بہاول پور میں اجنبی- تبصرہ نگار :مجیداحمد جائی

You are currently viewing بہاول پور میں اجنبی- تبصرہ نگار :مجیداحمد جائی

بہاول پور میں اجنبی- تبصرہ نگار :مجیداحمد جائی

تبصرہ نگار ر:مجیداحمد جائی
جو ہجرت کی تو دل اپنا پرانے گھر میں چھوڑ آئے
سواب اچھے سے اچھا بھی ہو گھر اچھا نہیں لگتا
       “ہجرت چھوٹی ہو یا بڑی ،مقام بدلتے ہیں تو منظر بھی بدلنے لگتے ہیں ۔جب انسان کے آس پاس کے منظر تیزی اور تواتر سے بدلنے لگیں تو اس کے اندر بھی کئی ہجرتیں ایک ساتھ رونما ہونے لگتی ہیں ۔جب کسی منظر سے دل لگی سی ہونے لگتی ہے تو نیا منظر سامنے کھڑا ہوتا ہے ۔جب ابھی آپ اس نئے منظر کے خدوخال سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ اس سے بالکل ہی مختلف اور بسا اوقات انتہائی مشکل منظر یا مرحلہ قلب و روح کو ایک نئی آزمائش میں ڈالنے کے لیے تیار کھڑا ہوتا ہے ۔
        تارکین وطن کے سامنے تیزی سے بدلتے ان مناظر کے بیچوں بیچ جسمانی مہاجرت نت نئی ہجرتوں مثلاًذہنی ،روحانی اور نفسیاتی مہاجرت کو جنم دینے لگتی ہے ۔جسمانی مہاجرت تو جسمانی تکالیف سہتے سہتے ایک عادی مہاجرت کا روپ دھار لیتی ہے مگر جو کیچوے دل و دماغ سے جڑی مہاجرت کو لگتے ہیں اس کا درد وہی سمجھ سکتے ہیں جو اس کرب ناک صورت حال سے گزرے ہوں ۔”
        درج بالا اقتباس “بہاول پورمیں اجنبی”  سے لیا گیا ہے ۔اس کا جائزہ لیا جائے تو “بہاول پور میں اجنبی”کی وجہ تخلیق سامنے آجاتی ہے ۔ہجرت کوئی بھی ہو آسان نہیں ہوا کرتی ۔ مظہر اقبال مظہر مسلسل ہجرتوں کے دُکھ سے دوچار رہے ہیں ۔جنت نظیر وادی میں جنم لیا ۔شعور کی سیڑھیاں چڑھنے لگے تو ہجرت پیش آئی ۔کبھی لاہور اور کبھی ریگستانی ریاست بہاول پور پہنچا ۔ریاست بہاول پور کا چپہ چپہ تاریخی ہے ۔اس خطہ نے پاکستان کے لیے بہت سی قربانیاں دی ہیں ۔مصنف کی اس خطہ سے محبت  اوردلچسپی اس لیے بھی ہے کہ کشمیر اور بہاول پور کا دُکھ سانجھا ہے ۔مصنف ذریعہ معاش کے لیے دیار غیر انگلینڈ جا بسا ہے لیکن یہاں کی یادیں ،مناظر آنکھوں کی سکرین میں محفوظ کیے ہوئے ہیں ۔اب ہجرتوں کے اس سفر کو “بہاول پور میں اجنبی “کی صورت ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے

۔
 “بہاول پور میں اجنبی “آپ بیتی کے رنگ میں ،بہاول پور کا سفر نامہ ہے اور اس زمین سے جڑے واقعات کو لے کر دو افسانے بھی ہیں جو کہ انسان کی بے حسی کو پردہ چاک کرتے ہیں ۔اگر شمس رحمان صاحب کے بقول کہوں  ”  دل مندر“میں افسانے کے مرکزی کردار بُوبے کی کسی دوسرے گاوں میں وڈیرے کی بیٹی سے محبت کی ان کہی داستان اور اس کے بھیانک اثرات کی کہانی ہے ۔جب کہ دوسر ا افسانہ “ایک بوند پانی “سندھ کے صحرا میں پانی کی شدید قلت کے خوفناک اثرات کی ۔دونوں افسانوں میں انسانی دُکھوں اور طبقاتی فاصلوں کو خو ب نمایاں کیا گیا ہے تاہم محرومیوں کے مداوے کے امکانات کہیں نظر نہیں آتے ۔
     “بہاول پور میں اجنبی “کے دو انتساب ہیں -پہلا والدہ محترمہ کے نام ہے اور دوسرا کچھ یوں ہے : “قلم و کتاب کی حرمت کی آئینہ دار مادر علمی جامعہ اسلامیہ بہاول پور کے نام ،جس نے کئی عشروں سے مجھ جیسے لاکھوں طالب علموں کے لیے علم و آگہی کے دریچے کھول رکھے ہیں ۔علم و دانش کا یہ شجر سایہ دار تاقیامت سلامت رہے ۔”
       مظہر اقبال مظہر اس مادرعلمی میں امتحان دینے کی نیت سے آتے ہیں لیکن بہاول پور کے شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر مٹر گشت کرتے ہیں اور ایک سیاح کی طرح تاریخی مقامات ،لوگوں کے میل ملاپ،زُبان وبیان کے سرائیکی اور پہاڑ ی کی مٹھاس کو باریکی سے محسوس کرتے ہیں ۔مظہر اقبال مظہر یہاں کی سڑکوں ،بازاروں  اور تاریخ و لائبریوں کے ساتھ ساتھ دیگر مقامات کی سیر کرائی ہے ۔یہی نہیں بلکہ لوگوں کے لہجوں کی مٹھاس کو محسوس کیا اور یہاں رہ کر کشمیری سماجی ،ثقافتی اور نفسیاتی تجربات و مشاہدات کو تلاشا ہے ۔سماج کے دُکھ ،غربت ،ذات پات ،معاشی ناہمواریاں ،تہذیب و ثقافت  اور تاریخ و شخصیات کا باریک بینی سے مشاہد ہ کیا ہے اور اُسے لفظوں کا لبادہ پہنا کر ”بہاول پور میں اجنبی ”کی صورت پیاری اور معیاری کتاب پیش کی ہے ۔
 “ بہاول پور میں اجنبی ”کی فہرست دیکھیں تو آپ اندازہ کر پائیں گے مثلاًیہ بہاول پور ہے ،بہاول پور دیکھیں مگر کیسے ؟،ٹانگہ لہوردا نہ جھنگ دا،سرائیکی زبان کی جلترنگ ،مرکزی لائبریری اور میوزیم ،بہاول وکٹوریہ ہسپتال اور میڈیکل کالج،مسئلہ شناخت کا ،سرائیکیوں اور کشمیریوں کا مقدر اور بغداد الجدید سے واپسی جیسے دیگر چھوٹے چھوٹے مضمون قاری کو بہاول پور کی سیاحت کے ساتھ ساتھ محو حیرت میں ڈال دیتے ہیں اور قاری کو اپنے دُکھ میں شامل کر لیتے ہیں ۔مسکراتے مسکراتے اچانک سنجیدہ ہو کر رولا دیتے ہیں ۔قاری کتاب کے آخر سطر پڑھنے کے بعد محو حیرت رہ کر مختلف سوالات کے سمندر میں غوطہ زن ہو جاتا ہے اور ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے لگتا ہے ۔مظہر اقبال مظہر نے اپنی سیاحت کو لفظوں کا روپ دے کر بہاول پور کے ختم ہوتے تاریخی ورثے کا نوحہ پیش کیا ہے ۔ایک طرف یہاں کے باسیوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے تو دوسری طرف ان کی دُکھتی رگوں پر نمک پاشی بھی کی ہے ۔وہ زخم جو کبھی مندمل نہیں ہو سکتے ۔مجھے تو خطرہ لاحق ہے کہ آنے والی نسل بہاول پور کی شناخت کی جنگ نہ لڑرہی ہو ۔
       مظہر اقبال مظہر نے  “بہاول پور میں اجنبی”لکھ کر یہاں اپنے آپ کو تسلی دی ہے ،وہیں بکھرتی یادوں کو محفوظ بھی کیا ہے ۔بہاول پور کے عوام کے دُکھ میں شامل ہوا ہے بلکہ کشمیریوں کی وکالت کرتے ہوئے شانہ بشانہ کھڑا رہنے کا یقین بھی دلایا ہے۔کتاب کا نام “بہاول پور میں اجنبی ”ہے لیکن مصنف یہاں کے تہذیب و کلچر ،زبان وبیان ،رہن سہن ،تاریخ کے بارے مکمل جان کاری رکھتا ہے اور کشمیر یوںسے مماثلت واضح کرتا ہے ۔ ۔ ایک سو بیس صفحات پر مشتمل اس آپ بیتی نما دستاویزکے اندر تاریخ،تہذیب و کلچر ،دُکھ والم ،زبان وبیان کے انداز،مسکراہٹیں ،مٹھاس سب کچھ محفوظ ہو گیا ہے ۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ نامور شخصیات نے اپنے قیمتی لفظوں کی صورت اسے سراہا ہے جن میں محقق ،تجزیہ نگار اور مصنف شمس رحمان ،افسانہ نگار و ناول نگارڈاکٹر نسترن احسن فتیحی ،معلم و مصنف جاوید خان  اور شاعر عنایت اللہ عاجز شامل ہیں ۔“بہاول پور میں اجنبی ”پریس فارپیس فاﺅنڈیشن (یوکے )کے زیر اہتمام اشاعت ہوئی ہے ۔کتاب کی قیمت  پانچ سو روپے ہے اور اس کا سن اشاعت 2021ءہے ۔مقام اشاعت لندن ہے ۔میں مظہر اقبال مظہر کو دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور شکر گزار ہوں کہ انہوں نے یہ شاندار کتاب مجھے عنایت کی ۔کتاب کیسے پہنچی اس کی کہانی بھی دل چسپ ہے ۔ مظہر اقبال مظہر کے ساتھ ساتھ ممتاز معلم و مصنف ممتاز غزنی  کا بھی شکر گزار ہوں ۔یہ جی دار شخصیت میری ادبی پیاس بجھاتے رہتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان سب کے علم و عمل ،صحت و رزق میں برکتیں عطا فرمائے آمین !۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.