ڈاکٹر عتیق الرحمن
ایسوسی ایٹ پروفیسر
کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس، آزاد جموں وکشمیر یونیورسٹی
سال دو ہزار انیس کے دوران کینیڈا کی حکومت کی کل آمدن 334 ارب کینیڈین ڈالر تھی۔ 2020 میں کینیڈا کی حکومت نے اپنے شہریوں کیلئے لیے354 ارب کینڈین ڈالر کا صرف کرونا ریلیف پیکیج دیا، جوگزشتہ برس کے پورے بجٹ سےبھی زیادہ ہے۔ اس پیکیج میں ہیلتھ سپورٹ سسٹم، افراد اور کاروباری اداروں کی براہ راست امداد ،ٹیکس چھوٹ اور دیگر اقدامات شامل تھے۔
اسی طرح 2019 میں، اٹلی کی آمدنی 840 ارب یورو تھی ۔اطالوی حکومت نے صرف قرض کی ضمانت کے طور پر 500 ارب یورو کا پیکیج دیا، یعنی جو بھی فرد قرض لینا چاہے، اس کی طرف سے زر ضمانت حکومت نے پہلے ہی جمع کروا دیا۔ دیگر مدات میں اٹلی کا ریلیف پیکیج 700 ارب یورو تک پہنچتا ہے۔ جرمنی کی وفاقی حکومت نے اپنی جی ڈی پی کا تقریباً 25 فیصد کرونا ریلیف پر خرچ کیا، جب کہ ایک عام حکومت کا کل بجٹ جی ڈی پی کے 10 سے 15 فیصد تک ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی کی بہت سی مقامی حکومتوں نے اپنے اپنے سپورٹ پیکجز بھی جاری کیے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی 2019 میں کل آمدن 109 ارب ڈالر رہی، اور انہوں نے کرونا ریلیف پر 62 ارب ڈالر خرچ کیے۔ تھائی لینڈ کا کرونا پیکیج ان کی جی ڈی پی کے تقریباً 10 فیصد تک پہنچ جاتا ہے ۔اسی طرح کرونا بحران کے دوران بہت سارے ممالک نے اپنے جی ڈی پی کے 10 فیصد سے لیکر 35 فیصد تک کرونا ریلیف پیکیج پر خرچ کئے اور شرح سود کو انتہائی کم کیا۔
کرونا بحران کے سبب ان سب ممالک میں سرکار کی آمدن میں خوفناک کمی ہوئی، اس کے باوجود اتنے بڑے ریلیف پیکیج کے جن کا حجم مجموعی بجٹ سے بھی تجاوزکر جائے، یہ کیسے ممکن ہے؟ اس راز کا جواب قوموں کی مالیاتی خودمختاری میں مضمر ہے۔ کسی قوم کے خودمختار ہونے کا ایک مطلب مالیاتی خودمختاری ہے، یعنی خودمختار ملک ضرورت پڑنے پر اپنے مرکزی بینک کے زریعے کرنسی پرنٹ کر کے استعمال کر سکتا ہے۔ اسی اختیار کو استعمال کر کے انہوں نے ریلیف پیکیج کیلئے رقوم فراہم کیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومتیں پیسہ پرنٹ کرکے استعمال کر سکتی ہیں تو وہ ٹیکس وصول ہی کیوں کرتی ہیں، صرف کرنسی پرنٹنگ سے کام کیوں نہیں چلاتی؟ دراصل پیسہ چھاپنے کیلئے بہت محتاط طرزعمل کی ضرورت ہے۔ اگر کسی ملک میں نئی معاشی سرگرمی کے بغیر کرنسی پرنٹ کی جائے تو افراط زر بڑھ جاتا ہے۔ مثلا زمبابوے نے 2006 میں سرکاری اخراجات کے لیے رقم چھاپنے کا اعلان کیا۔ اس اقدام کے سبب وہاں اور افراط زر 10 لاکھ فیصد سالانہ سے بڑھ گیا اور نوبت یہاں پہنچ گئی کہ ایک ارب کے کرنسی نوٹ کے عوض صرف دو انڈے خریدے جا سکتے تھے۔ بولیویا اور برازیل وغیرہ کو بھی ماضی قریب اسی طرح کے افراط زر کا سامنا رہا ہے۔
یہ عجیب مخمصہ ہے، ایک طرف زمبابوے کی مثال ہے جہاں کرنسی پرنٹ کرنے کے سبب افراط زر لاکھوں فیصد تک جا پہنچا، دوسری طرف کینیڈا، برطانیہ، اٹلی، نیوزی لینڈ کی مثالیں ہیں، جنہوں نے 2020 میں سیکڑوں ارب ڈالر کے پیکیج دئے، لیکن اس سال افراط زر نہیں ہوا۔ ایک ہی قسم کے عمل کے دو مختلف طرز کے نتائج آخر کیوں؟ جواب سمجھنے کیلئے اس مثال پر غور کیجئے۔
فرض کریں ایک معیشت میں 20 روٹیاں پیدا ہو رہی ہیں اور معیشت میں رقم کی مقدار 20 ڈالر ہے، تو ایک روٹی ایک ڈالر کی دستیاب ہوگی۔ اگر روٹیوں کی پیداوار بڑھائے بغیر معیشت میں ڈالر 100 ہو جائیں تو ہر ایک روٹی کی قیمت 5 ڈالر ہوجائے گی۔ لیکن اگر معیشت میں روٹی پکانے کا سامان موجود ہو اور نئی چھپی ہوئی رقم کو اضافی روٹیاں پکانے کے لیے استعمال کیا جائے تو 100روٹیاں اور 100 ڈالر ، تو ایسی صورت میں روٹی مہنگی نہیں ہوگی۔ چنانچہ نئی معاشی سرگرمی کیلئے یا جب اقتصادی بحران کے سبب معاشی پیداوار میں کمی کا سامنا ہو تو اس کمی کو پورا کرنے کیلئے بغیر افراط زر کرنسی پرنٹ کر کے استعمال کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ بہت سے ممالک نے اپنی اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے کرنسی پرنٹنگ کا آپشن کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ خاص طور پر 2007-08 کے عالمی مالیاتی بحران اور کرونا بحران کے دوران بحران سے نکلنے کا واحد ذریعہ مرکزی بنک کا سے قرض یعنی کرنسی پرنٹنگ ہی تھا، اور ان دونوں مواقع پر افراط زر پیدا نہیں ہوا۔
سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد بحالی کے کام میں بھی سب سے بڑا معاون بھی مرکزی بنک ہی ہوسکتا ہے۔ حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ بہت سے پہاڑی علاقوں میں چھوٹے اور درمیانے سائز کے ڈیم بنائے جائیں، اور اس مقصد کیلئے سٹیٹ بنک سے قرض لیا جائے ۔ اگر اس نئی رقم کو ڈیم بنانے کیلئے استعمال کریں تو درحقیقت یہ موجودہ معیشت میں نئی سرگرمیوں کا اضافہ ہوگا۔ معیشت میں اس توسیع کے سبب کرنسی پرنٹنگ افراط زر کا سبب نہیں بنے گی۔
گذشتہ کچھ سالوں میں کنسٹرکشن انڈسٹری کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی ، اور اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا رہا کہ کنسٹرکشن انڈسٹری کی وجہ سے بہت ساری صنعتوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ اگر چھوٹے ڈیم بنائے جائیں تو یہ بھی دراصل کنسٹرکشن ہی ہوگی اور اس کے ساتھ بھی متعدد انڈسٹریز کو فائدہ ہوگا۔ لیکن ڈیم سے حاصل ہونے والے فوائد وسیع البنیاد اور طویل مدتی ہوں گے جو مجموعی قومی پیداوار میں مستقل اضافہ اورمستقبل میں سیلاب سے تحفظ کا سبب بھی بنیں گے۔
موجودہ حالات میں عوام کو ریلیف دینے کی بہترین صورت یہی ہے کہ موجودہ حکومت چھوٹے اور درمیانے سائز آبی ذخائر کی تعمیر کو ہنگامی بنیادوں پر شروع کروائے اور اس کی مکمل سرپرستی کرے ۔ اس مقصد کیلئے حکومت سٹیٹ بنک سے قرض لیکر اچھی تعمیراتی فرمز کو ٹھیکے دئے جائیں۔ اس وقت بے شمار لوگوں کو اپنے مکانات کی تعمیر اور بحالی کے کاموں کے لیے رقوم کی ضرورت ہے، اگر وسیع پیمانے پر چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا کام شروع کیا جائے تو ایک طرف نئے آبی ذخائر وجود میں آئیں گے جو مستقبل میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے میں کردار ادا کریں گے اور دوسری طرف سیلاب زدہ لوگوں کو آمدنی کا ذریعہ میسر آئے گا جسے استعمال کرکے وہ اپنی املاک کی بحالی کیلئے کام کر سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں آئی ایم ایف بھی اپنی کڑی شرائط پر اصرار نہیں کر سکے گا اور ان شرائط کو نظرانداز کرنے پر مجبور ہوگا۔
براہ راست ریلیف کے علاوہ بحران کے وقت کی دوسری مقبول ترین پالیسی شرح سود کو کم کرنا ہے۔ کرونا بحران کے دوران دنیا کے تقریبا سبھی ملکوں نے شرح سود میں کمی کی۔ ہمیں اس وقت کرونا بحران سے زیاہد شدید بحران کا سامنا ہے۔ اس وقت ہمیں وہ شرح سود درکار ہے کرونا بحران کے دوران ہماری ہم پلہ معیشتوں میں موجود تھی۔ اگر شرح سود کم ہوگی تو اس سے دو قسم کے فوائد حاصل ہوں گے۔ پہلا یہ کہ حکومت کے ذمہ واجب الادا سود کی رقم کم ہوگی اور ریلیف کیلئے رقم دستیاب ہو جائے گی۔ دوسرا فائدہ یہ کہ جب شرح سود کم ہوگی اور قرض آسانی سے دستیاب ہوں گے تو لوگ آسانی سے قرض لیکر اپنے اپنے کاروبار کی بحالی کیلئے استعمال کر لیں گے، اس طرح حکومت پر کوئی بڑا بوجھ ڈالے بغیر معیشت کی بحالی ممکن ہو جائے گی۔
مرکزی بنک سے قرض لینا اور شرح سود کو کم کرنا، یہ دو نسخے دنیا بھر میں معیشت کی بحالی کیلئے استعمال کئے گئے۔ سابق دور حکومت میں ایک متنازعہ قانون سازی کے زریعے یہ دونوں نسخے پاکستان کیلئے ممنوع قرار دئے گئے، لیکن آج موقع ہے کہ سیلاب زدگان کی امداد کی خاطر مسلط شدہ آقاآئی ایم ایف کو شرائط نرم کرنے پر آمادہ کروا لیا جائے۔ صرف یہی ایک اقدام سیلاب زدگان کی موثر امداد کیلئے کافی ہو جائے گا
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.