اقرا یونس 

سیلن زدہ کال کوٹھری کے ایک کونے میں دبکا میلے کپڑوں والا قیدی اندھیرے کی وجہ سے اسے ایک جلتی شمع تھما دی گئی اس نے اسے اسی کے موم  سے ٹوٹے فرش پہ گاڑ دیا. فرش پہ ٹکی شمع کی لو مدھم سی جل رہی تھی جب قیدی نے اپنا چہرہ اس کے قریب کیا. اس کی روشنی سے وہ چہرہ زرد روشن سا ہو گیا. اور اس کا سایہ دیوار پہ لہرانے لگا جو پوری کوٹھری کو خوفناک بنا رہا تھا. 

شمع کو خوفزدہ دیکھ کر قیدی ایک دم ہنس پڑا اور بولا:

“روشنی ہو گی تو سایہ تو بنے گا اور تم سائے سے ہی ڈر گئی. ہاہاہا…. “

شمع دھیرے سے مسکرائی اور کہنے لگی

 “میں سائے سے نہیں، تمہارے جلنے سے ڈری ہوں.” 

قیدی نے حیرت سے پوچھا

“میرے جلنے سے کیسا ڈر؟”

شمع نے گہرا سانس لیا اور کہا:

“آگ جب حد میں ہو تو روشنی دیتی ہے امید کی، خوشی کی، اندھیروں کو مٹانے کی۔۔۔۔یہ موم تو حد میں رکھنے کی کوشش میں تپش برداشت کر رہی ہے یہ نہ ہو تو دھاگے کی کیا بساط۔۔۔۔۔۔اور تمہارے گرد موم کا حصار نہیں ایسے میں نہ صرف مجھے۔۔۔۔۔ تمہیں بھی ڈرنا چاہیے جلنے سے.” 

قیدی کو اس کی منطق سمجھ نہ آئی تو بولا:

“یہ تو موم کی بد قسمتی کہ وہ بلا وجہ تپش برداشت کرتی ہے. “

شمع کو لگا کوٹھری میں قیدی نہیں بلکہ اس کی سوچ قید ہے. اس نے اک کرن اس کے سامنے رکھی اور کہا:

“بلاوجہ کیوں۔۔۔۔۔۔پتھر میں دھاگا نہیں پرویا جاتا دھاگے کو پرونے کے لیے موم ہونا پڑتا ہے اور یہ بھی خوش قسمتی ہوتی ہے کہ آپ کو وہ کام عطا ہو جو صرف آپ کا ہی ہو کوئی اور نہ کر سکے. پہلے دھاگے کو موم کے قلعے میں بند کرو پھر جلنے کی بات کرنا یونہی جلو گے تو آسیب بن جاو گے اور یہ کوٹھری آسیب زدہ. 

“یہ۔۔۔۔ یہ تو پہلے ہی آسیب زدہ ہے۔” 

قیدی کی آواز میں اب کے مایوسی کا عکس تھا. اس کی بات سن کے شمع دھیرے سے مسکرائی۔اس کی مسکراہٹ میں پگھلے موم کے چند قطرے تھے جیسے کوئی ہنستے ہنستے رونے لگے یا روتے روتے مسکرا دے. بھیگی آواز میں اس نے پوچھا:

“آسیب زدہ جگہ دیکھی ہے کبھی؟” 

” ہاں ایک بار بچپن میں۔۔۔جو کوئی بھی وہاں جاتا الٹے پیر واپس بھاگتا…لیکن اس کوٹھری میں تو ایک مکین ہے پھر یہ کیسے آسیب زدہ ہو سکتی ہے؟

آسیب مجھ سے مانوس ہو گئے ہوں گے اب تک ۔” 

شمع کا قہقہہ بے ساختہ تھا. 

“تم بھی کتنے بھولے ہو. 

آسیب کبھی مانوس نہیں ہوتے نہ ہونے دیتے ہیں ہاں کبھی کبھار کوئی معاہدہ ہو جاتا ہے.” 

“کیسا معاہدہ ؟” قیدی کی آواز میں تجسس تھا. 

“مصالحت کا معاہدہ۔۔۔۔۔” شمع کی مدھم سی آواز ابھری. 

“کیا مصالحت اتنی آسان ہوتی ہے؟” قیدی کی نظروں میں کئی مناظر گھوم گئے جو مصالحت نہ ہونے کی وجہ سے صدیوں پہ محیط ہوئے.

اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ کر شمع بولی: 

“کس نے کہا آسان ہوتی ہے؟ مصالحت دو صورتوں میں اپنائی جاتی ہے ۔۔۔۔۔یا تو کوئی ضرورت مند ہو یا اگر کوئی حاوی ہو جائے. “

قیدی بے صبری سے بولا:

“ان دو کے علاوہ ایک تیسرا راستہ بھی تو ہے؟” 

وہ ایک دم ہنسی. 

وہ… وہ راہ۔۔۔۔۔اس کا بس نام بدلا گیا ہے ضرورت کا نام محبت رکھ لینے سے راہ نہیں بدل جاتا. جانتے ہو آسیب زدہ جگہ پہ رہنے کے لیے کیا ضروری ہوتا ہے؟” 

“کیا….؟” قیدی کو لگا وہ نئی دنیا کو کھوج رہا ہے. 

“اپنی حقیقت سے آگہی اور یقین کیوں کہ آسیب بو سونگھ لیتا ہے.”

“کیسی بو…..؟” اس نے ناک کو کھینچا جیسے بو محسوس کرنے کی کوشش کر رہا ہو جب شمع کی آواز سے چونکا. 

“فریب کی بو…….. ملاوٹ کی بو…..بے خوفی میں شامل خوف کی بو….یقین کے اندر چھپی بے یقینی کی بو” 

وہ اس کی بات پہ مسکرا دیا. 

“آگہی کا عذاب جانتی ہو؟”

کچھ دیر وہ یونہی اسے دیکھتی رہی پھر بولی:

“عذاب تو دونوں صورتوں میں جھیلنا ہی پڑتا ہے وہ آسیب کا ہو یا آگہی کا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اپنا آپ بوجھ تلے نہ دب جائے. آگہی اور شعور سولی تک تو لے جاتے ہیں لیکن بزدل نہیں رہنے دیتے.”

قیدی کو اس کی بات پہ غصہ آیا اسے لگا شمع نے اس کے منہ پہ تمانچہ مارا ہے. وہ غصے سے بولا:

“اور اس شعور کے ہاتھوں جو دل بیلنے میں آ جاتا ہے؟”

شمع نے اس کے کپکپاتے ہونٹ دیکھے تو پھڑپھڑاتی لو کے ساتھ لرزتی آواز میں بولی:

” سوئے ہوئے دل سے کہیں بہتر ہے کہ محسوس کیا جائے.” 

قیدی کا انداز جارحانہ تھا جب اس نے پوچھا:

“کیا محسوس کیا جائے؟” 

شمع جانتی تھی نئے افکار شعلے کی طرح ہوتے ہیں جن کو اگر تسلیم نہ کیا جائے تو سننے والے کا بھڑک اٹھنا عام بات ہے. 

“درد۔۔۔۔۔دکھ….. کبھی دکھ سے لطف اندوز ہوئے ہو؟” 

قیدی 

“دکھ سے کون لطف اندوز ہوتا ہے یہ تو اذیت پسندی کی نشانی ہے.” 

وہ شمع کے پاگل پن پہ تلملایا. 

“شاید ہو۔۔۔۔۔لیکن یہ راضی برضا ہونے کی بھی نشانی ہے. ایسی نشانی جو دکھ کو بھی حیرت میں ڈال دے.”

اس کی بات سن کر وہ بے ساختہ بولا:

“ہاں تمہیں حیرت بھاتی ہے اور حیران کرنا بھی اسی لیے تم جلتے ہوئے بھی اتنی پرسکون ہو.”

“یہ سکون یونہی نہیں حاصل ہوتا.”

“پھر کیسے ہوتا ہے؟”

“تسلیم کر لینے سے تولنا چھوڑ دینے سے چاہے وہ عمل ہو یا عبادت جب تک گنتی کے گھن چکر میں گھومو گے سکون نہ پاؤ گے. عبادت میں بھی نہیں. پتھروں کی بوری ایک ننھے سے ہیرے کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتی.”

اس کی بات سن کے قیدی کسی لمبی سوچ میں ڈوب گیا کچھ وقت چپکے سے یونہی گزر گیا تو وہ بولا:

“تم ایسے ہی جلتی رہی تو فنا ہو جاؤ گی.”

“میرا تو مقدر ہی جلنا ہے لیکن میرے جلنے سے اندھیرے ڈر کے بھاگنے لگیں تو اس جلنے میں بھی مزہ ہے.

قیدی کو اب کوٹھری مزید تنگ لگنے لگی. برسوں بعد کوئی بات کرنے کو میسر تھا لیکن اس کی سوچ پر تو جیسے کائی جم چکی تھی. جس کا احساس اب اسے ہوا تو گھٹن ہونے لگی. اسی کو محسوس کرتے ہوئے اس نے سوال کیا:

کیا تمہیں اس تاریک کوٹھری میں گھٹن نہیں ہو رہی؟” 

“گھٹن۔۔۔۔۔۔یہ جو گھٹن ہے یہ کوٹھری میں نہیں کہیں اور ہوتی ہے. “

“کہیں اور۔۔۔۔۔۔۔؟” اس نے زرد لو پہ نظریں ٹکا دیں. اسے لگا شمع صرف باہر کے مناظر ہی نہیں اس کے اندر کے مناظر بھی روشن کر رہی ہے. 

“ہاں کہیں اور جو کھلے آسمان کی وسعتوں کو بھی تنگ کر دے. جانتے ہو تنگی کیا ہے؟”

شمع کے سوالات نے اب تک گفتگو کو جوڑ رکھا تھا. 

“کیا؟” 

“تنگی ہے آسمان کا پنجرے میں قید ہو جانا”

قیدی نے اس کی بات پہ قہقہہ لگایا. 

“تم بھی کمال کرتی ہو آسمان کیسے پنجرے میں قید ہو سکتا ہے؟”

“ہو جاتا ہے۔۔۔۔جیسے سمندر قطرے میں سمٹ آتا ہے. “

“اللہ۔۔۔۔۔۔۔اب کیا ہر بات کی وضاحت مانگوں اور پھر وضاحت کی بھی وضاحت.” 

اس کے انداز سے یوں لگا کہ وہ شمع سے مانوس ہو گیا ہو جیسے اب اسے گفتگو میں لطف محسوس ہونے لگا. 

شمع کی کھلکھلاہٹ پوری کوٹھری کی دیواروں سے ٹکرائی تو دیواریں حیرت سے تکنے لگیں. 

“آسمان سوچ ہے اور سمندر دل. سوچ جب ایک نقطے پہ اٹک جائے تو قید ہو جاتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے آسمان کی وسعتیں کسی ننھے سوراخ کے بس کی بات نہیں. 

صحرا کے لوگ سمندر کا تصور کیسے کریں گے جب کہ ان کے لیے سمندر تو بارش کا قطرہ ہے.”

“لیکن یہ کال کوٹھری…۔۔یہ بھی تو وہی سوراخ ہے یا پھر قطرہ.” وہ اب بھی اپنے موقف پہ ڈٹا تھا. 

“جانتے ہو تخیل کی وسعت آسمانوں سے اونچی ہے اور سمندر سے وسیع. ” اس نے اسے قائل کرنے کو دلیل دی. 

“تاریک کوٹھری میں تخیل کا پنچھی مر جاتا ہے. “

“نہیں مرتا! کیا تم نے اس بے گناہ قیدی کی کہانی نہیں سنی جسے تاریک کوٹھری میں نور عطا ہوا.” 

“لیکن یہ بہت تنگ ہے اور تاریک… ” قیدی نے شکستہ لہجے میں کہا. 

“کوٹھری جتنی چھوٹی اور تاریک ہو گی روشنی اتنی ہی جان دار ہو گی.”

“مجھے کچھ باہر کے حالات بتاؤ۔۔۔۔” قیدی نے موضوع بدلنے کو سوال کیا. 

“باہر کے حالات بھی اندر جیسے ہیں.” 

“اندر جیسے۔۔۔۔۔۔۔۔کیسے ہو سکتے ہیں؟ سورج کہاں گیا؟”

قیدی کو ساری امید سورج سے تھی. 

“سورج۔۔۔۔۔۔سورج وہیں پہ ہے لیکن…. “

“لیکن کیا؟” اسے اب ادھورے جملے سے الجھن ہونے لگی تو فوراً بولا. 

“آنکھیں کھو گئیں۔۔۔۔۔” شمع نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا. 

“کہاں گئیں آنکھیں؟ کیا سب ہی۔۔۔۔۔۔۔”

“نوچ ڈالیں۔۔۔۔۔۔”

“نوچ ڈالیں۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔کس نے اور کیوں؟” قیدی ایک دم چیخ پڑا. 

“کس نے کا جواب کوئی نہیں دے پایا ہر سمت اٹھی انگلیوں سے یہ اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے. ہر طرف آہ و پکار کے ساتھ انگلیاں اٹھی ہیں۔۔۔۔۔۔اور کیوں کا جواب اس سے بھی مشکل ہے مشکل ترین۔۔۔۔۔۔”

قیدی سخت جھنجھلایا. 

“تم مجھے سیدھی بات کیوں نہیں بتاتی!” 

“سیدھی بات کرنے سے لوگ ڈرتے ہیں۔۔۔” شمع کی آواز میں ٹوٹے کانچ کی کرچیاں سی تھیں. 

“تو تم بھی ڈرنے لگی. ” قیدی کا انداز استہزایہ تھا. 

“ہاہا…. ہاں تو نہیں ڈرنا چاہیے؟ ابھی تمہارے مزاج کے خلاف ایک لفظ کہا تو اک ذرا سی پھونک سے تم مجھے بجھا دو گے. “

“بجھنے سے ڈرتی ہو؟”

“ہاں! جل کر بجھنے سے کہ جب ابھی جلنے کی گنجائش باقی ہو.” 

“کوئی بات جو تم پوری بتا دو عجیب پہیلیاں بجھواتی ہو.” 

“اب پہیلیوں میں سہولت نظر آتی ہے سیدھی بات کے ہزار رنگ بنتے ہیں اور پہیلی کا بس ایک مطلب “تجسس”

“زیادہ تجسس بھی اکتاہٹ کا شکار کر دیتا ہے….”

“تجسس کا خاتمہ اور اکتاہٹ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جن کی ایک ہی قیمت ہوتی ہے. دونوں کا نتیجہ خاموشی ہے۔۔۔۔۔لمبی خاموشی۔۔۔۔۔۔” 

“تو اس کا مطلب میری خاموشی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا؟” 

“پڑے گا فرق تو بہت پڑے گا لیکن جب فیصلہ اٹل ہو اور گنجائش باقی نہ ہو تو دکھ کی آگ ہی شامل کر لینا بہتر ہو گا. دکھ کی آگ سورج کی تپش جیسی ہوتی ہے جو جلا کر راکھ نہیں کرتی گندم کی طرح سونا کر دیتی ہے.” 

“دکھ کی آگ جانتی بھی ہو کیا ہوتی ہے؟”

“میں نہیں جانوں گی تو کون جانے گا؟ جلنے والوں سے ہی پوچھ رہے ہو جلنا کسے کہتے ہیں. “

خاموشی کا ایک لمبا وقفہ آیا دونوں اپنے اپنے خیالات میں کھو گئے. جب قیدی نے گلا کھنگارا. شمع نے ایک دم چونک کے اسے دیکھا اب دیوار کا سایہ سمٹ چکا تھا. 

“کیا سوچ رہی ہو؟”

“سوچ رہی ہوں خدا کرے میرے جل جانے تک صبح نمودار ہو جائے.”

“کیوں تمہیں صبح کی کیا فکر؟”

اب کے وہ ہنسی تو لے کچھ اور تھی ……. اداس سی ہنسی.

“مجھے صبح کی فکر کب ہے……. مجھے تو اس کوٹھری کی فکر ہے جو میرے بجھ جانے سے زیادہ تاریک اور گھٹن زدہ ہو جائے گی.”

“تم بھی عجیب ہو…….. بہت عجیب.”

اس نے چپکے سے اس کی آنکھ کی نمی دیکھی اور بولی: 

“صبح کے نمودار ہونے سے بہت سی مصروفیات ہوں گی جو تمہارا دھیان بٹانے کو کافی ہوں گی.”

“دھیان……. ہاہاہا…. ہاں دھیان بٹ جانے سے یادیں بٹ جاتی ہیں لیکن درد نہیں بٹتا تم نے کبھی دیکھا ہے درد سے کراہتے کسی مریض کے گرد  آوازوں کا شور کر دیا جائے…… یا حسین مناظر دکھانے لگیں……. وہ درد ان مناظر کو بھی سیاہ کر دے گا لطف کھینچ لے گا ان کا.”

شمع نے اداسی سے اسے دیکھا 

سورج کی پہلی کرن نمودار ہوتے ہی اس کی لو ایک دم پھڑپھڑائی یوں جیسے زبردستی مسکرانے کی کوشش میں پورا زور لگا دیا جائے.

قیدی نے اسے بجھتے دیکھا تو اپنے کونے سے اٹھ کر اس کی طرف دوڑا مگر اس کی کوٹھری کو روشن کر کے شمع فنا ہو چکی تھی

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact