کتاب : “اسیر ماضی”
صاحب کتاب :حافظ ذیشان یاسین
تاثرات:آرسی رؤف
زیر نظر کتاب اسیر ماضی، پریس فار پیس پلی کیشنز سے طباعت شدہ ایک عمدہ نثریہ کتاب ہے۔میرے ہاتھ میں اس کا دوسرا ایڈیشن موجود ہے۔
اس کے مصنف حافظ ذیشان یاسین اس سے پہلے بھی دو کتب تصنیف کر چکے ہیں، گویا کسی تعارف کے محتاج نہیں،لیکن اس کتاب کی انفرادیت ان کی مقبولیت میں اضافے کا باعث ضرور ہے۔
عمدہ نثر پڑھنے کے شائقین کے لئے اس کے چیدہ چیدہ خصائص پیش خدمت ہیں۔
سرورق
شام کے دھندلکے میں،وقت دکھاتی گھڑی کی سوئیوں کو پیچھے کی اور گھمانے کی خواہش میں پہاڑیوں سے گھری وادی میں کچے راستے پر محو سفر سارباں اپنے اونٹ کے ہم قدم رواں دواں ہے۔
اس کا دل و دماغ اسے ماضی کا اسیر رکھے ہوئے ہے جبکہ وقت پنچھیوں کی صورت پر لگا کر اس کے ہاتھوں سے بہت دور نکل آیا ہے۔
سرمئ شام اور مٹیالا رنگ،جھانکتی ہریالی اور نیلگوں آسماں،زیست کےمختلف رنگوں کے استعارے ہیں لیکن اداسی کا رنگ سب پر غالب ہے۔وقت کا مسافر اسیر ماضی ہو کر بھی حالت سفر میں ہے۔اس کا،ایک قدم بھلے زمین میں پیوستہ لیکن دوسرا اٹھا ہوا قدم اس کو محو سفر رہنے پر مجبور رکھتا ہے۔
حافظ ذیشان کا اسلوب
روایتوں کے امین ہو کر روایت سے ہٹ کر تحریر کردہ انتساب پر نظر پڑی تو پہلی ہی جست میں عام سے خاص کی منزل بلا تامل طے ہوگئی۔
حافظ ذیشان کا اسلوب اردو ادباء سے مختلف اس طرح لگا کہ مجھے ان کی تحاریر پڑھ کر کبھی چارلس لیمب،کبھی ورڈذ ورتھ اور کبھی فرینسس بیکن بے اختیار یاد آیا۔
مثلا اسیر ماضی، جو مصنف کا پہلا افسانہ ہے ،اس میں بظاہر واحد متکلم کا صیغہ استعمال کیا گیا،لیکن یہ ہر اس ناسٹیلجک شخص کا نوحہ ہے جو ماضی کی قید میں مقید ہو کر حال سے بے گانہ بھی ہے اور ماضی کے لئے دل گرفتہ بھی۔اسے ورڈذ ورتھ کی طرح عہد رفتہ میں زندہ فرد یعنی حال میں موجود فرد کا وہ روپ جس میں وہ بچہ تھا تو فطرت کے قریب تر تھا۔چہچہاتے پرندے،چمکتے جگنو،کوئل اور مینا کی ہمراہی میں وہ اپنی زیست کو خوب تر گردانتا ہے۔
سرد شام کے احساس تلے مصنف ایک اور مالیخولیائی کیفیت کا شکار ہو کر پھر کسی ایسی دنیا کی تلاش میں سرگرداں نظر آتا ہے،جہاں کی خواتین کچے آنگن میں کبھی کپڑے سیتی،کبھی سویٹروں کے تانوں بانوں میں بن تعبیر کے خواب بنتی ہیں۔
سرد شام کی خنکی ابھی کم نہیں ہوئی ہے، زیست کے صفحات پر ایک اور “خواب سرائے” روبرو ہے۔سرد شام کے بعد خواب سرائے اور جنگل کا طلسم میں بھی مصنف ایک ہی رو میں بہتا ہوا ماضی میں جا پہنچتا ہے۔جہاں اضافہ ہے تو چرخے کی کوک کی ادس کن آواز کا،ماہ تاباں کا،
گاؤں اور جنگل کے باسیوں کا۔
چاہے “سرد شام “کا تذکرہ ہو یا “گرم دوپہر” کا،”گم گشتہ قافلوں”کو سفر درپیش آئے یا “چناب کے دکھ”بیاں ہوں ،کوئی “شب نشاط “میسر آجائے تب بھی “غبار دشت میں،اونٹوں کی داستاں گو آنکھیں گزرے زمانوں حکایتیں بیان کرتی ہیں۔
سب تحاریر کم وبیش ایک دوسرے میں گندھی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔جن کا موضوع عہد رفتہ کی خوب صورتی پر رطب السان ہو کر رقت و گریہ کی کیفیت پیدا کرنا یے۔یہ رقت و گریہ فقط اداس نہیں کرتی بلکہ تفاخر کے جذبات بھی ابھارتی ہے۔
