تحریر : عافیہ بزمی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامعہ پنجاب میں 7 تا 9 مارچ کتاب میلے کا اہتمام کیا گیا ۔ یہ کتب بینی کی ایک سسکتی اور مشکل سے سانس لیتی اس روایت کو بچانے کی ایک کوشش تھی جس سے ہماری نوجوان نسل دور ہو رہی تھی ۔
ہمیں بچپن میں ہی بتا دیا جاتا تھا کہ انسان کی سب سے بہترین دوست کتاب ہے ۔
أنکھ کھولتے ہی گھر کا ماحول ادبی ملا ۔ گھر میں ان گنت کتابیں اور رسالے دیکھے جن میں ہر گذرتے دن میں اضافہ ہوتا تھا ۔ بے شمار رسائل اور جریدے اعزازی طور پر آیا کرتے تھے ، تو ہم نے بھی اپنے بزرگوں کی کہی یہ بات پلو سےباندھ لی کہ کتاب سے اچھا دوست کوئی نہیں اور کسی فرمانبردار بچے کی طرح کتاب سے دوستی کر لی اور سچے دل سے یہ دوستی خوب نبھائی ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کتب بینی نے ہماری زندگیوں پر بڑے مثبت اثرات چھوڑے ۔ ہماری سوچ بھی وسیع ہوئی اور کردار بھی مظبوط ہوا اور ہم الم غلم سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بجائے اچھی کتابوں کے مطالعے میں مصروف رہے ۔
اپنے بعد أنے والی نسل کو رفتہ رفتہ کتاب سے دور ہوتے دیکھا تو دل خون کے أنسو روتا رہا ۔ نئی نسل نے جدید رویے اپناۓ تو کتاب کی بجاۓ ان کے ہاتھ میں موبائل فون اور لیپ ٹاپ أ گۓ ۔ جدید رویے اپنانا بری بات نہیں لیکن اپنی روایتوں سے چشم پوشی یقینا دکھ کی بات ہے ۔
اگرچہ فروغ کتاب اور نوجوان نسل کو کتاب کی اہمیت بتانے کے لئے کوششیں تو مسلسل جاری رہیں لیکن یہ کوششیں بڑی محدود سی رہیں ۔
لیکن پنجاب یونیوسٹی نے کتاب میلے کا انعقاد کروا کر ایک ڈوبتی ہوئی روایت کو زندہ کر دیا ہے اور کتاب دوستوں کو ایک چھت تلے اکٹھا کر کے لاکھوں کی تعداد ۔میں کتابیں دیکھنے اور پچاس فیصد قیمت کم کر کے خریدنے کی سہولت دے کر ایک درخشاں مثال قائم کی ہے ۔
یہ مدتوں بعد شہر لاہور میں ہونے والی سرگرمیوں میں ، ایک کامیاب اور وسیع پیمانے پر منعقد ہونے والی سرگرمی تھی جس میں ملک بھر سے کتاب کے چاہنے والوں نے شرکت کر کےنئی روایت کی بنیاد رکھ دی ہے ۔
اس کتاب میلے میں پریس فار پیس کے سٹال پر میرے والد محترم پروفیسر خالد بزمی کی تین وہ کتابیں شامل تھیں جو ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد میں نے شائع کروائی ہیں ۔ ان میں سے دو کتابیں حمدیہ مجموعہ ( جبین نیاز ) اور غزلیات کا مجموعہ (آغوش صدف ) پریس فار پیس ہی کی شائع کردہ ہیں جبکہ ایک نعتیہ مجموعہ ( سبز گنبد دیکھکر ) فیروز سنز کا شائع کردہ ہے ۔
خوشی اس بات کی ہوئی کہ اس کتاب میلے میں ہر عمر کے لوگ مختلف سٹالز پر کتابوں کو دلچسپی سے دیکھتے اور اپنی پسند کی کتاب خریدتے دکھائی دئے۔ بچے تو بچے نوجوانوں اور بزرگوں نے تین روزہ میلے میں بھر پور شرکت کی اور یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی کہ خواتین کی کثیر تعداد نے بھی میلے میں شرکت کر کے اس کتاب میلے میں رنگ بھر دئے۔
لوگوں نے اسلامی ، اخلاقی ، اصلاحی اور معلوماتی کتب میں دلچسپی لیتے ہوۓ اپنی پسند کی کتب خریدیں۔
یہ تین روزہ کتاب میلہ کس حد تک کامیاب رہا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں پر ان تین دنوں میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد کتابیں فروخت ہوئیں ۔ یہ ایونٹ جہاں کتاب سے دوستی رکھنے والوں کے لۓ بہت کار أمد ثابت ہوا وہیں یہ کتاب کی اشاعت کرنے والے اداروں کے لۓ امید کی وہ کرن بن کر نمودار ہوا کہ ہاں ابھی بھی یہ ہزاروں لوگوں کی أمدنی کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔
پریس فار پیس پبلیکیشن نے یہاں بھی اپنی شاندار روایات کو قائم رکھتے ہوۓ خوب دل سے شرکت کی ۔
پروفیسر فلک ناز نور کی سربراہی میں ایک فعال ٹیم نے نہایت منظم طریقے سے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہوۓ اس میلے میں اپنا کردار نبھایا ۔
پریس فار پیس کے بینر تلے شائع ہونے والے کتب کے بیشتر مصنفین بھی یہاں دیکھنے کو ملے جو کتاب خریدنے والے قدر دانوں کی فرمائش پر اپنے سائن کردہ کتاب کو خوشی سے خریدار کے ہاتھ میں تھماتے نظر آۓ۔.
پنجاب یونیورسٹی نے ایسے موقعہ پر اس میلے کا انعقاد کروا کر کتاب سے دور ہوتی نسل کو ایک بار پھر سے کتاب بینی کی طرف راغب کرنے کی بھر پور اور کامیاب کوشش کی ہے ۔
نوجوان نسل کی زندگیوں میں کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی بے حد ضرورت تھی ۔
میرے خیال میں نوجوانوں میں مطالعے کا شوق اور اہمیت پیدا کرنے کے لئےایسے ایونٹس ہوتے رہنے چائیے۔
پنجاب یونیورسٹی نے اس جانب قدم بڑھا دیا ہے ۔ اب ہم سب کو بھی اس سلسلے میں اپنی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوۓ کتاب سے دور ہوتی نسل کو کتاب سے وہ دوستی کرنے پر مائل کرنا ہے جس دوستی پر میں ، آپ اور ہم جیسے بہت سے کتاب دوست آج بھی فخر محسوس کرتے ہیں
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.