تبسم ضیا اسلام آباد میں مقیم نوجوان ادیب/شاعر ہیں۔ اردو افسانے اور نظمیں لکھتے ہیں۔نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد سے اردو میں ماسٹر کیا۔
بچپن میں بچوں کے لیے کہانیاں لکھیں جو اخبار جہاں میں شائع ہوئیں۔سن دو ہزار تیرہ میں باقاعدہ لکھنا شروع کیا اور دو ہزار تیرہ سے دو ہزار پندرہ، دو سال تک روزنامہ اوصاف اور متعدد اخبارات کے لیے کالمز لکھے۔ کئی موقر ادبی جرائد اور اخبارات میں نظمیں اور افسانے شائع ہو چکے ہیں۔ پاکستان و ہندوستان کی مشہور ویب سائیٹس پر تبسم ضیا کا ادبی کام موجود ہے۔
جدید شاعری میں منفرد اسلوب برتنے، نئی امیجری اور نئے استعارے استعمال کرنے کے حوالے سے ان کی نظمیں اپنا الگ مقام رکھتی ہیں۔ سن دو ہزار سترہ میں ان کا شعری مجموعہ “سرخ جنموں کے زرد سائے” منظر عام پر آیا۔جسے پذیرائی حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند تبسم ضیا کو “آتش زیرِ پا” کا خطاب دیتے ہوئے لکھتے ہیں “داخلی آہنگ تبسم ضیا کی سب نظموں میں جاں بخش خون کی طرح رواں دواں ہے۔ یہ آہنگ جہاں ان کی نظموں کی سطور کے رگ و ریشہ میں مے شبینہ در تاک کی طرح محو خرام ہے وہاں قاری یا سامع کے دماغ کی کیمسٹری پر اس کا اثر اسی نشہ آور کیفیت کی طرح ہوتا ہے جو مئے شبینہ کا ہے۔” مزید لکھتے ہیں کہ: “اس نوجوان کے قلم میں مرتعش و متزلزل ایک ایسا زلزلہ پیما ہے جو قاری یا سامع کو بھی خیال، جذبہ اور وجدان سے متشکل انشراح قلب میں بھی مبتلا کر دیتا ہے۔”
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.