فطرت کے ساتھ درگاہ و درویش کا تصور
فطرت کے نظاروں کی دلکشی کا تذکرہ ہو یا تذکرہء اسیرانِ ماضی کسی نہ کسی روحانی شخصیت کی موجودگی کا احساس،دولتِ تیقّن و ایقان کی جانب ایک اشارہ ہے،جس کا تصور عہد حاضر میں ہونے والی ترقی کے نتیجے میں معدوم سا ہو گیا ہے۔گویا روح کی بالیدگی کا سامان بھی ختم ہو گیا۔
مثلاً
“جب کوئی صوفی مراقبہ میں مستغرق ہوتا ہے تو جنگل بھی کسی سوچ میں کھو جاتا ہے،جنگل کسی درویش کی طرح گیان میں چلا جاتا ہے۔
گویا فطرت کے قریب زیست بِتانے کے لئے بدن و روح دونوں لازم وملزوم ہیں،اور ایسے جہاں میں دونوں کا یک جاں دو قالب ہونا ممکن ہے۔
ایک ایسا جہاں جس میں ” چڑیا کی مغموم آنکھوں میں پھیلی ہوئی اداسی سوگواری اور حزن و ملال،کرب آشنا ہو کر “سوز دروں ” بیاں کرنے سے نہیں چوکتی۔
کبھی فطرت اور کبھی مصنف خود کسی درویش کی صورت چرند،پرند،نبات کی زباں بن جاتا ہے اور کبھی ان کا سوز دروں سننے کو بے تاب و ہمہ تن گوش۔
کردار
مصنف کم و بیش ہر افسانے کا حصہ ہے۔ قاری اسی کی چشم تصور سے تمام مناظر کو دیکھتا ہے، محسوس کرتا ہے،پرکھتا ہےاور دل۔میں اتارتا ہے۔اسی کے سنگ اداس ہوتاہے،تحیر و نشاط ، تنہائی اور کیفیاتِ ہجرو فراق سے گزرتا ہے۔
وہ چنیدہ اور منفرد لفظوں سے تحریر کا تانا بانا کچھ ایسے بنتا ہے کہ ایک سحر سا طاری کر دے،ایسا فسوں کہ جس کے حصار سےنکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔
وہ اپنے اندر کا غبار نکال باہر کرنے کی کوشش میں دوسروں کی سوچ کی انگلی تھام کر انہیں بھی اپنا ہم نوا کر کے چھوڑتا ہے،لیکن یہ غبار کچھ اور بھی بڑھنے لگتا ہے گھٹتا ہی نہیں۔یہاں تک کہ تا دم آخر اس کے قلم کی پوروں کے ہر دائروی گھماؤ میں سے جو لفظ پھوٹتے ہیں اسے اسیر ماضی ہی گردانتے ہیں۔
مختلف طرز کا انداز تحریر اپنانے پر مصنف انفرادیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ اپنی آراء کا اظہار کرنے والوں نے اسیران ماضی کو افسانوں پر مبنی تصنیف گردانا ہے،کچھ نے انہیں تجریدی افسانے قرار دیا۔ سبھی تحاریرہمہ جہت ہیں۔انفرادی طور پر اگر ان تحاریر کا جائزہ لوں تو مجھے نہ جانے کیوں کچھ تحاریر پر مضمون نگاری کا شائبہ ہوا،اور بحیثیت مجموعی دیکھوں تو ایک پورے ناول کا گماں ہوا،جس کے کرداروں میں مصنف خود بھی موجود ہے اور فطرت کو بھی ایک کردار کی صورت تجسیم کرتا ہے۔کسی نہ کسی روحانی شخصیت کا کردار بھی بہت اہم حیثیت رکھتا ہے۔ ماضی کے جھروکوں سے جھانکتی ہر شے اس کے جیتے جاگتے کردار کی صورت ہمارے روبرو ہے۔
گویا انسان اس کائنات میں ہر شے کی اس کی اصل حالت میں موجودگی کے بدولت ہی صحیح ڈگر پر ہے ورنہ انسان بے خانماں مسافر ہے کہ جسے اپنی منزل کے کھو جانے کا دکھ اس کے ماضی کو ہمیشہ خوبصورت اور آشنا گردانتا رہے گا،حال کو ناپائیدار اور مستقبل سے نا آشنا۔
سوچ کو نئے زاویوں پر موڑنے پر اکسانے والی ایک خوبصورت نثریہ کتاب ،جس میں موجود نغمگی کے احساس سے انکار ممکن نہیں،کی اشاعت پر حافظ ذیشان یاسین اور پریس فار پیس دونوں ہی داد و تحسین کے مستحق ہیں۔