Thursday, May 2
Shadow

بہاولپور میں اجنبی تبصرہ نگار: نیلم علی راجہ

تبصرہ نگار: نیلم علی راجہ

ماضی بھی عجب شے ہے، اپنے اندر یادوں کا طوفان لیے انسان کو مختلف احساسات سے دوچار کرتا رہتا ہے۔ کبھی ہنسنے کے لیے نئی جہتیں دیتا ہے تو کبھی پچھتاوں کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے مگر بعض دفعہ ایسے ایسے انمول خزانے دفن کئے ہوتا ہے کہ جنھیں دوسروں کو بتانے میں خوشی محسوس ہوتی ہے۔
کچھ ایسی ہی یادیں مظہر اقبال مظہر صاحب کی تھیں جن کو لوگوں تک پہنچانا بے حد ضروری تھا۔ مظہر اقبال مظہر صاحب کو کرونا کے دوران بیتے لمحوں کی یاد یوں ستائی کہ انھوں نے اس کو قلم بند کرنا شروع کر دیا اور پھر پریس فار پیس فاونڈیشن نے ان کی یادوں کو ایک خوبصورت کتاب کی شکل دے کر محفوظ کر لیا۔
اس کتاب کا نام “بہاولپور میں اجنبی” رکھا گیا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس کتاب میں بہاولپور شہر کو متعارف کروانے کے ساتھ دو افسانے”دل مندر” اور “ایک بوند پانی” بھی شامل ہیں۔ یعنی ایک ٹکٹ میں دو دو مزے۔ لوازمات کے طور پر کتاب کے آخر میں بہاولپور کے تاریخی مقامات جن کا کتاب میں ذکر کیا گیا ہے ان کی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔
اس کتاب کی شروعات میں مظہر صاحب نے ہجرت کا مفہوم واضح کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ہجرت کے بارے میں مظہر صاحب کہتے ہیں کہ:
“ہجرت کی مختلف  شکلیں ہیں۔ جس میں جسمانی، روحانی، ذہنی اور نفسیاتی ہجرت شامل ہے۔ مصنف کے مطابق تارکین وطن ہمیشہ مہاجر ہی ہوتا ہے۔ جسے اکثر اپنی شناخت کے تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔”
مصنف نے کتاب میں کشمیری ہونے کی مشکلات اور مندرجات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس تکلیف اور اذیت کا اظہار بھی کیا ہے جو آزاد کشمیر کے شہریوں کو درپیش ہیں۔ دیار غیر میں کشمیری کا لفظ سنتے ہی شناخت کی جانچ پڑتال کا مرحلہ طے کرنے کے لیے عجیب و غریب سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مصنف نے اپنی یاداشت کا آغاز ایم اے انگریزی کا امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے دینے سے کیا۔ ان کا امتحانی سنٹر بہاولپور بنا۔

مصنف بہاولپور تو صرف امتحانات کی غرض سے گئے مگر وہاں جا کر شہر دیکھنے کو دل مچلا اور پھر انھوں نے محدود وسائل کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بہاولپور دیکھنے کے لیے کمر کس لی۔ اس سفر کے دوران  بہت سے دوست بھی بنائے۔
مظہر اقبال چوں کی کشمیری ہیں اس لیے سرائیکی زبان سے واقفیت نہیں تھی۔ سرائیکی زبان، ثقافت، تاریخی عمارات، علمی و تہذیبی، رہن سہن، علاقائی لباس، اور چولستان کے باسیوں کی بودوباش سے واقفیت اس سفر کے دوران ہوئی۔
کتاب میں
تاریخی عمارات جن میں سنٹرل لائبریری جسے صادق ریڈنگ لائبریری بھی کہا جاتا ہے۔اس کا آرکیٹیکچر دیدہ ذیب اور دل موہ لینے والا ہے۔
اس کے ساتھ ہی میوزیم بھی واقع ہے۔
اس کتاب میں جامع مسجد الصادق کا بھی ذکر ہے۔ جو کہ عباسیہ دور کی ایک یادگار ہونے کے ساتھ اپنی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ اسی طرح لکھاری نے بہاولپور کے ہسپتال، گلیاں چوبارہ کو بھی اپنی اس یادداشت کا حصہ بنایا۔
ناشپاتی ایک پھل تو ہے یہ تو سب کو معلوم ہے مگر اس کتاب میں مظہر اقبال صاحب نے اسے ایک لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے جو کہ مزاح بھی لیے ہوئے ہے۔ یہ تو کتاب کا مطالعہ کر کے ہی پتہ چلے گا۔
اس کتاب کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس میں ٹکڑوں کو جوڑ کر کتاب نہیں بنایا گیا۔ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری بھی مصنف کے ساتھ انھیں یاداشتوں میں سفر کرتا محسوس کرتا ہے۔ مظہر اقبال مظہر صاحب کی  “بہاولپور میں اجنبی” کتاب میں تاریخی پس منظر کے ساتھ ہر چیز کی وضاحت کی گئی ہے۔ اور نہ صرف یہ صوفیانہ رنگ تک ہر پہلو کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
کتاب میں موجود دونوں افسانے نہایت عمدگی سے تخلیق کیے گئے ہیں، جو کہ قاری کو اپنے سحر میں جکڑے رکھتے ہیں۔ دو بوند جیسا کہ نام سے ہی واضح ہے کہ وقت کی ضرورت کے لحاظ سے اہم ہے جس میں پانی کے مسئلے کو اجاگر کیا گیا۔ جبکہ دل مندر میں عشقیہ داستان کو بیان کیا گیا ہے۔
اس سفر نامے اور پھر ان افسانوں کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کی قلم پر گرفت بہت مضبوط ہے۔ تفصیلی مشاہدہ کرنے کی حس بھی بدرجہ اتم موجود ہے جس سے مصنف قاری کو اپنے ہی ماحول سے جوڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی اس کتاب میں ہوا۔
چند روزہ قیام میں اس قدر تفصیل سے لکھنا لکھاری کی لکھنے کی مہارت اور جائزے کی عمدہ صلاحیت ثابت کرتی ہے۔
مظہر اقبال مظہر صاحب کی کتاب عالمی سطح پر بھی بہاولپور جیسے تاریخی اہمیت رکھنے والے شہر کو متعارف کروانے کا سبب بنے گی۔ اور یہاں سیاحت میں بھی اضافہ کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔
اس کتاب کو پڑھ کر ہمارے دل میں بھی بہاولپور دیکھنے کا شوق پیدا ہو گیا ہے۔ کیوں کہ اب ہم تو بہاولپور میں خود کو بالکل اجنبی نہیں سمجھتے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact