Saturday, April 27
Shadow

Precious Box written by Anam Tahir

انعم طاہر

اُس نے گھر میں ایک کمرہ صرف اپنی پرانی چیزوں کے لیے مختص کر رکھا تھا۔ وہ اپنی پرانی ڈائیریاں، دوستوں کے بھیجے کارڈز اور تحفے، حتیٰ کہ بہت سی ناقابلِ استعمال اور ٹوٹی پھوٹی اشیاء یہاں بہت پیار سے جمع کرتی تھی۔ اُسے اِس کمرے میں موجود تمام چیزوں سے بےحد لگاؤ تھا۔ یہیں کمرے میں درمیانے سائز کا ایک کارٹن بھی رکھا تھا جس پہ کالے رنگ کے مارکر سے پریشیس باکس لکھا تھا۔ وہ کارٹن بہت حد تک بھر چکا تھا۔ بھرتا کیسے نہ؟ بہت سالوں سے وہ صوفی کے استعمال میں تھا۔ وہ مہینے دو مہینے بعد اِس میں چند کاغذ پھینک جایا کرتی تھی۔ وہ اکثر سوچا کرتی تھی کہ وقت ملنے پر وہ اِن کاغذوں کو استعمال میں لے آئے گی۔ آج وہ اِسی مقصد کے لیے اِس اسٹور نما کمرے میں آئی تھی۔  اُس نے غور کیا کہ کارٹن واقعی بھر چکا تھا۔ کچھ کاغذ باہر کی طرف نکلے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اُس کے شوہر حسن نے ایک دن کہا تھا، ‘صوفی یہ تم نے فالتو میں کاغذ کیوں جمح کر رکھے ہیں ، خالی کیوں نہیں کرتی اِس ڈبے کو ؟’ وہ جواب میں صرف سر ہی ہلا سکی تھی۔ وہ حسن کو سچ بتانے سے ہچکچاتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ  حسن کوئی روایتی آدمی تھا۔ وو ادب سے لگاؤ رکھنے والا ایک بےضرر اور سلجھا ہوا انسان تھا۔ وہ چار کتابوں کا شاعر تھا اور کئی ادبی حلقوں میں اچھا خاصا نام رکھتا تھا۔ اِسی لیے تو صوفی اُس سے بہت مرعوب رہا کرتی تھی اور چاہتے ہوئے بھی وہ اّسے کچھ نہ بتا پاتی تھی۔ کمرے میں موجود کسی فالتو چیز سے اسکا پاوں ٹکرایا تو وہ اپنے خیال سے چونکی تھی۔

صوفی نے نیچے جھک کے اپنے بیٹے کی کھلونا گاڑی کو اٹھا کر ایک طرف رکھا تھا۔ اُس نے غور کیا کہ کمرے کو صفائی کی سخت ضرورت تھی۔ وہ بھول گئی تھی کہ وہ کس کام سے اِس کمرے میں آئی تھی۔  اُس نے چیزوں کو ترتیب دینے اور جھاڑ پونج کرنے میں دو گھنٹے صرف کر دیے تھے۔ وہ ہر کام دل لگا کے کرنے کی عادی تھی اور یونہی ہر کام کرنے کے بعد دل ہی دل میں اترایا کرتی تھی۔ ابھی وہ خود کو صحیح سے تھپکی بھی نہ دے پائی تھی کہ اُسے اپنے دو سالہ ارحم کے رونے کی آواز سنائی دی تھی۔ وہ یقیناً جاگ گیا تھا۔ صوفی بھاگتے ہوئے کمرے میں پہنچی اور بیٹے کو اٹھا کے خوب سارا پیار کیا۔ اُس کا بڑا بیٹا ابراہیم بھی آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیھٹا تھا۔ اِسکے بعد بچوں اور گھر کے کاموں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ اُسے اپنے پریشیس باکس کی یاد ہی نہیں رہی۔

رات میں جب وہ کچن کے کام نمٹا کے فارغ ہوئی تو حسن دونوں بچوں کو سلا کر خود بھی سو چکا تھا۔ وہ خود بھی بےتحاشہ تھک چکی تھی لیکن آج اُسکا ذہن بری طرح اُنہی کاغذوں میں اٹھکا ہوا تھا۔ اس نے تنہائی کو نعمت جانتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اُسی کمرے کا رخ کیا اور پریشیس باکس میں سب سے اوپر پڑے چند کاغذ نکال کر اسٹڈی کی طرف چل پڑی۔ کاغذ میز پہ رکھتے ہوئے وہ کرسی پہ بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔ اب اُس نے کاغذ کھول کر اپنے سامنے رکھ لیے تھے۔۔۔۔۔

وہ چند منٹوں تک اُن کاغذوں پہ نظریں جمائے بیھٹی رہی، صفحے الٹ پلٹ کے دیکھتی، تو کبھی پڑھنے لگتی جیسے کچھ سمجھنے کی کوشش کررہی ہو۔۔۔۔۔۔ پھر اُس نے میز پہ پڑی قلم اٹھائی۔۔۔۔ اور لکھنا شروع کیا۔۔۔۔۔ ایک سطر لکھی۔۔۔۔۔۔اور کاٹ دی۔ کچھ دیر یہی ہوتا رہا، وہ لکھتی، کاٹتی یا پھر سے پڑھنا شروع کردیتی۔ اُسکی آنکھیں نیںند سے بوجھل ہوچکی تھیں، ساتھ ہی بار بار آنے والی جمائیاں اُسے مزید تنگ کررہی تھیں۔ اُسے اپنا دماغ مکمل طور پہ ماؤف ہوتا محسوس ہوا تو وہ بےبس ہوکے کھڑی ہوگئی تھی۔ اُس نے ہمیشہ کی طرح فیصلہ کیا کہ وہ یہ کاغذ اپنے ساتھ دفتر لے جائے گئی اور جیسے ہی اُسے وقت ملا وہ ضرور اِس کام کو مکمل کرے گی۔  یہی سوچتے ہوئے اُس نے کمرے میں آکر ان کاغذوں کو اپنے ہینڈ بیگ میں ٹھونسا اور تقریباً بھاگتے ہوئے وہ بیڈ پہ آ گری تھی۔  اُسکے پاس سونے کے لیے صرف پانچ گھنٹے کا وقت تھا !

صبح اُسکی آنکھ کھلی تو وہ جلدی سے اُٹھ کر معمول کے کاموں میں مصروف ہوگئی تھی۔ حسن اور بچے سکون سے سو رہے تھے۔ وہ اُن کے جاگنے سے پہلے باقی کام ختم کرنا چاہتی تھی۔ وہ کاموں میں جت گئی تو وقت بھی چٹکی میں گزر گیا۔ اُس نے حسن اور ابراہیم کو جگایا۔ حسن کو دفتر جانے کی تیاری کرنی تھی، وہ فوراً سے اُٹھ کے غسل خانے میں چلا گیا تھا۔ صوفی کو ابراہیم کی منتیں کرکے اسے اُٹھنا تھا اور اِن منتوں کے چکر میں ارحم کا جاگ کر صوفی کی گود میں چڑھ جانا ایک لازمی امر تھا۔ آج بھی کچھ مختلف نہیں تھا۔ وہی بھاگ دوڑ تھی اور صوفی تھی۔ ابراہیم کو تیار کر کے ، اسے ناشتہ کرایا اور حسن کے ساتھ اسکول روانہ کیا۔ حسن کی واپسی تک وہ ارحم کو بھی تیار کرچکی تھی، اور ناشتہ بھی بن چکا تھا۔ دونوں نے بیٹھ کے ناشتہ کیا۔ خیر ناشتہ کیا کرنا تھا۔۔۔۔ صوفی کی نظریں گھڑی پہ جمی تھیں ، وہ خود ابھی تک تیار نہیں ہوئی تھی۔ اُس نے جلدی جلدی کچھ لقمے ہلق سے اتارے اور چائے کا مگ لیکر کمرے کی طرف چلی گئی۔ پانچ سات منٹ میں وہ بلکل تیار تھی۔ اُسے ہارن کی آواز آئی جسکا مطلب تھا کہ حسن ارحم کو لیکر گاڑی میں بیھٹا اُسکا انتظار کررہا تھا ۔ اُس نے بھاگتے دوڑتے ناشتے کے برتن کچن تک پہنچائے ، اپنا ہینڈ بیگ اور بےبی بیگ اٹھایا اور دروازے لاک کرکے باہر نکل گئی. چائے کا مگ صوفی کے کمرے میں میز پہ پڑا اپنی بےقدری پہ منہ چڑاتا رہا تھا۔

