تحریر و تصاویر: شاہین کمال
ہم نے جامعہ کراچی سے 1984 میں کیمیاء میں ماسٹرز کیا۔ پریکٹیکلز کی وجہ سے صبح اٹھ سے چار بجے تک ہم یونیورسٹی کو پیارے رہتے۔
با خدا ان دنوں آرٹس کی طالبات پر اس قدر رشک آتا تھا کہ حد نہیں۔ وہ ایک بجے کے پوائنٹ سے گھر واپس جا رہی ہوتیں اور ہم مزید مشقت سے نبرد آزما ہونے کے لیے کینٹین کا رخ کرتے۔
ہم دونوں (ہم اور میری دوست صوفیہ ) ایک بجے، ایک گھنٹے کی بریک میں اپنے پیٹ میں بھوک کی شدت سے اودھم مچاتے چوہوں کو شانت کرنے کے لیے مرکزی کینٹین کا رخ کرتے۔ مرکزی کینٹین دو حصوں پر مشتمل تھی۔ ایک حصہ لڑکوں کا اور دوسرا حصہ لڑکیوں کا. لڑکیوں کی کینٹین کا ماحول انتہائی بےفکرا اور کھلا ڈلا تھا جیسے اپنے ہی گھر کے لیونگ روم میں کزنز ہو ہڑپ مچا رہی ہوں یا آنگن میں چڑیوں کا چنبہ بے فکری سے دانہ دنکا چگ رہا ہو۔
ہماری لیب دو بجے شروع ہوتی تھی۔ لیب سے پہلے صوفیہ اور ہم کینٹین جاکر کھانا کھاتے ۔ ہم متوسط طبقے کی دھان پان لڑکیاں تھیں سو ہمارا دو پلیٹ سالن اور تین ننھی منّی تنوری روٹیوں میں بخوبی گزارا ہو جاتا تھا۔ زیادہ عیاشی مقصود ہوتی تو کھانے کے بعد ایک سیٹ چائے کا دور بھی چلتا پر ایسا شاذ ہی ہوتا۔ کینٹین کا ماحول بڑا ہی خوشگوار اور گھریلو سا ۔کینٹین سے متصل تنور والے کا ریڈیو فل والیوم میں بج رہا ہوتا اور کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ دو، چار یا چھ کی ٹولیوں میں لڑکیاں میز کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھی ہوتیں۔ کچھ کرسیوں پر ٹانگ چڑھائے اور کچھ لٹکائے خوش گپیوں میں مصروف۔ کہیں راز و نیاز میں سکھی کو حکایتِ دل سنائی جا رہی ہوتی تھی تو کہیں منگیتر سے ملاقات کی تفصیل دوستوں کے گوش گزار کی جا رہی ہوتی ۔ کسی کسی ٹیبل پر اسائنمنٹ کا رولا اور کہیں اساتذہ کی نیکیوں میں اضافہ بھی سنائی دیتا پر آخری دو موضوعات ذرا کم ہی زیربحث رہتے۔
کینٹین کب وہ تو ہائیڈ پارک ہی تھا ، ہر شخص اپنی اپنی کہنے کا شوقین۔ سب سے زیادہ مزہ تو تب آتا جب کینٹین پارلر کا روپ دھار لیتی۔ کوئی آئی بروز بنوا رہی ہے تو کوئی نیا ہیر اسٹائل ٹرائی کر رہی ہے۔کوئی اپنے ہاتھوں اور بازؤوں کو مہندی سے گل رنگ کروا رہی ہے۔کہیں نیل پالش یا لپ اسٹک کا نیا شیڈ بھی آزمایا جا رہا ہوتا.۔ کسی گروپ میں ڈرامے کی حالیہ قسط پر زور و شور سے تبصرہ چل رہا ہوتا۔ کہیں خالدہ ریاست کے بارعب حسن کا دبدبہ لڑکیوں کے دلوں کو خاکستر کررہا ہوتا تو وہیں کئ آصف رضا میر کی سحر طراز آنکھوں کی گھائل بھی منہ بسورے بیٹھی ہوتیں ۔ کبھی کینٹین میں کوئی اخبار جہاں کا تازہ شمارہ پرس سے نکال فیشن کا بخیا ادھیڑ رہی ہوتی تو وہیں کہیں قریب ہی کوئی کزن کی مہندی پر کیا پہنوں؟ جیسے عالمی مسئلے سے دو چار نظر آتی ۔ اکثر کینٹین میں دھوم دھڑکے سے دوستوں کی سالگرہیں بھی منائیں جاتی تھیں اور کبھی کبھی تو مایوں اور رخصتی کے گیت بھی الاپے جارہے ہوتے تھے ۔ کوئی خوش گلو ریڈیو کے ساتھ ساتھ خود بھی گانا شروع ہو جاتی اور یوں سماں بندھ جاتا. غرض کینٹین میں ایک رنگین اور زندگی سے بھرپور فضا ہوتی تھی۔
ہم سائنس والے آرٹس والوں کی طرح فرصت سے ذرا کم ہی نوازے جاتے تھے سو مختصر وقت میں ہم دونوں جلدی جلدی اپنی اپنی کہہ سن کر لائبریری کے تہ خانے میں اتر جاتے اور ظہر کی نماز پڑھ کر واپسی میں شاہی سپاری کا ایک پیکٹ، آدھا آدھا کھا کر خوش و خرم ڈیپارٹمنٹ آکر لیب کو پیارے ہو جاتے۔
اس زمانے میں خوش ہونا کتنا آسان تھا۔بارش ہو گئی خوش، پسند کی کتاب پڑھ لی یا ٹھنڈی سڑک پر ٹہل لیے تو اور زیادہ خوش، اور جناب اگر پروفیسر صاحب کلاس لینے نہیں آ سکے اور کلاس فری ہو گئ تو انتہائی انتہائی خوش۔