*تحریر * منیبہ عثمان
آواز کا تعلق انسان کی حس سماعت سے ہے اور یہ حس جس انسان کے پاس ہے، نعمت خداوندی کا شکر بجا لانا اس پر لازم ہے۔ اس کے برعکس جو اس نعمت سے محروم ہیں ان کی بے بسی کا اندازہ لگانا ہمارے لیے ناممکن کی حد تک مشکل ہے۔
آوازوں کا پیدا ہونا ہوا کی لہروں میں دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے، جب بھی ہوا کی لہروں کے دباؤ میں کسی ذریعے سے نرمی یا سختی ہوتی ہے تو لہریں کسی سطح سے ٹکراتی ہیں اور اس ٹکر کی صورت میں آواز کا پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔
انسان کی زندگی میں آوازوں کی ان گنت اقسام ہیں، کچھ آوازیں اندورونی، کچھ بیرونی اور کچھ تخیلاتی قسم کی ہوتی ہیں لیکن مقصد سب کا ایک ہے کہ ان کو ‘سنا ‘ جاتا ہے اور وہ ‘سنائی’ دیتی ہیں۔
صبح آنکھ کھلتے ہی الارم کی آواز، گلی سے گزرتی گاڑیوں کی آواز اور پرندوں کی چہچہاہٹ۔ یہ تمام آوازیں کانوں کو بھلی محسوس ہوتی ہیں جب تک ان میں ناگوار شدت نہ ہو۔
دن چڑھتے ہی فضا میں مختلف آوازوں کے شامل ہو جانے سے مدھم اور بھینی آوازیں کہیں دب جاتی ہیں۔ جیسے گاڑیوں کی آوازیں، کسی ٹرک کا چنگھاڑتا ہوا ہارن، دروازے پر گھنٹی کی آواز، ردی اخبار والے کا بولتا ہوا سپیکر، پانی کی موٹر، کسی گھر سے پالتو جانوروں کی آواز، اور گھر میں اودھم مچاتے بچوں کی آوازیں۔
پورا دن ہی خوشگوار اور ناگوار آوازوں کے امتزاج کو لیے جب شام کی آغوش میں جانے لگتا ہے تو ایسے میں اگر مسجد سے اذان کی آواز آ جائے تو دل و دماغ کو جیسے سکون کی دوا مل گئی ہو۔
اندرونی آوازوں کا ذکر کیا تھا میں نے۔ جیسے ضمیر کی آواز۔ جو کسی دل پسند کام کو کرتے ہوئے، ممنوعہ کام کرتے ہوئے یا یوں کہہ لیں کہ اچھے اور برے کام کرنے سے پہلے ہمارا ضمیر ایک آواز لگاتا ہے کہ سوچ لو یہ کام اور اس کا انجام۔ اگر ہم سن لیں تو فائدے میں ہی رہتے ہیں ورنہ ایک وقت تو ضمیر بھی آواز لگانا چھوڑ دیتا ہے اور انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
کچھ ایسی آوازیں بھی ہیں جو ہمارے تخیل کی صوتی کیفیات ہوتی ہیں۔ یہ وہ آوازیں ہیں جو نیوٹن نے کشش ثقل کی تحقیق کے دوران سنیں، یہ وہ آوازیں ہیں جنھوں نے ہیلن کیلر کو عزم و حوصلے کی داستان کے طور پر و امر کر دیا، یہی وہ آوازیں ہیں جنھوں نے الفارابی سے ایک حیرت انگیز موسیقی کا آلہ بنوا دیا، یہی وہ آوازیں ہیں جنھوں نے عمر بن الخطاب کی دھاک و دبدبہ میلوں دور ان کے دشمنوں کے دلوں میں خوف کی صورت میں بٹھا دیا، یہی وہ آوازیں ہیں جنھوں نے چاند پر پہلا قدم رکھتے ہی نیل آرم سٹرانگ کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا دعویدار بنا دیا، یہی وہ آوازیں ہیں جنھوں نے سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں مچھلی کے پیٹ سے یونس علیہ السلام کی دعا سے رب غفور کا عرش ہلا دیا، یہی وہ آوازیں ہیں جنھوں نے رواں دور کے سائنسدانوں کو یقین کرنے پر مجبور کر دیا کہ کائنات میں سوئی جتنی جگہ بھی خالی نہیں جہاں ملاںٔکہ اللہ تعالیٰ کی حمد بیان نہ کر رہے ہوں۔
آواز کی رفتار بجلی کی رفتار سے کم ہے لیکن اس کا اثر صدیوں تک محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آوازوں کو محسوس کیجیے، پہلے نہیں کیا تو آج سے لازمی کیجیے۔
؎ *چھپ گئے وہ ساز ہستی چھیڑ کر*
*اب تو بس آواز ہی آواز ہے*