مصنفہ: رمزہ قیوم
حنا اپنے کام میں مصروف تھی کہ اچانک امی کی چیخوں کی آواز سنائی دی۔ ہائے میرا بچہ ! حنا بھاگتی ہوئی کمرے میں گئی ” “امی جی کیا ہوا؟” حنا نے پوچھا ۔
“تمہارے بھائی اور بھابھی کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہےامی نے یچکیاں لیتے ہوئے کہا۔ حنا تو جیسے منجمد سی ہوگئ؛ اور بھائ ،بھابجی کے ساتھ گزرے وقت میں ڈوب گئ۔سکینہ بیگم کے رونے کی آواز سے پورا محلہ اکھٹا ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد وقار صاحب نے حاجرہ اور علی کی موت کی خبر سنائی ؛ سکینہ بیگم تو سکتے میں چلی گئ۔ تدفین کی تیاری شروع ہوگئی ؛ بچے ماں باپ کی میت کو دیکھ کر روئے جارہے تھے ۔”دادی کیا اب ہم مما بابا سے کبھی نہیں مل سکے گے” امبر نے پوچھا۔ سکینہ بیگم بس روئے جارہی تھیں ؛”ہائے!یہ اولاد کا دکھ میرے نصیب میں کیوں تھا؛میں مر کیوں نہیں گئ”۔ حنا امی کو تسلی کیا دیتی ؛ وہ خود اپنے آپ کو سنبھال نہیں پا رہی تھی۔ننھے بچے سہمے ہوئے تھے۔ حنا دونوں بچوں کو گلے لگائے بلک بلک کر رو رہی تھی۔ “امی آپ نے کیوں بھیا کو جانے دیا؟” حنا روتے ہوئے کہہ رہی تھی؛ امی آپ روک لیتی ناں”۔ “میں نے بہت منع کیا ، پر میری ایک نہیں سنی دونوں نے اور لاہور کے لیے روانہ ہوگئے” سکینہ نے روتے ہوئےکہا۔ وقار صاحب بتا رہے تھے ؛ کہ اطلاع کے مطابق گاڑی مکمل ٹوٹ چکی ہے ۔ دھند کے باعث گاڑی ، ٹرالے کے ساتھ ٹکرائ تھی ۔ وقار صاحب نہایت سنجیدہ انداز میں کھڑے ہوئے اور کہنے لگے”آج میرا سب کچھ ختم ہوگیا؛یا اللہ کبھی میرے دشمن کو بھی جوان اولاد کا دکھ نہ دیکھانا” آنکھیں صاف کرتے ہوئے وہ باہر نکل گئے تھے۔ علی انکا اکلوتا بیٹا تھا ۔شاید یہی صبر کی آخری حد تھی۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.