خیر صوفی کو مطمئن ہونے کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ دفتر وقت پہ پہنچ گئی تھی۔ وہ ایک انٹرنیشنل این جی او میں اچھے عہدے پہ فائز تھی۔ اُسکے کام اور ایمانداری کی وجہ سے اُسے سب ہی سراہتے تھے۔ آج کا دن بہت مصروف تھا ، ارحم بھی بار بار اُسکی توجہ چاہ رہا تھا۔ وہ کام اور ارحم کی دیکھ بھال کے درمیان ہمیشہ توازن رکھنے کی کوشش کیا کرتی تھی۔ اِس کوشش میں وہ باقی سب بھول جایا کرتی تھی۔ آج بھی اپنے ہینڈ بیگ میں پڑے اُن کاغذوں کی اُسے  سرے سے یاد ہی نہیں تھی۔ چھٹی کے وقت جب اُس نے اپنی استعمال کی چیزیں واپس ڈالنے کے لیے بیگ کھولا تو بےتوجہی کا شکار وہ کاغذ اُسے احساسِ محرومی میں مبتلا کر گئے تھے۔

کاش! وہ ایک آہ بھر کر رہ گئی تھی۔ اُسکا خیال تھا کہ آج رات وہ ضرور وقت نکال کے اپنی خواہش پوری کرسکے گی۔ لیکن وہ محض ایسا سوچ ہی سکی تھی۔ گھر آنے کے بعد کا سارا وقت گھر کے کاموں اور اگلے دن کی تیاری میں گزر گیا تھا۔ جانے کیوں اِس احساس نے صوفی کو اداس کردیا تھا۔ وہ ذہنی طور پر بہت تھکاوٹ محسوس کررہی تھی۔ اسکے اندر کچھ نہ کرسکنے کا غبار تھا—— ایک آنسو اسکی آنکھ کے کونے سے ڈھلکتا ہوا تکیے میں جذب ہوگیا تھا۔

یہ صرف ایک دن کی بات نہیں تھی ۔ اُسکی روزمرہ کی مصروفیات اُسے اجازت ہی نہیں دیتی تھیں کہ وہ اپنے دل کی سن سکے۔ کبھی تو وہ پریشیس باکس کو ایک لمبے عرصے کے لیے بھول جایا کرتی تھی ، یاد آتا بھی تو ذندگی کی مشین اور تیزی سے چلنے لگتی تھی۔ اور کبھی کاغذ کھول کے بیھٹتی تو کچھ آوازیں اسکا تعاقب کرنے لگتیں___  ماما، صوفی ، میڈم، باجی، بیٹا۔ اپنے اردگرد سے آنے والی اِن آوازوں کے جواب میں وہ کبھی غیر حاضر نہیں ہوسکتی تھی۔۔۔۔۔ شاید اسی لیے وہ دل سے آنے والی آوازوں کو سن کر بھی اَن سنی کر دیا کرتی تھی۔ اور جن کاغذوں کو وہ پریشیس باکس سے نکالا کرتی تھی ، چند دن بعد پھر سے ان کو باکس میں ڈال دیا کرتی تھی !

ماہ و سال یونہی گزرتے گئے، وہ جو سوچتی تھی نہ کہہ پائی۔ اب اُسکے بالوں میں چاندی بھی اتر آئی تھی۔ وہ حسن کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر ادب، کھیل ، سیاست اور سیاحت پہ بات کیا کرتی تھی۔ حسن اُسے اپنی شاعری سناتا تو وہ خوب داد دیتی تھی۔ پھر اچانک اُسے اپنے اندر ایک خلا سا محسوس ہوتا اور ساتھ ہی اپنے پریسیس باکس کا خیال آجاتا___ لیکن اب وہ اِس خیال کے آتے ہی سر جھٹک دیتی تھی۔ اُس باکس کی جگہ اب تبدیل ہوچکی تھی___  پریشیس باکس فالتو چیزوں کے ساتھ چھت پہ بنے اسٹور کے کسی کونے میں پڑا تھا۔ کبھی کبھار وہ یونہی کاغذ قلم لیکر بیھٹتی تو کچھ بھی سوچ نہ پاتی تھی، یا شاید اُسکا قلم اس سے ناراض ہوچکا تھا۔ وہ کاغذ ڈسٹ بن کی نظر کرکے خود کو کسی اور کام میں مصروف کرلیا کرتی تھی۔

یہ صوفی کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے چند ہفتوں کے بعد کی بات تھی جب حسن کو کاڑکباڑ میں سے اپنی بیوی کا پریشیس باکس ملا تھا۔ دراصل صوفی کی وفات کے بعد حسن کا اِس گھر میں دل نہیں لگتا تھا، وہ یہاں تھا بھی اکیلا۔۔۔۔۔ دونوں بیٹے امریکا میں قیام پزیر تھے۔ صوفی کی وفات پہ وہ آئے اور حسںن کو یہ باور کروا گئے تھے کہ اب وہ اُسے یہاں اکیلا نہیں رہنے دیں گے۔ حسن نے بھی بلا حجت بیٹوں کی بات مان لی تھی۔ کچھ دن بعد اُسکی فلائٹ تھی، تھوڑے سے وقت میں گھر کی ساری چیزیں سمیٹنی تھیں۔ آج وہ چھت پہ بنے اسٹور میں آیا تھا۔ وہیں فالتو چیزوں میں پڑا یہ پریشیس باکس اُسکی توجہ کھینچ گیا تھا—– وہ اپنی دلعزیز بیوی کی لکھائی کو اچھی طرح پہچان سکتا تھا۔ اُسے یاد آیا وہ ہمیشہ اپنی بیوی کو اس باکس کو خالی کرنے کا کہا کرتا تھا۔ شاید اُسکی بیوی نے ڈبہ خالی کرنے کے بجائے چھت پہ رکھوا دیا تھا۔

بیوی کی اس یادگار کو دیکھ کر حسن کے دل میں ٹیس سی اٹھی تھی۔ وہ باقی کام چھوڑ ک باکس کو اٹھا کر نیچے آگیا تھا۔ اُسے کھولنے سے پہلے حسن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اِس میں کیا دیکھنے والا تھا۔ اُس نے باکس کو کھولا اور کاغذوں کا ایک دھتہ نکالا جس میں کم و بیش دس بارہ صفحے اسٹیپل ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے- کاغذ پہ انگریزی ذبان میں کچھ لکھا تھا، رائٹنگ بلاشبہ صوفی کی ہی تھی۔ اُس نے سب سے اوپر لکھا ہوا عنوان پڑھا—- مائے بیالوجیکل گارڈ ۔ حسن پڑھتا گیا تھا۔ یہ چار صفحوں پہ لکھی ہوئی ایک جاندار مگر نامکمل کہانی تھی۔ حسن نے باقی کے صفحے پلٹے لیکن وہ خالی تھے۔ کہانی اس قدر خوبصورتی سے لکھی گئی تھی کہ وہ آگے بھی پڑھنا چاہتا تھا۔ اُس نے باکس سے کاغذوں کا ایک اور دھتہ نکالا اور پڑھنے لگا ۔ اُس نے سوچا کہ باقی کی کہانی شاید کسی اور کاغذ پہ لکھی گئی ہو۔ لیکن اِن کاغذوں پہ سائلینٹ ڈریمز کے عنوان کے نیچے ایک یکسر مختلف کہانی درج تھی۔ حسن اِس کہانی سے بھی اتنا ہی متاثر ہوا تھا—- لیکن یہ کیا؟ یہ کہانی بھی ادھوری تھی۔ حسن کو بےحد بےچینی محسوس ہوئی تھی۔ وہ ایک کے بعد ایک کہانی اٹھاتا گیا، ساری کی ساری کہانیاں نامکمل تھیں۔

