عمارہ فہیم

“اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہو؟ آج تو پینٹنگ بھی نہیں کر رہیں۔”

منیبہ نے سدرہ کو اداس دیکھ کر سوال کیا ۔

“پوچھ تو ایسے رہی ہو جیسے جانتی نہیں ہو ۔”

“ارے بھئی! کاٹ کھانے والی کیوں ہورہی ہو ؟ “

” میری دوست کا کس نے مذاق اڑادیا اور کس نے دل دکھایا ہے ذرا بتاؤ ، ابھی ٹھیک کرتی ہوں ۔”

“یار ! کیا بتاؤں ! اتنے پیسے لگا کر کورسز کیے ، اتنی محنت سے ہر کام کیا مگر کوئی پینٹنگ بھی سیل نہیں ہوئی سوائے چند ایک کے ، امی الگ غصہ کرتی رہتی ہیں ، ناراض ہوتی ہیں کہ پیسے برباد کرتی ہو ۔”

اس بار سدرہ کے آنسو بند توڑ کر بالآخر باہر آ ہی گئے اور منیبہ نے اسے کچھ دیر رونے دیا تاکہ اس کے دل کا بوجھ کچھ کم ہو ۔

“اور تو اور مجھے سب کہتے کہ اپنے کام کی اچھی اچھی ویڈیوز بناؤ اور اس میں خوبصورت گانے یا میوزک ایڈ کرو تو دیکھنا لوگ کیسے دیوانے ہوتے ہیں ، اب تم ہی بتاؤ میں یہ سب کیسے لگا سکتی ہوں، بس اب میں یہ سب نہیں کروں گی سب چھوڑ دوں گی  ۔”

سدرہ نے آنکھیں بےبدردی سے رگڑتے ہوئے کہا ۔

“دماغ ٹھیک ہے تمہارا ، اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہیں اتنے اچھے ہنر سے نوازا ہے ، تم اپنے ہاتھوں سے کلام پاک کو لکھتی ہو ، اس سے بڑی خوش نصیبی کیا ہوگی ؟ اپنے ہنر کو دوسروں کے لیے ضائع نہ کرو ، اپنے ہنر کی، اپنی قدر کرو ، خود سے اپنے ہنر سے پیار کرو ، اپنے ہنر کو، اپنے آپ کو سب سے اوپر رکھو دوسروں کو خود پر حاوی نہ ہونے دو ، اللہ نے چاہا تو ایک دن سب تمہارے کام کی قدر کریں گے اور سب سیل ہو جائیں گی ۔”

منیبہ کی باتوں سے سدرہ کو سکون ملا تھا اور وہ خود کو ہلکا محسوس کررہی تھی ۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact