اذیت اور تشنگی کا اظہار کرتے متاثر کن علامتی جملے ہیں ۔

خوشبو علامت ہے ان احساسات وجذبات کی جو ہر نوجوان کے اندر موجود ہوتے ہیں ۔

جذبات کے ہاتھوں بے بسی ،اذیت اور نفسیاتی کیفیت کی عمدہ عکاسی۔

معاشرے کا عمومی رجحان اور والدین کا غیر دانش مندانہ رویہ جس میں بچوں کے جذبات اور ضرورت کو سمجھنے کے بجائے “دم درود” کو اہمیت دیتے ہیں  ،کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے ۔

خوب صورت زبان نے تحریر کو چار چاند لگا دیے ہیں۔

عمدہ تخلیقی کاوش کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ڈھیروں داد و ستائش ۔

 خواب کے پنچھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گُڈی کی عمراٹھارہ برس  ہوتے ہی اس کی ماں نسرین اپنے شوہر خدا بخش کو رشتہ تلاش کرنے کا کہتی ہے ۔خدا بخش کسی دوست کے تعاون سے ایک ادھیڑ عمر شخص کے رشتے کو اس کے اچھے کاروبار اور گھر میں اکیلا ہونے کی وجہ سے قبول کر لیتا ہے ۔ماں بیٹی کو قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن خوبصورت شہزادے کی منتظر بیٹی کے چہرے پر لہراتے تاریک سائے اس کی خواہشات کے خون ہونے کی نشان دہی کرتے ہیں ۔ماں کی مار پر گڈی کی زبان سے ادا ہونے والا جملہ “وہ چلاگیا ہے میری دیو سے شادی کر دیں” خوابوں کے پنچھیوں کے اڑ جانے کی دلیل ہے ۔

مصنفہ نے بڑی عمدگی سے جوان بیٹی کے والدین کے تفکرات اور ترجیحات کی منظر کشی کی ہے ۔

گڈی کے کردار کے ذریعے فطری طور پر نوجوانی کی حسین تخیلاتی دنیا کی نشان دہی لاجواب ہے جس میں حسین شہزادہ گھوڑے پر سوار آتا ہے اور اپنے ساتھ لے جاتا لیکن قسمت میں کیا لکھا ہوتا ہے یہ کوئی نہیں جان سکتا ۔

نسرین کے ذریعے ایک ماں کی حسن و دولت میں سے کسی ایک کے انتخاب کی کشمکش کو خوب صورتی سے الفاظ کا روپ عطا کیا گیا ہے ۔

عکس سےمناسبت ، نفسیاتی کشمکش اور جذباتی توڑ پھوڑ کی عمدہ عکاسی کے لیے مصنفہ کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔

نخلِ امید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روایتی سوچ سے شروع ہونے والی کہانی جس میں باپ صرف بیٹے کو ہی  بہتر پرورش اور حصولِ تعلیم کا حق دار سمجھتا ہے لیکن بیٹے کی طرف سے مایوسی اور  بیٹی کی تعلیم پر لگائی جانے والی بے جا پابندیوں کے باوجود اس کی تعلیم میں دلچسپی باپ کی سوچ میں مثبت تبدیلی کا باعث بنتی ہے ۔بڑے ہونے پر بیٹی ملازمہ کی بچی کو علم سکھا کر اس نخلِ امید کو ہرا رکھنے میں تسکین محسوس کرتی ہے ۔

معاشرے میں بیٹے کو بےجا فوقیت دینے اور بیٹی کو زیادتی کی حد تک نظر انداز کرنے کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے ۔

بیٹی کا چھپ چھپ کر باپ کا بھائی کو تعلیم دیتے دیکھنا اور سُن کر ہی سب سیکھ جانا، ماں کا خوف سے بیٹی کے بستے کو بستر کی چادر کے نیچے چھپا دینا،باپ کے غصے سے چلانے پر بیٹی کو اپنی پناہ میں لے لینا۔۔۔۔معاشرے کی جہالت کی دل سوز تصویریں ہیں جنھیں مصنفہ نے بڑی عمدگی سے زیبِ قرطاس کیا ہے ۔ باپ کی غصے کی دھاڑ  کے نتیجے میں ماں کے خوف کی منظر نگاری قابلِ ستائش ہے ۔

زنگ آلود تالے سے پھوٹتی ہوئی کونپل کے عکس سے مناسبت رکھتی اور نفسیاتی گرہ کے کھلنے کی عکاس خوب صورت تحریر ۔

اللہ مصنفہ کی سوچ وفکر اور تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشے۔

جگنو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انجان مسافر کی کہانی جس کی جیب میں رقم اور سامنے دو راستے ہیں ۔ بظاہر آسان راستے کا انتخاب کرنے پر غیبی آواز اس راستے پر سفر کرنے سے منع کرتی ہے ۔استفسار پر دوسروں کے تجربات سے سبق حاصل کرنے پر زور دیا جاتا ہے ۔دوسرا نسبتاً مشکل نظر آنے والا راستہ بعدازاں آسان ثابت ہوتا ہے ۔

منزل پر پہنچ کر کسی اور سے دریافت کرنے پر پتا چلتا ہے کہ اس راستے پر چلنے والے بتانے کے قابل نہیں رہتے۔

مصنفہ نے بڑی عمدگی سے بیان کیا ہے کہ زادِ راہ کی موجودگی انسان کو آسانیوں کی طرف راغب کرتے ہوئے

 گُم راہی کی طرف لے کر جاتی ہے ۔انسان کا ضمیر اور دوسروں کے تجربات کی روشنی میں حاصل شدہ نتائج  راہنمائی اور جگنو کا کام کرتے ہیں ۔ ضمیر کی آواز سننے اور دوسروں کے تجربات سے سبق حاصل کرنے والا کامیاب قرار پاتا ہے جب کہ گُم راہی کے بظاہر آسان راستے پر سفر کرنے والا ناکامی کے ساتھ ساتھ کسی کو کچھ بھی بتانے کے قابل نہیں رہتا۔

عمدہ اخلاقی پیغام دیتی خوب صورت تحریر ۔

علامتی اسلوبِ بیان مصنفہ کی انفرادیت اور خاص خوبی ہے جس کے ذریعے بڑی سے بڑی بات اور نازک موضوع کو بھی عمدگی سے پیش کیا جاتا ہے ۔ نفسیاتی گرہوں کو پیش کرتا تجزیاتی انداز قابلِ تعریف ہے ۔تمام تحاریر کی زبان اور اسلوبِ بیان قابلِ داد ہے۔

تمام کہانیاں قابلِ تعریف ہیں لیکن

 “کوکلا چھپاکی”میرے نزدیک ایوارڈ کی حق دار ہے۔اس کے بعد بتدریج “خوف کا رقص” اور “مسکراہٹ کا رنگ” شاہ کار کا درجہ رکھتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ مصنفہ کی سوچ وفکر اور تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشتے ہوئے مزید عروج اور کامیابیاں عطا فرمائے۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact