تحریر: فرحانہ مختار
اللہ رب العزت نے دنیا میں نسل انسانی کی بقا کے لئے خاندانی نظام بنایا۔ میاں بیوی اور ان کی اولاد۔ والد کے ذمہ خاندان کا معاشی انتظام رکھا اور بیوی کو گھر داری اور بچوں کی پرورش جیسے کام سر انجام دینے کی ذمہ داری سونپی۔
بظاہر دونوں اپنا اپنا کام سر انجام دیتے ہیں۔ لیکن “توازن” اور “احساس” کا تقاضا یہ کہ دونوں معاش اور گھریلو انتظام میں ایک دوسرے کی مدد کریں تو بہترین خاندان کا ایک اعلی نمونہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ نبی کریم (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ) کی حیات طیبہ سےاپنے کام خود کرنے اور گھر کے کاموں میں امھات المومنین کی مدد کرنے کی بھی مثالیں ملتی ہیں۔ اسی طرح سیدہ خدیجہ الکبری (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) تجارت کیا کرتی تھیں۔
رہی بات بچوں کی “تربیت” کی، تو اکثر و بیشتر یہ جملہ سننے کو ملے گا
بچوں کی تربیت تو ماں کی ہی ذمہ داری ہے”۔”
جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ تربیت خالصتا” ماں باپ دونوں کی ذمہ داری ہے۔
ماں باپ دونوں کی یکساں اور اولین ترجیح بچوں کی تربیت ہے۔ عائلی زندگی اور خاندان کو معاشرتی اکائی قرار دیا جاتا ہے۔ والدین کی اولین ذمہ داری اولاد کی بہترین تربیت ہے۔ دونوں کو یہ ذمہ داری نبھانی چاہئیے۔
یہ بات غور طلب ہے کہ اکثر مائیں اس بات سے پریشان ہیں کہ والد بچوں کی تربیت میں ان کا ساتھ بہت کم دیتے ہیں اور بچوں کے ساتھ کم وقت گزارتے ہیں۔
اللہ رب العزت قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ.
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے-(التحریم آية 6)
محترم والد صاحبان کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ تربیت میں ماں باپ دونوں کو ہی اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ آپ یقینا” ملازمت یا کاروباری ذمہ داریوں کی وجہ سے اکثر مصروف رہتے ہیں لیکن اولاد سے بڑھ کہ کوئی اور شے اہم نہیں۔ جس اولاد کے لئیے دن رات محنت کرتے ہیں، ان کی ضروریات پوری کرتے ہیں وہیں یہ اولاد آپ کی “توجہ” اور بلا شرکت غیر “محبت” کی بھی حقدار ہے۔ آجکل والد اس جانب توجہ نہیں دیتے۔
اپنی اولاد کو وقت ضرور دیں۔ آپ کی بیوی کو بچوں کی تربیت میں آپ کی بھی مدد درکار ہے۔
آپ اپنی بیوی کو عزت دیں گے تو آپ کا بیٹا عورت کو عزت دینا سیکھے گا اور آپ کی بیٹی یہ سیکھے گی کہ وہ قابل عزت ہے۔
والد کی توجہ بچوں کو پر اعتماد بناتی ہے۔ اور ان کی شخصیت نکھرتی ہے۔
تربیت اولاد کے رہنما اصول
لہذا کوشش کیجئیے:
بچوں کے ساتھ مضبوط تعلق بنانے کے لئیے روزانہ تھوڑا سا وقت ان کے ساتھ ضرور گزارئیے۔
روزانہ مسجد اپنے ساتھ لے کر جائیے۔
قرآن اور حدیث کا ترجمہ مل کر پڑھیے۔
ان سے بات کرتے ہوئے موبائل استعمال نہ کریں
مشفقانہ انداز میں ان کی عمر کے مطابق بات چیت کیجییے۔
بچوں کی بات توجہ سے اور ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سنیے۔
ان کی عمر کے لحاظ سے مل کر کوئی کتاب پڑھیے۔
بچوں کی عمر کے لحاظ سے کوئی بھی کھیل کھیلیے۔
روزانہ والد کے ساتھ کسی ایک موضوع پہ بچوں کی عمر کے مطابق سیر حاصل گفتگو کرنے سے نہ صرف بچوں کے علم میں اضافہ ہو گا بلکہ ان کو عمدہ بات چیت کرنے کا ڈھنگ آئے گا۔
سیر تفریح کے لئیے سرسبز اور قدرتی ماحول والی جگہوں کا انتخاب کیجئیے
کبھی ان کا بستہ دیکھئیے، نصابی کتب سے کوئی سبق مل کر پڑھیے۔
بازار لے کر جائیے۔ اشیاء ضرورت خریدنے، بل ادا کرنے اور لوگوں سے گفتگو کا ہنر سکھائیے۔
بچوں کو سوال کرنے دیں اور عمر کے لحاظ سے دین کی روشنی میں جواب دیں۔
روزمرہ زندگی کے معمولات میں بچہ آپ کو دیکھ رہا ہے اور سیکھ رہا ہے، بہترین رول ماڈل بننے کی کوشش کیجئیے۔
بلا ضرورت غصہ کرنے سے پرہیز کیجئیے۔ تحمل سے پیش آئیے۔
تریبیت اولاد احادیث کی روشنی میں
اولاد کی تربیت اور اپنے اپنے فرائض کی احسن طریقے سے ادائیگی میاں بیوی دونوں کے لئیے ضروری ہے۔ اسی ضمن میں ایک حدیث مبارکہ بیان ہوئی ہے۔
قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ۔
نبی کریم (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ) نے فرمایا کہ “تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے (اس کی رعیت کے بارے میں) سوال ہو گا”۔(صحیح البخاری۔ 5188)
اللہ سبحانہ و تعالی ہماری اولادوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ آمین
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.