از قلم : عصمت اسامہ
دھیرے دھیرے سے پلکیں کھل رہی تھیں ،ہسپتال کا سفید کمرہ ،سفید فرش اور سفید چادر دکھائی دینے کے بعد کمرے میں اپنی ماں کو دیکھ کے تابندہ کو یقین آگیا کہ وہ زندہ ہے۔ امی جان نے جیسے ہی اسے آنکھیں کھولتے دیکھا وہ اس کے بیڈ کے قریب آگئیں۔
” شکر ہے بیٹا تمہیں ہوش آیا ” امی جان نے متفکر چہرے سے جھک کے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔
” تمہارا ماتھا تو برف کی مانند ٹھنڈا ہو رہا ہے ،میں نرس کو بلاتی ہوں” یہ کہتے ہوۓ امی کمرے سے نکل گئیں ۔تھوڑی دیر بعد امی کے ساتھ ایک نرس اپنے بازوؤں کے حلقے میں ایک ننھا منا وجود تھامے داخل ہوئی ۔
” مبارک ہو ،بیٹا ہوا ہے ” اس نے بچے کو تابندہ کے ساتھ لٹادیا ۔
” پہلے کتنے بچے ہیں تمہارے ؟” اس نے پوچھا۔
” دو بیٹیاں ہیں ” تابندہ بمشکل بولی
” چلو ،اب فیملی مکمل ہوگئ ” نرس اسے کہتے ہوئےکمرے سے باہر نکل گئ اور تابندہ اس کے الفاظ پر غور کرتی رہ گئی۔
سوچتے سوچتے ذہن میں غبار سا چھانے لگا تو وہ غنودگی میں چلی گئی ۔ ساتھ والے روم سے مبارک سلامت کی صدائیں ابھر رہی تھیں۔ امی جان تھک کے صوفے پر سو چکی تھیں۔ وہ غور سے انھیں دیکھنے لگی . ماں آخر کس مٹی سے بنی ہوتی ہے ،ہروقت اولاد کے ساتھ ڈیوٹی پر حاضر ہوتی ہے ۔ ننھے سے بے بس وجود کو پالتی ہے ،پروان چڑھاتی ہے ،اپنے خون سے سینچتی ہے، ہڈیاں گھلاتی ہے پھر کہیں جاکے اولاد جوان ہوتی ہے مگر ماں کی ڈیوٹیاں مرتے دم تک جاری رہتی ہیں۔ ۔ماں ایسا سپاہی ہے جو اپنا محاذ کسی وقت بھی نہیں چھوڑتا
کل کی ساری بھاگ دوڑ اسے یاد آنے لگی ، کبھی الٹراساؤنڈ ،کبھی سی ٹی جی، کبھی ڈاکٹرز کے پیچھے امی جان ہاسپٹل کے کاریڈورز میں بھاگتی رہی تھیں، کبھی خون کی بوتلوں کا انتظام کرنے کے لئے بھائی جان کو فون کر رہی تھیں تو کبھی آیات اور دعائیں پڑھ کے اس پر دم کررہی تھیں ۔جب ڈاکٹرز نے تابندہ کو بتایا کہ بریچ بے بی کی وجہ سے سی سیکشن ہی کرنا پڑے گا تو ضبط کے بند ٹوٹ گئے ،اس وقت امی جان نے ہی تابندہ کو چپ کروایا تھا اور اپنی میٹھی باتوں سے ڈھارس بندھائی تھی۔
اتنے میں صبیح روم میں داخل ہوا ،اس کا خوب صورت شوہر ،جسے آج بھی لوگ اس کی وجاہت کے سبب ہیرو کہہ کے پکارتے تھے۔ تابندہ نے ایک نظر شیمپو اور جیل سے سنوارے بالوں کی چمک پر ڈالی اور پھر چمچماتے شوز پر ۔ دل ہی دل میں الحمدللہ کہہ کے وہ صبیح کی طرف متوجہ ہوگئ۔ ہاتھ میں تھامے شاپر سائیڈ ٹیبل پر رکھ کے اس نے بچے کو اٹھا لیا۔
” بالکل تم پہ گیا ہے ” اس نے مسکرا کے کہا تو تابندہ کا چہرہ بھی کھل اٹھا۔
” ان شاپرز میں کیا ہے ؟ ” تابندہ نے پوچھا ۔
” نازلی نے کھانا بھیجا ہے تمہاری سہیلی نے ” ، بہت مزے کا ہے ، مجھ سے صبر نہیں ہوا تو میں نے وہیں کھالیا ” صبیح نے بتایا۔
” کیا نازلی نے میرے کچن میں بنایا ہے ؟ ” تابندہ نے بے ساختہ پوچھا ۔
” ہاں ،وہ تمہارا حال پوچھنے آئی تھی ،تم ہاسپٹل آچکی تھیں ،گھر میں مہمان بھی تھے ،باجی فیروزہ بچوں کے ساتھ آئی ہیں نا ،تو میں نے نازلی سے کہہ دیا کہ کھانا بنادے ” صبیح نے وضاحت دی۔