حسن کے سامنے صوفی کی نامکمل کہانیاں پڑھی تھیں، انھیں دیکھ کر اُسکی آنکھوں میں چھبن بڑھتی جارہی تھی اور اُسکا دل جیسے کسی نے مٹھی میں دبا رکھا تھا——  صوفی لکھنا جانتی تھی؟ وہ لکھنا چاہتی تھی؟ وہ کیوں نہ لکھ پائی؟ وہ نامکمل کہانیاں کیوں چھوڑ کر گئی تھی؟

وہ ہمیشہ سے جانتا تھا کہ اُسکی بیوی ادب سے بہت لگاؤ رکھتی تھی، اُسکا ذوق بھی کمال کا تھا۔ اکثر وہ اُسکی شاعری پہ بھی تبصرہ کیا کرتی تھی۔ لیکن وہ یہ بات کبھی نہیں جان پایا تھا کہ وہ خود بھی کہانیاں کہنے کا ہنر رکھتی ہے۔ کون سا ایسا موضوع تھا جس پہ وہ لکھنا نہیں جانتی تھی۔ یہ کہانیاں عام نہیں تھیں ، کسی عام ذہن کی نہیں تھیں۔ ‘صوفی اگر یہ کہانیاں مکمل لکھ پاتی تو وہ اپنا اچھا خاصا نام بنا سکتی تھی’ ، حسن نے سوچا۔ ‘کیوں اس نے اتنی بہترین کہانیوں کو ادھورا چھوڑ دیا تھا؟ ‘ حسن کے ذہن میں سوال ابھرا ۔

اُسے یاد آیا بہت سالوں پہلے اُس نے صوفی کو کاغذ قلم پکڑے پرسکون جگہ تلاش کرتے دیکھا تھا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ گھر کا کوئی ایسا کونہ نہیں تھا جسے صوفی کی ضرورت نہیں تھی۔۔۔۔ صوفی سب کی ضرورت تھی۔ وہ ہر وقت گھر اور گھر والوں کی ضروتوں کو پورا کرنے میں الجھی رہتی تھی۔ حسن کی آنکھوں کے سامنے سارے منظر دوڑ رہے تھے۔ ‘شاید اُسے وقت ہی نہیں ملا تھا ، شاید ہم نے اُسے وقت ہی نہیں دیا تھا’ ، حسن نے افسردگی سے سوچا۔ جسے وہ ساری زندگی کاڑکباڑ سمجھتا رہا وہ درحقیقت ایک پریشیس باکس تھا۔ کاش وہ صوفی سے پوچھ لیتا کہ اس باکس میں کیا ہے یا کاش وہ خود ہی حسن کو بتادیتی۔ شاید وہ حسن کو سراہتے سراہتے خود اپنی صلاحیتوں سے انجان ہی رہی تھی۔ وہ اکثر کہتی تھی,  ‘واہ کیا خیال بیان کیا ہے آپ نے اس غزل میں، کاش میں بھی آپکی طرح سوچ سکتی ، آپکی طرح لکھ سکتی۔’ ایک بار جب اُس نے صوفی سے کہا تھا ، ‘ تم بھی لکھا کرو ناں ، وقت نکالا کرو لکھنے کے لیے، مجھے لگتا ہے تم کوشش کرو تو لکھ سکتی ہو’  تو صوفی نے مایوسی سے کہا تھا، ‘ٹائم ہی نہیں ملتا’ ۔ تب صوفی کی بات حسن کو محض جان چھڑانے کا بہانہ لگتی تھی لیکن آج وہ تسلیم کرنا چاہتا تھا___ وہ وقت سے محروم کردی گئی تھی ____ اور ادب اسکی کہانیوں سے محروم رہ گیا تھا۔ ہائے افسوس !

اسکی کہانیاں پریشیس باکس میں نامکمل پڑی تھیں اور پریشیس باکس کاڑکباڑ کے ساتھ پڑا پڑا سالوں کی گرد میں اٹ چکا تھا !

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact