فیچر نگار: ثمن ابرار
فطرت اپنے اصلی رنگوں میں کس قدر حسین لگتی ہے۔ اور انسان کو تب بھرپور نوازتی ہے جب وہ اپنے اصلی رنگوں میں ہوتی ہے۔ مگر ہم انسان فطرت کا میکانزم سمجھنے سے صاف انکاری ہیں۔ اپنے معمولی فائدوں کے لیے صدیوں کا نقصان مول لیتے ہیں۔ جنگل کے جنگل کاٹ پھینکیں گے کہ ہمیں دھن کمانے کے لیے کاروبار کھڑا کرنا ہے، کل کو سانس لینے کے لیے آکسیجن کہاں سے آئی گی یہ نہیں سوچتے۔ پانی لاپرواہی سے ضائع کریں گے یہ سوچے بغیر کہ پانی ہے تو زندگی ہے۔ سیاحتی مقامات پر سخت قوانین نہ ہوں تو آلودگی پھیلا کر غیر ذمہ
داری کا ثبوت دیں گے اور فطرت کے حسن کو برباد کر دیں گے۔ اپنا گھروں اور کارخانوں کا ضائع شدہ مواد بشمول پلاسٹک اشیا کے دریاؤں کی نذرکریں گے جو نہ صرف ہمارے لیے بلکہ آبی حیات کے لیے بھی جان لیوا خطرہ ہے۔
غرض یہ کہ فطرت کا کوئی بھی پہلو انسان کی تباہ کُن سرگرمیوں سے محفوظ نہیں۔ اگر ہم اسی روش پر قائم رہے تو وہ وقت دور نہیں جب ہم سانس لینے کے نام پر فضائی آلودگی پھیپھڑوں میں بھر رہے ہوں گے۔ سورج کی تمازت بے حال کر دے گی تو دور تلک کسی پیڑ کا سایہ میسر نہیں آئے گا۔ کھانے کے نام پر پیٹ میں جراثیم آلود زہریلی خوراک جائے گی۔ ہمارا ماحول بیماریوں کا گڑھ بن جائے گا اور صفحہ ہستی سے ہمارا نام و نشان مٹ جائے گا۔
ہمیں چاہیئے کہ فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بند کریں۔ آئیے متحد ہو کر فطرت کو بچانے اور فطرت کے انتقام سے خود کو بچانےکی کوشش کریں۔ اسی میں ہماری بقا ہے۔
لکھاری کا تعارف
ثمن ابرار کا تعلق مظفرآباد، آزاد کشمیر سے ہے۔ وہ بطور ینگ پارلیمینٹری ایسوسی ایٹ، پاکستانی پارلیمان کو معاونت فراہم کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ پاک-یوایس ایلومنائی نیٹ ورک کی رکن بھی ہیں۔ وہ جامعہ کشمیر میں انگریزی لسانیات میں ایم-فل کی طالبہ رہی ہیں اور جلد ہی اپنی تحقیق کا دفاع کرنے والی ہیں۔ وہ اردو اور انگریزی ادب سے شغف رکھنے کے ساتھ ساتھ حالاتِ حاضرہ، معاشرتی و ماحولیاتی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