تحریر اقرارالحسن تبسم
بس کھچا کھچ بھری تھی۔کونے میں صرف ایک سیٹ خالی تھی۔
میری نظر اس سیٹ پر اٹک گئی۔حیران تھا کہ کیسے لوگوں سے رہ گئی لوگوں سے ان دیکھی وہ جگہ۔لگتا ہے قدرت آج مہربان ہے ورنہ اس وقت بس میں جگہ ملنا یعنی لاٹری لگنا ۔
شام پانچ سے سات تک تو جیسے پورا شہر سٹک پر سوتا ہے یا بس میں یاترا کر رہا ہوتا ہے۔تل دھرنے کو بھی جگہ نہیں۔ایک دوسرے کے پاوں کچلتے لوگ،پسینے سے بھیگے ماتھے اور تھک کر پست ہوئے چہرے والے لوگ سوچ کر ہی مجھے کھیچ آنے لگتی ہے۔یہ بھی کوئی زندگی ہے۔
کاش!کہ اسکوٹر ہوتی تو یہ روز روز کی لڑائی نہیں کرنی پڑتی۔
کیا قسمت ہے ایک ماسٹر کی۔ہر سال نجانے کتنے بچوں کی قسمت چمکاتا ہوں خود وہیں کا وہیں سارے سپنے وہیں کے وہیں۔میں لوگوں سے ٹکراتا،کندھے سکوڑتا،پاوں پھلانگتا بچتا بچاتا وہاں تک پہنچ گیا اس خالی سیٹ تک۔بیٹھے ہی لگا کہ اس کے خالی ہونے کی وجہ نظر آ گئی۔سیٹ کا ریگزین پھٹا ہوا تھا۔اسپرنگ اچک کر باہر نظر آ رہا تھا۔فوم چھتڑا پڑا تھا۔
میرے دماغ کا باقی صبر بھی چلا گیا۔میں کھینچ کر ایک طرف لٹکا کور اچکے اسپرنگ پر جمانے لگا کہ اب ادھر آیا ہوں تو بیٹھوں گا ضرور۔ہاتھ سے فوم کو گھسیڑنے لگا کچھ کاغذ سا انگلیوں پر محسوس ہوا۔پکڑ کا باہر کھینچا تو ایک لفافہ تھا پتلا سا ۔یہ کیا ہے۔۔۔کس کا ہے؟
بدبداتے ہوئے میں اس کے اندر جھانکا تو حیران رہ گیا۔اس کے اندر گلابی گلابی پانچ ہزار کے نوٹ تھے ۔میں نے جھٹ سے لفافہ وہیں دبایا اور یہاں وہاں دیکھا۔کوئی میری طرف دیکھتا نہیں دِکھا۔آج کل کون کہاں کیا کررہا ہے کس کو فکر۔۔۔۔
پہلی بار بھاگتی دوڑتی زندگی اس فلسفے پر مجھ کو پیار آگیا۔میں نے اندازہ لگایا کہ کوئی پچاس نوٹ تو ہوں گے یعنی ڈھائی لاکھ۔
میری پیٹھ پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔یہ تو سچ مچ لاٹری لگ گئی میری۔پتہ نہیں میں کتنے دنوں بعد اتنا خوش ہوا ہوں گا۔سوچنے لگا کہ کیا کروں گا ان پیسوں کا۔آنکھوں کے سامنے روٹھی مُنی کی شکل کوندھ گئی۔کب سے سفید جھالر والی فراک کی رٹ لگائے ہے۔
کان میں بیٹے کی رُندھی آواز سنائی دی۔پاپا محلے میں ایک بھی لڑکا ایسا نہیں جس کے پاس سائیکل نہیں ہے سوائے میرے۔
کندھے پر ہلکا سا ریشمی لمس محسوس ہوا سیما کا۔کب سے نئی ساڑھی دینا چاہتا ہوں اسے۔وہ کہتی کچھ نہیں پر سمجھتا ہوں ناں۔۔۔۔۔
پھر ایک پل لگا چوری کر رہا ہوں۔نہیں یہ کوئی چوری تھوڑی ہے مل گئے تو رکھ لیے۔میں نے خود کو سمجھایا لیکن یہ میرے تو نہیں ہیں ناں!
مجھے بس ڈرائیور کو سونپ دینے چاہیے تاکہ صحیح مالک تک پہنچ جائیں۔ایسی ہی باتیں تو میں اپنے سکول میں بچوں کو سکھاتا ہوں۔پھر لگا بھاڑ میں جائے اصول وصول۔میرا من پوری طرح ڈانواں ڈول ہورہا تھا۔کچھ دیر اپنے آپ سے لڑائی کے بعد میں نے دھیرے سے لفافہ نکار کر بیگ میں ڈال دیا۔آنکھیں بند کرکے گھر والوں کی مسکراتی صورتوں کو سوچنے لگا۔
کیوں بیٹا!یہاں ایک لفافہ دیکھا کیا؟اچانک ایک بد حواد آواز سے میرا دھیان ٹوٹا۔سامنے ایک بزرگ کھڑے تھے۔جُھریوں کے بیچ بھی ان کی پیشانی پر فکر صاف نظر آ رہی تھی۔میں بنا جواب دیے وہاں سے اٹھ گیا۔وہ جھک کر سیٹ کے اوپر نیچے،آس پاس دیکھنے لگے۔پھر میری طرف دیکھ کر بولے۔
ہسپتال جارہا تھا تبھی مجھ سے چھوٹ گیا۔ابھی گھنٹے پہلے ٹھیک اسی سیٹ پہ بس کے پچھلے راونڈ میں۔۔۔۔۔
تبھی بس کنڈکٹر نے میرے سٹاپ کا نام پکارا۔میں بھیڑ کو کاٹتے ہوئے آگے بڑھنے لگا۔من ہی من بچوں کو یاد کیا۔آج سب کی فرمائشیں پوری کروں گا۔آرہاں ہوں بیٹا۔۔۔میں نے من ہی من میں کہا
تبھی پیچھے اس بزرگ کی آواز آئی۔۔۔
میں آ رہا ہوں۔ میں آ رہا ہوں بیٹا پیسے لے کے تجھے کچھ نہیں ہوگا کچھ نہیں۔آ رہا ہوں۔
میں رک گیا۔۔۔۔یہ تو نہیں کھوج رہے آپ؟میں نے کوٹ کی ادھڑی جیب سے لفافہ نکال کر پکڑا دیا۔بچوں کو دیے وعدے پورے نہ ہونے کی تکلیف مجھ سے زیادہ کون جانتا تھا۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact