تاثرات: اختر شہاب
افسوس کہ میں نے اس سے پہلے ڈاکٹر نسترن احسن فتیجی صاحبہ کا لکھا ہوا کچھ نہیں پڑھا لیکن چونکہ اس کتاب کا عنوان ہی سوچ کو ایک نئی جہت دینے والا ہے اور اتفاق سے پہلا افسانہ بھی یہی ہے تو میں اسے پڑھنے پر مجبور ہوگیا۔  یہ افسانہ انسانی ذہن میں گرفتار شدہ ان چیخوں،(جنہیں کوئی بھی سنا نہیں چاہتا.شاید انسانیت خود بھی نہیں۔) انہی تشنہ آرزوئوں اور ادھوری خواہشات کا ایک بھرپور نوحہ ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ کے زیادہ تر افسانوں کا مرکز عورت ہے۔ عورت کی برداشت اور  اس کے صبر کی اس کشمکش کو انہوں نے بڑی خوبصورتی سے عیاں کیا ہے۔ وہ اپنے مخصوص نسائی لہجے میں عام آدمی کا دکھ اور اس کے مسائل پیش کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ ان کا گہرا مشاہدہ اور مطالعہ اس بات کویقینی بناتا ہے  کی قاری ان کے افسانوں کے سحر نہ نکلنے پائے ۔ اس مجموعے میں اگرچہ ابتدائی دور کے بھی افسانے شامل ہیں مگر ان میں  بھی پختہ کارانہ مہارت بخوبی موجود ہے۔اگرچہ  ان کا انداز بیانیہ ہے لیکن  جہاں مکالموں کی ضرورت ہے وہاں وہ نگینے کی طرح فٹ ہیں
ان کے افسانے ہمارے سماج  کی کہانیاں ہیں ۔جنہیں پڑھتے ہوئے قاری کو اپنے پن کا احساس ہوتا جیسے ؛
انگلی کی پور پر گھومتا چاند ،  اس قدر تیزی سے بدلتی اقدار کے کڑوے حقائق کو عیاں کرتا ہے۔ جنہیں پکڑنے یا روکنے کی کوشش میں سب کچھ ہی بدل کے رہ جاتا ہے۔
یہ اتنا بڑا مکان کس لئے بنایا تھا۔۔۔۔۔بچوں کے لئے!!۔۔۔بچے کہاں ہیں ؟؟ وہ تو اڑ گئے۔۔۔!!! لیکن کچھ ‘‘عجیب عورتیں ’’سوچتی ہیں کہ بچوں کا کیا پتہ کہ کب گھونسلے میں واپس آجائیں تو گھونسلے محفوظ بھی رکھنا چاہیے۔ چاہے  اس آس میں ان میں تنہا  رہتے رہتے  ان کا  دم ہی نکل جائے۔
چھوٹے بڑے ہٹلر ہر دور میں ہوتے ہیں بس انہیں تھوڑی چھوٹ ملنے کی دیر ہوتی ہے۔
سود زیاں اور اخلاقی اقدار کا ماتم کرتی کشمکش اور ڈائل ٹون جیسی کہانی ایک حساس شخصیت ہی لکھ سکتی ہے
اس کےعلاوہ جب ان کا حساس دل جب قلم کی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے تو کچھ اس طرح  کےخاصے کٹیلے جملے تشکیل پاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑے سے چھوٹے خاندانوں میں آتے ہوئے ہم صرف بوجھ اٹھا لائے ہیں، چھوٹے بڑے کام کا
 بوجھ، لاتعلقی کا بوجھ تنہائی کا بوجھ۔۔
خون کے رشتے کبھی نہیں مرتے۔ انسان مرجاتا ہے یہ زندہ رہتے ہیں۔ یہ کہانی میں ، شجروں میں زندہ رہتے ہیں۔۔۔ بلکہ کچھ رشتوں کا زیر تو شجروں میں بھی محسوس ہوتا ہے۔
عمر کا حساب تو تجربوں حادثوں اور سفر کے حساب سے رکھنا چاہئے۔۔۔۔
سانپ ریگستان میں ہی نہیں رہتے انسانوں میں بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔
صحافت کا چہرہ اب سراب ہے کیونکہ ادارے کسی کے پاس رہن رکھے جاچکے ہیں۔۔
ماں نام کی مخلوق صرف گزارہ کر کے اور کروا کے کیوں خوش رہتی ہے ۔۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحبہ کے اس افسانوی مجموعے میں شامل افسانچے بھی خاصی فنکارانہ مہارت اور معنوی گہرائی کے حامل ہیں۔
کتاب کی طباعت ادارے کا معیار متعین کرتی ہے اور اس سلسلے میں پریس فار پیس کا ایک اپنا معیار ہے اور ان کی محنت اور محبت کا ثبوت یہ کہ تمام تر توجہ سے پڑھنے کے باوجود مجھے پروف کی غلطی نظر نہ ائی۔
بحیثیت مجموعی یہ پڑھنے کے لائق ایک بہترین  تخلیق ہےاور  میری خواہش ہے کہ کتاب ناشناسی کے  اس دور میں یہ کتاب  زیادہ سے زیادہ پڑھنے والوں تک پہنچے۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact