دانیال حسن چغتائی
اردو افسانہ جس کی بابت عموما یہ کہا جاتا ہے کہ ہماری ادبی اصناف میں سب سے کم عمر صنف ہے۔ تقریبا ستر سال تک زمانہ کے نشیب و فراز دیکھنے کے بعد بھی محض اس لئے کم عمر کہلاتا ہے کیونکہ اصناف ادب کی عمر برسوں میں نہیں بلکہ صدیوں میں شمار ہوتی ہے ۔ مثلاً اردو میں غزل، مثنوی اور قصیدہ سب کی تاریخ تین صدیاں پہلے سے شروع ہوتی ہے بلکہ جدید اردو شاعری بھی آج سے ایک صدی پہلے کی جدت ہے ۔ اس لحاظ سے اردو افسانہ واقعی سب سے کم عمر صنف ہے ۔ تاہم یہ صنف جس زمانہ کی پیداوار ہے وہ شعور کا ایک نہایت ہی تابناک دور ہے ۔ انسان کا چاند پر کمندیں ڈالنا محض ایک شاعرانہ تخیل ہے نہیں بلکہ ایک ٹھوس حقیقت بین چکا ہے ۔ فاصلوں ، پیمانوں بلکہ اخلاقی قدروں تک کا تصور بدل رہا ہے۔ انسان کا شعور مسلمہ کلیات کو بدلتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے ۔ چنانچہ جو پہلے تھا وہ اب نہیں، جو اب ہے وہ کل نہیں ہوگا۔
عصر حاضر میں بہت سے ایسے افسانہ نگار سامنے آئے ہیں جو کسی مخصوص تحریک یا رحجان کے نمائندہ تو نہیں لیکن ان کے لکھے پر مخصوص چھاپ ضرور ہوتی ہے کیونکہ ہم جو پڑھتے ہیں اس کا اثر ہمارے لکھے پر لازمی نظر آتا ہے۔ عینی عرفان ایسے ہی افسانہ نگاروں میں شمار کی جاسکتی ہیں جنہوں نے فرد اور فرد کی ذات کے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ ان کے بیشتر افسانے کردار کے افسانے ہیں اور جب ہم کسی کردار کو اپنے افسانے کا موضوع بناتے ہیں تو کردار کی نفسیات کے بیان کے بغیر بات نہیں بنتی اور جب کوئی کردار افسانے کا موضوع بنتا ہے تو زندگی کا فلسفہ بھی ہمارے موضوع بنتے ہیں۔ جیسے افسانہ تخت کا کردار پکھراج اور اس کا فلسفہ حیات عینی کے کردار ہمارے ارد گرد کے کردار ہیں اور ان کے مسائل ہمارے اپنے مسائل ہیں ۔ ہاں کرداروں میں اچھے کردار بھی ہیں اور برے بھی بعض ایسے کردار بھی ہیں جو بظاہر بہت برے ہیں لیکن اپنی سوچ اور عمل میں بہت اچھے ہیں جیسے افسانہ تخت ہی کا کردار جواہر یا جیسے افسانہ مدد کا کردار طیب ۔ ایک افسانہ نگار کی ضروری صلاحیت مشاہدہ ہے۔ عینی عرفان صاحبہ کا مشاہدہ بہت گہرا ہے۔ وہ موضوع کی جزیات بیان کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں اور منظر نگاری پر بھی دسترس حاصل ہے ۔ عمدہ منظر نگاری کی مثال افسانہ تخت اور دھند کے پار ہے۔ عینی عرفان صاحبہ نے اپنے افسانوں میں استعارہ اور علامات سے بھی کام لیا ہے۔ استعارے کی ایک خوبصورت مثال افسانہ دھند کے پار میں زرینہ کی کوٹھی اور اس کے مقابل سڑک کی دوسری جانب کچی بستی کا ایک بوسیدہ مکان ہے۔ افسانہ نگار نے اس میں درمیانی سڑک کے مختصر سے فاصلے کو جنت کے راستے کا پل صراط کہا ہے۔ کامیاب افسانے کا ایک وصف اختصار بھی ہے۔ عینی کے افسانے اختصار کا وصف بھی رکھتے ہیں۔ افسانے کا ایک اور وصف ان کہی بھی ہے یعنی Unsaid moment کچھ نہ کہ کر بھی بہت کچھ کہہ دینا اور بہت کچھ قاری کی تفہیم کے لیے چھوڑ دینا۔ عینی کے ہاں اس کی ایک عمدہ مثال افسانہ چار انگلیاں میں کینوس پر بنی ایک حسین خوش باش اور زندگی سے مطمئن لڑکی کی تصویر ہے۔ جس کے چہرے پر اچانک چار انگلیوں کے نشان ابھر آتے ہیں، یہ چار انگلیاں قاری کو بہت کچھ کہتی ہیں۔ مصنفہ نے خود کچھ نہیں کہا لیکن قاری کی تفہیم کے لیے بہت کچھ چھوڑ دیا ہے یہ چار انگلیاں استعارہ بھی ہیں، ایک پیغام بھی اور افسانے کا موضوع بھی۔
اس مجموعے کے کچھ اقتباسات آپ کے لئے پیش نظر ہیں۔
”سانحہ بیت چکا تھا پر وقت موجود تھا، اپنی سخت پکڑ کے ساتھ وقت ہمیشہ موجودہ ہی رہتا ہے۔“
”بلور میں چھڑی سے منعکس ہوتا بنفشی رنگ آنکھوں کو خیرہ کر گیا، ہلکی سبز کانچ سی آنکھوں سے شعائیں چھوٹ رہیں تھیں، ڈوبتے سورج کی نارنجی کرنوں میں اس کے رنگ منفرد محسوس ہوتے ، وہ نا درو نایاب تھا۔ بین الاقوامی منڈی میں اس کے جمال سے زیادہ اس کے مہلکات کی قیمت تھی۔“
”دل ہو یا زخم ایک دفعہ چیر دیا جائے تو چاہے کتنی بھی پیوند کاری کی جائے نشان رہ جاتا ہے۔ ایسا نشان جو روح کو بھنور میں قید کر لیتا ہے، کبھی اس لمحے سے ابھر نے ہی نہیں دیتا۔“
مجموعہ ” دھند کے پار ” میں پندرہ افسانے اور گیارہ افسانچے شامل ہیں۔ اس کتاب کے ناشر سرائے اردو پبلیکیشن سیالکوٹ ہیں ۔
اس مجموعے کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عینی عرفان ایک کامیاب افسانہ نگار ہیں۔ دھند کے پاران کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ہے جس میں موضوعات کا تنوع ہے اور جدید تکنیک کا استعمال بھی۔ زبان و بیان پر گرفت بھی ہے اور خوبصورت جملوں کی مثالیں بھی۔ مکالموں کی زبان، کرداروں کے ماحول اور نفسیات کی عکاس ہے۔ اس سے پہلے ان کے افسانوں کا مجموعہ مٹی کے مکین قارئین کی توجہ حاصل کر چکا ہے۔ امید ہے ” دھند کے پار ” ادبی حلقوں میں عینی عرفان کی پہچان بنے گا اور عینی عرفان کا شمار آنے والے وقت میں اچھے افسانہ نگاروں میں ہوگا۔ میں ان کے تابناک ادبی مستقبل کے لیے دعاگو ہوں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.