” تو آپ فیروزہ باجی کو کہتے نا ،وہ بنادیتیں” تابندہ نے کہا ۔
” ارے بھئی وہ بھائی کے گھر آرام کرنے آتی ہیں ” صبیح کے چہرے پر کچھ ناگوار اثرات دیکھ کر تابندہ خاموش ہوگئی۔ صبیح نے بچے کو بوسہ دیا اور چلا گیا۔
تابندہ تو آپریشن کی وجہ سے ابھی کچھ کھانے کی حالت میں نہیں تھی، اس نے امی جان کو بلا کے کھانا کھانے کا کہا اور اپنے بے چین دل کو سنبھالنے کے لئے درود شریف پڑھنے لگی۔
رات گہری ہورہی تھی ۔
بچہ کسمسانے لگا تو وہ اسے تھکیاں دینے لگی حتی ‘ کہ وہ دوبارہ سوگیا۔
وہ کبھی اس کے ننھے منے ہاتھ تھام کے دیکھتی ،کبھی بھولی سی صورت ۔۔۔۔یہ اولادنرینہ اسے بڑی دعاؤں اور عبادتوں سے ملی تھی۔ اس کی جیٹھانی نے جب اسے بیٹیوں کی ماں ہونے کا طعنہ دیا تھا اور اپنے چار بیٹوں پر فخر کا اظہار کیا تھا ،تب سے تابندہ نے اللہ سے لو لگالی تھی ۔ہر نماز کے بعد ،راتوں کو اٹھ اٹھ کے مصلے پر التجائیں کی تھیں کہ مالک مجھے اولاد_ نرینہ سے نواز دے، سچے دل سے نکلی ہوئی دعا تو سیدھی عرش پہ جاتی ہے ، بندے کو مانگنے کا سلیقہ آنا چاہئیے بس۔۔۔ مالک نے اس کی دعائیں قبول کرلیں ، آخر اب اس کی گود میں بیٹا آگیا تھا ۔ روم ڈور پھر کھلا اور نرس آکے اسے ڈرپ لگانے لگی۔،ذرا سا بیڈ ہلا تو تابندہ کی چیخ نکل گئ۔ پیٹ کے ٹانکے احتجاج کر رہے تھے ۔گلوکوز رگ وپے میں سرایت کر رہا تھا اور تابندہ بھرغنودگی میں چلی گئی ۔رات کے بارہ بج رہے تھے ، ہاسپٹل میں خاموشی کا راج تھا کہ اچانک کچھ لوگوں کے قدموں اور باتوں کی آوازوں سے آنکھ کھل گئ۔ اس کی نند فیروزہ اور صبیح اس کے پاس کھڑے تھے۔
” آپ اس وقت ؟ ” تابندہ سے پوچھے بنا رہا نہ گیا۔
” ہاں ،دراصل ہم نے کل شادی پر جانا ہے تو سوچا کہ ابھی بھتیجے کو دیکھ لوں ماشاءاللہ” نند نے اطمینان سے جواب دیا۔
” اور سنو ،تمہارا وہ گولڈ کا سیٹ کدھر رکھا ہے،مجھے دودن کے لئے چاہئیے ” فیروزہ نے کہا۔
تابندہ نے شوہر کی دیکھا تو وہ سیٹ دینے کا اشارہ کر رہے تھے۔چنانچہ تابندہ نے بھی بادل نخواستہ سیٹ دینے کی حامی بھرلی۔
زیور عورت کا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے مگر تابندہ وہ روایتی مشرقی عورت تھی جو شوہر کی رضا کو ہر چیز پر مقدم رکھتی تھی ،سو اس نے نند کو بتادیا کہ اس کا سیٹ الماری کے لاکر میں ہے ۔باجی فیروزہ کو اتنی خوشی ہوئی کہ اٹھ کھڑی ہوئیں ۔انھیں جانے کو تیار دیکھ کے صبیح بھی ساتھ چل پڑا۔ انھیں یوں جاتا دیکھ کے تابندہ حیران رہ گئ ! اب نیند خاک آتی ،ساری رات وسوسے ہی آتے رہے ۔رات آنکھوں میں کاٹی۔ فجر کے بعد بڑے بھائی اور بھابھی ملاقات کرنے آۓ ،وہ اپنے ساتھ بچے کے لئے تحفے اور مٹھائی بھی لائےتھے ۔ بھابھی نے اسے سہارا دے کے بٹھایا اور تھرماس سے سوپ مگ میں ڈال کے دیا کہ اسے پیو تاکہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکو۔
” بھابھی ،ایک بات کہوں ، مجھے ڈسچارج کروادیں ،میں نے گھر جانا ہے ” تابندہ نے لجاجت سے کہا۔
