تبصرہ نگار: ثمینہ ناز
بیٹے ہوئے دن اور ان سے وابستہ یادیں ہمیشہ مجھے پسند رہی ہیں چائے کا کپ تھامے بھاپ اٹھتی جائے اور شام کے منظر میں اکثر یادوں میں کھو جانا اور گزرے لمحات کو یاد کرنا میرا مشغلہ رہا ہے۔ اس لیےتو اکثر میں کہہ دیتی ہوں۔
آنگن میں گھنے پیڑ کے نیچے تیری یادیں
میلہ سا لگا دیتی ہیں اچھا نہیں کرتیں
کچھ دنوں پہلے صادق کالج ویمن یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ اردو کی لائبریری میں ایک کتاب پر نظر پڑی۔ ’’بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں‘‘ عنوان پڑھتے ہی ہاتھوں نے بے اختیار کتاب کو اٹھایا۔ کتاب کے سرورق پر ایک عالی شان حویلی بنی ہوئی تھی ایک لڑکی یادوں میں کھوئی بیتے دنوں کو یاد کرنے میں مشغول ہے۔
کتاب کی فہرست پر نظر پڑی تو بے شمار علمی و ادبی شخصیات کے تبصرے پڑھنے کو ملے۔ جس سے ’’بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں‘‘ خود نوشت کی مصنفہ نصرت نسیم کی شخصیت کو جاننے کا موقع ملا۔ جیسے ہی اوراق کی ورق گردانی کی ہر صفحہ یادوں کا حسین سرمایہ سمیٹے ہوئے تھا نصرت نسیم نے چمکتے آفتاب، موجیں اڑاتے سمندر، نگاہوں کوخیرہ کرتے مہتاب، چمکتی کرنوں اور کائنات میں بکھرے تمام رنگوں کو سمیٹ کر اپنے خیالات کی طغیانی دی ہے ان کی خود نوشت مشرقی ماحول کی عکاسی کرتی ہے۔ مشرقی خاتون کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی تہذیب اور رکھ رکھاؤ کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ نصرت نسیم نے جابجا اپنی تہذیب و ثقافت کی عکاسی کی ہے۔ انہوں نے اپنی یادوں کو خوب صورت اور دل موہ لینے والے لفظوں سے مزین کر کے دلنشیں بنایا ہے۔ ان کی خود نوشت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کردار چلتے پھرتے محسوس ہوتے ہیں۔ اپنے خوب صورت لب وہ لہجے اور اسلوب سے بہترین منظر نگاری کر کے خود نوشت کو اپنی صنف میں منوانے کے لیئے کامیاب ہوئی ہیں۔
ان کی خودنوشت کو پڑھ کر خیبر پختون خوا کی ثقافتی دھنک ہمارے سامنے عیاں ہوتی ہے انہوں نے مخصوص طبقے کے رسم و رواج، نظریات، عادات ملبوسات، صلاحیتوں اور سماجی رویوں کو بیان کیا ہے۔یتوں اور سماجی ریوں کو بیان
جو رنگ عصمت چغتائی اور واجدہ تبسم کی تحریروں میں علاقائی ثقافت کا نظر آتا ہے وہی کہیں آس پاس نصرت نسیم کی تحریر میں بھی ہے۔
نصرت نسیم نے گلی کوچوں کی عام زبان سے ہمیں روشناس کرایا ہے۔ وہ الفاظ جو قدیم دور میں استعمال کیے جاتے تھے اور ایک آدھ نسل گزر جانے کے بعد اب ناپید ہو چکے تھے انہوں نے اپنی خود نوشت میں ان الفاظ کو محفوظ کر دیا ہے۔
’’بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں‘‘جب میں کتاب پڑھتی گئی ایسا محسوس ہواتا رہا کہ نصرت تبسم انگلی پکڑے مجھے اس زمانے میں لے گئی ہیں جہاں شہروں، بستیوں اور قصبوں میں محبتوں کا راج تھا پھر وہ گھروں، آنگنوں اور دریچوں کو دکھاتی ہیں جہاں عورت رسم و رواج کی جکڑ بندیوں میں قید ہے ان کی آپ بیتی نسوانی جدوجہد کی روشن مثال ہے اس خود نوشت کو پڑھ کر جہاں قدرتی مناظر کی دلکشی سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہاں ہم صبح، دوپہر اور شام کے اسیر بھی ہو جاتے ہیں ان کی خود نوشت میں گاؤں کے شام کا منظر اپنی دلکشی اور خوب صورتی کو سمیٹے ہوئے ہے۔
جب کتاب صفحات پلٹتے ہوئے تحریر پر نظر پڑتی ہے ویسے ہی ایک باہمت اور بہادر خاتون سے ہمیں آشنائی ملتی ہے۔ یہ ناصرف ان کی دلچسپ داستان حیات ہے بلکہ یادوں کی ایک پٹاری ہے ہر منظر دامنِ دل کو کھینچ لیتا ہے چاند چاندنی اور چنبیلی کی خوشبو سے رچی بسی یہ کتاب لمحوں کی آہٹ کو سناتی ہے بدلتی رتوں کا تذکرہ کرتی ہے۔ وقت رک جا۔۔۔۔۔ کا نعرہ لگاتی ہے۔ بیتے لمحوں تھم جاؤ کی صدا لگاتی ہے۔ ان کی خود نوشت کو بڑھ کر تخیل کی دنیا میں کھو جاتے ہیں اس کے علاوہ تاریخ، تہذیب، تمدن سماج اور سیاست ان کے اہم موضوعات سامنے آئے ہیں۔ زبان و بیان، منظر نگاری یادوں کا حسین سرمایہ نظر آتا ہے۔ واقعات کو اس تجسس کے ساتھ بیان کرتی ہیں کہ مزید پڑھنے کی جستجو پیدا ہوتی ہے۔
نصرت نسیم ایک بہترین خود نوشت نگار ہیں جو تہذیب و ثقافت، رکھ رکھاؤ اور خواتین کے حقوق کی علمبردار نظر آتی ہیں ان کا قلمی سفر اردو خود نوشت کے لیے ایک شاندار اضافے کا باعث بنے گا۔ یہ خود نوشت صرف ان کی خود نوشت نہیں بلکہ معاشرے کی ہر مشرقی خاتون کی خود نوشت اور کہانی ہے۔