ادیبہ انور یونان
میری خستہ حالی اور مجھ پر لگے تالے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ میں کتنا پرانا ہو ں ۔ میں زیادہ تو بند ہی رہتا ہوں۔
سچ پوچھیں تو میں اب زیادہ کارآمد بھی نہی رہا۔ میں کسی منہ ذور ہوا یا کسی بچھڑے ہوئے بیل کے آگے تن کر کھڑا رہنے کی ہمت نہی پاتا ۔ نا ہی چپکے سے نقب لگانے والے کسی چور سے الجھ سکتا ہوں۔ مگر پھر بھی میرا ایک بھرم قائم ہے۔ سچ پوچھو تو صرف کسی شریف انسان کی ہمت ہی میرے آگے ہار سکتی ہے۔ اسی لئے تو ابھی تک اس بوڑھے کو مجھ پر بھروسہ ہے۔
ہاں یہ بتانا تو بھول ہی گیا وہ بوڑھا مجھے سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ جب اس نے مجھے یہاں نسب کیا تھا تو ابھی اچھا خاصہ با ہمت انسان تھا۔ مضبوط جسم کا مالک شاید فوجی آفیسر تھا۔ جس نے ریٹائر ہوتے ہی اپنی اصل کی طرف لوٹنے کا ارادہ کیا تھا۔ شاید وہ مصروف ہونا چاہتا تھا یا یہی اس کی متاع تھی جس کو وہ اپنی توجہ اور محبت دے کر سینتنا چاہتا تھا۔ اسی لئےاس زمین کے ٹکڑے پر اب وہ روز آنے لگا۔ اس نے اس مظبوط فصیل والے پستے کے باغ کے اندر ایک چھوٹا سا کمرہ بنا رکھا ہے۔ اس میں کچھ تو اس کے گھر کا وہ سامان تھا جو شاید اس کے بچوں کے لئے ناکارہ تھا یا پھر اس سب کی جگہ اب گھر میں نہی بچی تھی۔
وہ اس کھیت میں آتا تو کبھی پودوں کی کانٹ چھانٹ کرتا کبھی زیتون کے نئے پودے لگاتا۔ کبھی کھیت میں اگنے والی خود رو گھاس پر مشین چلا کر کاٹتا۔ اس کمرے کی چھت بڑی سی لوہے کی چادر کی تھی۔ جو اکثر ہوا سے خراب ہو جاتی ۔ وہ آتا اور اس کو ٹھیک کرتا۔ اور پھر بارش کے پانی کو سینتنے کا انتظام کرتا۔ پانی چھت سے سیدھا پرنالے اور وہاں سے نیچے ایک لوہے کہ بڑی سی پرانی ٹینکی میں جمع ہوتارہتا۔ اور یہ بوڑھا وہی پانی بالٹیوں میں بھر کر نئے لگائے ہوے پودوں کو لگاتا۔
بوڑھے کی بیوی بھی کبھی کبھی اس کے ساتھ آتی زیتون اتارنے، کوئی سبز پتوں والی خود رو سبزی لینے یا پھر پستہ اتارنے۔
پستے کے درختوں پر سارا سال محنت کے بعد اچھی خاصی فصل ہو جاتی تھی۔ اس کا بیٹا آتا اور پستے کے بورے اٹھا کر لے جاتا۔ فصل کے چند دنوں بعد جاڑا شروع ہوتا۔ اس بوڑھے کو پھر خوب محنت کرنا ہوتی ۔ باغ کی صفائی بہت ضروری تھی۔
میں اس کو دیکھتا تھا ۔ یہ دن بدن بوڑھا ہو رہا تھا۔ اور پھر قدرت کا وہ فیصلہ آیا جس نے مجھے اور اس بوڑھے دونوں کی ہمت کا امتحان لیا۔
نومبر کی ایک رات خوب بارش ہوئی۔ جس سے پہاڑی نالے کا بند ٹوٹا اور پانی وادی میں بہنے لگا۔ زور سے بہنے والے پانی کا مرکز میں اور اس بوڑھے کا کھیت تھا۔ میں تیز بہاو کے آگے میں زیادہ دیر خود کو سنبھال نہی سکا۔ اور بلاخر میں پانی کے آگ ہار مان کر لیٹ گیا۔ اور مجھ سے ملحقہ جالی دار پرانی فصیل بھی لیٹ گئی۔
بوڑھا آیا تو یہ سب دیکھ کر اس کی جھڑیوں میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔ میرے تھکے ہارے جسم کے اوپر سے گزر کر وہ کھیت میں داخل ہوا اور کمرے اور کھیت کی حالت دیکھ کر اپنے نقصان کا اندازہ کرنے لگا۔ مجھے لگ رہا تھا اب میں کبھی کھڑا نہی ہو سکوں گا۔ اور بوڑھا بھی اب مجھ خستہ حال کو دوبارہ کھڑا کرنے کی ہمت نہی رکھتا ۔مجھے لگا اس کی قیمتی متاع کی ذمہ داری کسی اور کو سونپ دی جائے گی۔
لیکن میں حیران رہ گیا کہ اگلے ہی دن اس نے میری جالی میں پھنسی گھاس پھونس اتاری اور مجھے کھڑا کرنے کی سعی کرنے لگا۔ اس کو دیکھ کر میں نے بھی ہمت پکڑی اور اپنے پرانے ملبے کو کارآمد بنانے اور اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے پر عزم ہو گیا۔ سچ ہے سانجھے غم بانٹنے آسان ہوتے ہیں ۔
ہم دو بوڑھوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور میں ایک بار پھر کانپتا ہوا اٹھ کھڑا ہو گیا۔ چند پتھروں کے سہارے ہی سہی۔ میں اب بھی اپنا بھرم قائم رکھے ہوئےہوں۔
مگر وہ بوڑھا ۔ وہ اب کبھی کبھار ہی آتا ہے۔ شاید اکثر بیمار رہتا ہے۔
کھیت کی فصیل پچھلی طرف سے ٹوٹ چکی ہے۔ وہاں سے بھی کبھی کسی نے آنے کی زحمت نہی کی۔
چند بلیآ ں ہیں جو مجھ سے مرعوب ہوئے بغیر یہاں اکثر گھوم رہی ہوتی پیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.