” اتنی جلدی کس بات کی ہے ؟ ایک دن مزید یہاں گذار لو ، آخر آپریشن ہوا ہے ، انفیکشن کا خطرہ ہوتا ہے ” بھائی ناصحانہ انداز سے سمجھانے لگے۔
” میری سب میڈیسن لکھوالیں ،مجھے گھر لے چلیں پلیز ” تابندہ کو پتہ نہیں کیا ہوگیا تھا کہ بھائی اور بھابھی کو مانتے ہی بنی اور تابندہ اپنا منا گود میں لے کے وہیل چیئر پر ہاسپٹل کے گیٹ تک لے جائی گئ جہاں بھائی جان کی گاڑی کھڑی تھی ،بھائی جان نے ہاسپٹل کے بل ادا کئے ،اور پھر تابندہ کو وہیل چئیر سے گاڑی میں منتقل کیا تو وہ بے اختیار کراہنے لگی۔
” لڑکی تم نے جلد بازی کی ہے ،آج کے دن بیڈ ریسٹ ضروری تھا” بھابھی نے اس کی کراہیں سن کے کہا اور پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگیں ۔
“بھائی جان ،مجھے اپنے گھر ڈراپ کیجئیے گا ،بچیوں کی فکر ہورہی ہے ” تابندہ نے کہا تو انھوں نے پلٹ کے ایسے دیکھا جیسے کسی عجوبے کو دیکھ رہے ہوں۔
” کیا ہوگیا ہے تابندہ ، کچھ دن میکے میں آرام ضروری ہے ،وہاں کون تمہارا خیال رکھے گا ،بچے کون سنبھالے گا” امی جان فکر مندی سے کہنے لگیں۔
” امی ،میں آجاؤں گی آپ کی طرف مگر ابھی مجھے اپنے گھر جانا ہے ، بچیوں کا سامان بھی پیک کرلوں پھربھائی کو کال کردوں گی ” تابندہ نے رسانیت سے کہا ۔
صبح کے سات بجے تھے جب گیٹ بیل سن کے فصیح نے گیٹ کھولا تو سامنے تابندہ کے ساتھ اس کے بھائی ،بھابھی اور والدہ کو دیکھ کے حیران رہ گیا جو آپریشن کے ٹانکوں سے اٹھنے والی درد کی ٹیسیں سہتی قدم قدم چل رہی تھی ،ایک ہاتھ بھائی نے تھام رکھا تھا ،بھابھی کمر سے سہارا دئیے ہوئے تھیں۔
” تم ،اس طرح ؟ مجھے کال کردیتیں ، آج ڈاکٹر نے کیسے ڈسچارج کردیا ،چھٹی تو کل ملنا تھی ” صبیح ہڑبڑا کے سوال کئے جارہا تھا مگر تابندہ بغیر کچھ بولے اپنے بیڈروم کی طرف بڑھتی جارہی تھی۔
” بڑی اچھی خوشبو آرہی ہے چائے کی ، کون بنارہا ہے ؟ ” بھابھی نے کہا تو کچن سے یکا یک نازلی نمودار ہوگئ ،ہاتھ میں دو بڑے مگ تھے جو اتنے سارے لوگوں کو سامنے دیکھ کے ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچے ۔۔۔۔۔
” وہ ۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔میں نے سوچا کہ تم ہاسپٹل ہوتو بچیوں کا ناشتہ بنادوں ، آخر انھوں نے اسکول جانا ہے ۔۔۔۔۔” نازلی نے تابندہ کی گہری آنکھوں سے نظر چراتے ہوۓ کہا اور مگ ٹیبل پر رکھ کے گیٹ سے باہر نکل گئ۔
“یہ بس ابھی آئی تھی ،کہہ رہی تھی کہ تابندہ کے لئے کھانا بنادیتی ہوں تاکہ اسے وقت پر مل جاۓ ” فصیح نے وضاحت دی ۔
” امی ، مجھے یہ وقت اپنے گھر ہی گذارنا ہے ،میکے میں نہیں ،آپ کام والی رشیدہ خالہ کو بھیج دیجئیے گا ” تابندہ نے اپنا فیصلہ سنادیا۔
ماما کی آواز سن کے بیڈ پر سوئی ہوئی بچیاں اٹھ بیٹھیں ،ایک نے تابندہ کے گلے میں بازوؤں کا ہار ڈال رکھا تھا ،دوسری چھوٹے بھائی کو دیکھ رہی تھی۔
~ بہت سے درد تھے پر خود کو جوڑ کر رکھا
وہ میں کہ آتش و آہن میں جس نے سر رکھا
ملے ہوۓ تھے مجھے چاہتوں کے در کتنے
مگر میں وہ کہ ہواؤں پہ مستقر رکھا
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.