کہانی: بھوت / ام محمد عبداللہ

کہانی ام محمد عبداللہ
کہانی ام محمد عبداللہ
کہانی ام محمد عبداللہ

کہانی: بھوت / ام محمد عبداللہ

کہانی کار: ام محمد عبداللہ
”اسامہ! یہ آپ نے اپنی کاپی کے صفحے کیوں پھاڑے ہیں؟“ ٹیچر نے غصے سے اسامہ کا گھورا
”نن نہیں میں نے تو نہیں پھاڑے۔“ اسامہ کو حیرت ہوئی اس نے تو ہمیشہ کی طرح بہت صفائی سے ہوم ورک مکمل کر کے کاپی بستے میں رکھ دی تھی پھر صفحے کیسے پھٹ گئے؟ ”یقیناً یہ حرا کا کام ہوگا۔ اسے اپنی چھوٹی بہن حرا پر بہت غصہ آ رہا تھا۔
”اسامہ! اتنے گندے ٹماٹر کہاں سے اٹھا لائے؟“ سودا دھیان سے کیوں نہیں لائے۔
امی جان نے اسامہ کو ڈانٹا تو اس کے آنسو نکل آئے۔ اس نے تو خود چن کر اچھے اچھے ٹماٹر تھیلے میں ڈالے تھے  پھر باورچی خانے میں رکھتے ہی وہ لال لال ٹماٹر خراب کیسے ہو گئے؟ کام والی کے سبزی کے تھیلے کے ساتھ  بدل گئے ہوں گے امی جان۔ میں اچھے ٹماٹر لایا تھا۔“ اسامہ نے اپنی صفائی پیش کی۔
آج کل نجانے کیوں اسامہ کو سب سے ڈانٹ پڑنے لگی تھی۔ وہ تو سب کچھ پہلے کی طرح ٹھیک ٹھیک ہی کر رہا تھا پھر اچانک چیزیں خراب کیوں ہونے لگی تھیں۔ اسے حیرت بھی تھی اور وہ بہت افسردہ بھی تھا۔
”اسامہ بھائی! مجھے ٹیچر نے میرا پیارا وطن پر تقریر لکھنے کے لیے دی ہے کیا آپ میری مدد کریں گے؟“ اسامہ سرجھکائے  پریشان اور دکھی بیٹھا ہوا تھا کہ اس کے ہم عمر اور ہم جماعت پھوپی زاد بھائی اواب نے اس کا بازو ہلایا۔
” اواب بھائی! ٹیچر نے مجھے بھی میرا پیارا وطن پر خوبصورت چارٹ بنانے کو کہا ہے لیکن میرا دل کچھ بھی کرنے کو نہیں چاہ رہا۔ آج کل میرا ٹھیک کیا ہوا کام بھی غلط ہو جاتا ہے۔“ اسامہ نے دکھ سے کہا
” نہیں آپ تو بہت پیاری تقریریں اور مضامین لکھ لیتے ہیں۔ میری مدد کر دیں۔“ اواب نے منت بھرے لہجے میں کہا تو اسامہ کاغذ قلم پکڑ کر اواب کے لیے تقریر لکھنے لگا۔
اواب اسامہ کا پھپھو زاد بھائی تھا۔ وہ اس کا ہم عمر و ہم جماعت بھی تھا۔ اس کے ابو جان کا دو سال پہلے انتقال ہو گیا تھا اور اب وہ لوگ اسامہ کے والد یعنی ایوب صاحب کے مکان کے بالائی حصے میں مقیم تھے۔ اسامہ کی پھپھو ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی تھیں لیکن اواب کے مکمل  تعلیمی اخراجات ایوب صاحب نے اپنے ذمہ لے رکھے تھے۔
”پیارے  بچو! کیا ہو رہا ہے؟“ ابو جان کمرے میں داخل ہوئے تو بچوں کو پڑھتے لکھتے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔
”ماموں جان! میں تقریر یاد کر رہا ہوں۔ آپ کو سناؤں؟“ اواب نے تقریر سنانی شروع کی تو ایوب صاحب بہت خوش ہوئے۔
” ماشاءاللہ اواب! بہت خوب“ انہوں نے خوش ہو کر اواب کو سو روپے انعام  بھی دیا اور اسامہ سے مخاطب ہوئے۔
” بیٹا! آپ نے بھی تقریر یاد کی ہے؟“
” نہیں ابو جان! میں نے چارٹ بنانا ہے۔“  اسامہ نے انہیں بتایا
”ٹھیک ہے اچھا سا چارٹ بنائیں آپ کو بھی انعام ملے گا۔“
ایوب صاحب نے اسامہ کی کمر تھپتھپائی۔
رات تک اسامہ نے بھی اپنا چارٹ اشعار اور تصاویر سے  سجا لیا تھا۔
” یا اللہ! میرے چارٹ کی حفاظت فرمانا۔ آمین“ اسامہ  نے اپنا محنت سے بنایا خوبصورت چارٹ  کتابوں کی الماری میں رکھتے ہوئے دعا کی۔
وہ سونے کے لیے بستر پر آ لیٹا تھا لیکن اسے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں اس کا چارٹ خراب نہ ہو جائے۔ وہ سونے کی کوشش کرنے لگا لیکن اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ بے چینی سے بستر پر کروٹیں بدلتے وہ اٹھ بیٹھا۔  اوہو چارٹ پر میں نے اپنا نام تو لکھا ہی نہیں، ابھی لکھ لیتا ہوں۔
وہ اپنے کمرے سے نکل کر باہر برآمدے میں کتابوں کی الماری کی طرف بڑھا۔ برآمدے میں اندھیرا تھا اس نے نائٹ بلب کا بٹن دبایا تو برآمدے میں معمولی سی روشنی ہو گی۔
”مگر یہ کیا، مارے خوف کے اس کی تو گھگھی ہی بندھ گئی۔  الماری کے سامنے ایک لمبا سا سفید ہیولہ کھڑا تھا۔ اسامہ کے دیکھتے ہی دیکھتے غیر محسوس طریقے سے الماری کے دونوں پٹ کھلے اور اس کا چارٹ ہوا میں اڑتا ہوا باہر آ گیا
”ہا ہا ہا اسامہ کی کاپی کے صفحے میں نے پھاڑے، صاف ٹماٹر گندے ٹماٹروں سے میں نے بدلے اب میں اسامہ کے چارٹ پر سیاہی بھی گرا دوں گا… ہا ہا ہا۔“ بھوت ایک بار پھر ہنسا تو اسامہ کی تو ٹانگوں سے جان ہی نکل گئی۔ وہ وہیں کھڑا کھڑا کانپنے لگا تھا ڈر کے مارے اس نے آنکھیں زور سے بند کر لی تھیں۔
اچانک کوئی چیز اس سے ٹکرائی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ ڈر کر چیختا اور بھاگتا کسی نے اسے زور سے دبوچ لیا تھا۔
” بھب بھوت بھوت مجھے چھوڑ دو! مجھے چھوڑ دو۔“
اسامہ چیخنے لگا تھا
ایک دم برآمدے کی ساری بتیاں روشن ہوئی تھیں۔
کتابوں کی الماری کھلی ہوئی تھی
مختلف چیزیں نیچے گری پڑی تھیں ساتھ ہی میز بھی الٹا پڑا تھا اواب اور اسامہ ایک دوسرے کو دبوچے کھڑے چیخیں مار رہے تھے۔
” کیا ہوا بچو! کیا ہوا؟“ امی ابو جو بچوں کی چیخیں سن کر آئے تھے پریشان ہو کر پوچھنے لگے۔
امی جان میری الماری میں بھوت گھسا ہوا تھا وہ کہہ رہا تھا کہ میری سب چیزیں وہ خراب کر دے گا۔ اسامہ روتے ہوئے بتانے لگا۔
اواب ساتھ ہی سر جھکائے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں کے مصداق خاموش کھڑا تھا۔ امی اور ابو جان کو لمحہ بھر میں صورتحال سمجھ آ گئی تھی۔ اسامہ کا خوف جب کچھ کم ہوا تو اس نے بھی جان لیا کہ اندھیرے میں جسے وہ بھوت سمجھ رہا تھا وہ تو اواب تھا۔ میز پر کھڑے ہونے اور لمبے سفید کرتے کی وجہ سے مدھم روشنی میں وہ اسے بھوت لگ رہا تھا۔
ایوب صاحب کو بھانجے سے ایسی حرکت کی توقع نہیں تھی۔ وہ تو صدمے سے وہیں قریب پڑے صوفے پر بیٹھ گئے۔
” اواب! آپ نے یہ سب کیوں کیا؟“ اسامہ کی والدہ منزہ بیگم نے نرمی سے اواب سے پوچھا۔
اواب گم صم کھڑا تھا۔ وہ کچھ بھی بول نہیں رہا تھا۔
”امی جان! یہ کہہ رہا تھا کہ اسی نے  میری کاپی بھی پھاڑی ہے اور اور… “ غم اور غصے کی وجہ سے اسامہ اواب کو مارنے کے لیے آگے ہی بڑھا تھا کہ اواب نے اونچی آواز سے رونا شروع کر دیا۔
” جلدی بتاؤ، ورنہ اب تمہیں غلط کام کرنے پر سزا ملے گی۔“ ایوب صاحب جو پہلے ہی اس کی غلط حرکت پر   حیران و پریشان تھے اس کے رونے پر جھنجھلا گئے۔
منزہ بیگم نے جو یہ صورتحال دیکھی تو اواب کو اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے کہنے لگیں،”اواب جلدی وجہ بتاؤ بیٹا تم نے ایسا کیوں کیا؟“
امی جان کے نرم لہجے سے اواب کو کچھ حوصلہ ہوا تو وہ روتے ہوئے کہنے لگا،
”اسامہ بھائی کے پاس سب کچھ ہے۔ ابو جان، اچھے کپڑے، اچھا کھانا، کھلونے، کتابیں سب کچھ……
میرے پاس کچھ بھی نہیں… ابو جان بھی نہیں… اسامہ بھائی جیسی کوئی چیز بھی نہیں… جب ماموں جان ہمیں یہاں لائے تھے تب میں نے سوچا تھا میں اسامہ بھائی سے پڑھائی میں آگے نکلوں گا لیکن میں وہاں بھی ان سے پیچھے رہ گیا یہ کلاس میں اول آ گئے اور میری کوئی پوزیشن نہیں آئی سب انہیں اچھا کہتے اور سمجھتے ہیں میں ہر جگہ ان سے پیچھے رہ جاتا ہوں لیکن اب یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا میں خود اول نہیں آ سکا تو انہیں بھی نہیں آنے دوں گا۔“ احساس کمتری اور بغض و حسد میں ڈوبی سسکیوں میں اواب نے وجہ بیان کر دی تھی۔
ایوب صاحب غم و غصے کی کیفیت میں ہونٹ بھینچے ششدر کھڑے تھے جبکہ اسامہ کو اواب اور پھپھو جان پر کیے گئے امی ابو کے ان گنت احسانات یاد آنے لگے تھے اور وہ بلند آواز میں انہیں گننے بھی لگا تھا۔
”میں اور میرے امی اور ابو جان ہر ہر معاملے میں تمہارا، تمہاری امی اور تمہاری چھوٹی بہنوں کا خیال رکھتے ہیں اور تم ہو کہ مجھے ہرانے کی فکر میں لگے ہو میں ابھی اوپر پھپھو جانی کو جا کر سب بتاتا ہوں کہ تم ہماری کی ہوئی سب نیکیاں بھول گئے ہو۔“
اسامہ جیسے ہی پھپھو جانی کو بلانے کے لیے مڑا تو منزہ بیگم  نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”اسامہ رکو! تم بھی تو کچھ بھول رہے ہو۔“
اسامہ نے حیران ہوتے ہوئے اپنی امی جان کی جانب دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو بھلا میں کیا بھول رہا ہوں۔
” اسامہ بیٹے میں نے تمہیں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ سنایا تھا۔ ان کے بھائیوں نے انہیں کنویں میں پھینک دیا تھا….. لیکن جب اللہ تعالی نے انہیں کنویں کے اندھیروں سے نکال کر مصر کی بادشاہت بخشی اور ان کے یہی بھائی زیر ہو کر ان کے سامنے آئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے کیا کیا تھا اسامہ؟“
” انہوں نے اپنے بھائیوں کو معاف کر کے ان کے ساتھ احسان کا معاملہ فرمایا تھا۔“ اسامہ نے آہستگی سے جواب دیا اسے سارا قصہ یوسف علیہ السلام یاد آ گیا تھا۔
” فتح مکہ کے موقع پر ہمارے پیارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مشرکین مکہ پر غلبہ پانے کے بعد کیا کیا تھا اسامہ؟“
”پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سب کو معاف کر دیا تھا۔“ جیسے ٹھہر ٹھہر کر منزہ بیگم نے سوال کیا تھا ویسے ہی سلجھے ہوئے انداز میں اسامہ نے سر جھکا کر جواب دیا تھا۔
” اسامہ ہم نے کل کون سی حدیث اپنی کاپی میں لکھی تھی؟“ منزہ بیگم نے اگلا سوال کیا۔
” البر حسن الخلق“
” نیکی حسن اخلاق کا نام ہے۔“
اسامہ نے آہستگی سے جواب دیا۔
اواب حیرت سے اور ایوب صاحب بہت دلچسپی سے ماں بیٹے کا مکالمہ سن رہے تھے۔
بیٹا اب تک تو ہم نے صرف حسن اخلاق اور نیکی کے صرف قصے سنے ہیں اور ان سے متعلق حدیث یاد کی آج حسن اخلاق کا عملی مظاہرہ کرنے، پیارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے اور نیکی کمانے کا عملی موقع ہاتھ آیا ہے۔ یہ نیکی کما کر اپنے نامہ عمل میں محفوظ کرو گے اسامہ یا یہ سنہری موقع گنوا دو گے؟ منزہ بیگم نے اسامہ کی آنکھوں میں جھانکا۔
”میں نے اواب کو معاف کیا۔“ بہت ہمت کر کے اسامہ نے جواب دیا تو منزہ بیگم نے مسکراتے ہوئے اسے شاباش دی
” اواب تم ہمارے بیٹے ہو بالکل اسامہ کی طرح۔ کل سے شام کے وقت اپنی کتابیں لے کر میرے پاس آ جایا کرنا میں خود تمہیں پڑھاؤں گی، قصص القرآن اور قصص الانبياء بھی سناؤں گی اور ہم مل کر بہت سی احادیث بھی یاد کریں گے ان شاءاللہ پھر تمہیں پتا چلے گا کہ اللہ تعالی نے تمہیں بہت خاص اور بہت  پیارا بنا کر اور بہت سی ایسی نعمتیں دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے جو کسی اور کے پاس نہیں ہیں۔“ منزہ بیگم نے پیار سے اواب کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس نے اپنے دل میں سکون سا اترتا ہوا محسوس کیا۔
ایوب صاحب جہاں یہ سب دیکھ کر اطمینان محسوس کر رہے تھے وہیں وہ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ انہیں نہ صرف اپنے یتیم بھانجے کی معاشی مدد کرنی ہے بلکہ اس کی مضبوط شخصیت پروان چڑھانے میں بھی ہر ممکن اپنا کردار ادا کرنا ہے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.