Wednesday, May 22
Shadow

نور کے سائےتلے/ نصرت نسیم

پرنور یادشتیں

نصرت نسیم
        آج 20واں روزہ تھا اور ہمارا اعتکاف کا ارادہ تھا،اس لیے صبح سے ہی ہوٹل میں تھے تاکہ آرام بھی کر لیں اور اعتکاف کے لیے ضروری سامان او ر تیاری بھی۔ فالتو سامان اپنے میاں کے دوست کے ہاں رکھوایااور دو الگ الگ چھوٹے سے بیگ اپنے اور اُن کے لیے تیار کیے اور نہا دُھو کر عصر کی نماز کے لیے روانہ ہوئے۔ حرم کی حدُود میں داخل ہوئے تو ہر طرف لوگوں کا ہجوم، سامان ہاتھ میں لیےہوئے۔لگتا تھا تمام لوگ ہی اعتکاف کر رہے ہیں۔ ہجوم اتنا تھا کہ تمام دروازے بند کر دیے گیے تھے۔ کہا گیا کہ اب بابِ فہد کی طرف چلے جائیں وہاں جا کراحساس ہوا کہ یہاں اعتکاف کرنا بہت مشکل ہے، قالین نہیں تھا، فرش ٹھنڈا بہت ٹھنڈا، میاں صاحب کے دوست کمبل خرید لائے مگر عورتوں کی بھیڑ، جگہ کے لیے بحث وتکرار۔
        یہ صورتِ حال دیکھ کر ہم نے میاں صاحب کو بتایا کہ آپ اعتکاف اپنے دوستوں کے ساتھ کریں ،میں جہاں بیس منٹ میں نماز پڑھتی ہوں، وہاں جا رہی ہوں۔ اپنی چیزیں اُٹھائیں اور بانو کو ساتھ لے کے چل دیے۔ وہاں جا کے اللہ کا شکر ادا کیا کہ تمام ہال اعتکاف کرنے والی عورتوں سے بھراہوا تھا۔ فرش پر قالین بچھے تھے اور ایک پُر سکون ماحول تھا۔ایک ستون کے پاس سامان رکھ کرجگہ بنائی۔ میرے ساتھ ہی سوات سے آئی ہوئی ایک خاتون اور اس کی دو بیٹیاں بھی اعتکاف کر رہی تھیں۔ان سے جلد ہی دوستی ہو گئی ۔ان کی دونوں بیٹیاں بہت پیار کرنے والی اور خیال رکھنے والی تھیں۔سارے اعتکاف کے دوران اپنی ما ں کے ساتھ ساتھ، انہوں نے جس طرح میرا خیال رکھا،آج بھی یاد کر کے دل سے دعا نکلتی ہے۔
        آ ج پہلی طاق رات تھی، لہٰذا معمو ل سے بڑھ کے ہجوم تھا۔تراویح شروع ہوئی تو تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ تراویح کے بعد ڈبل روٹی پر جیم لگا کر پیٹ پوجا کی،تازہ وضو کیا اور اللہ کا لا کھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس آخری عشرے میں حرم میں اعتکاف اورقیام الیل کی ہماری کتنی شدید آرزو اور خواہش تھی۔ رب کی اس عنایت پر سجدۂ شکر ادا کیا، سُدیس نے قیام الیل میں پہلے پارے کی تلاوت کی تو لطف آ گیا۔ سُدیس کی آواز میری پسندیدہ سیدھی دل میں گھر کرنے والی، رُلا دینے والی (چونکہ پہلی بار یہ نماز پڑھی تھی اندازہ نہیں تھا )طویل قیام و سجوداور سب سے خوبصورت حصہ طویل دعا، امام صاحب خود بھی رو رو کے دُعا کرتے اور سارا ہال سسکیاں بھر بھر کے آمین کہتا۔اس رو نے میں کیا لذ ت تھی کہ بس دل چاہتا تھا کہ امام صاحب دعاکراتے جائیں اور ہم یونہی سرجھکا کے روتے ہوئے آمین کہتے رہیں۔قیامُ الیل ختم ہوئی تو دودھ کے ساتھ مختصر سی سحری کی، خلاف  معمول پانی بھی کم پیا۔ اعتکاف کا سب سے مشکل مرحلہ ہال سے نکل کر واش روم جانا تھا اور اس کے بغیر چارہ بھی نہیں تھا، اس کے بعد تہجد کی نماز اور نوافل اور پھر اذانِ فجرنمازِ فجر کے بعد اشراق کا انتظار اور نوافل یوں اکیسویں تک رات جاگ کر گزاری۔ پُوری رات عبادت میں نہ نیند کاغلبہ نہ سستی، ایک جذبہ ایک شوق، اشرا ق پڑھ کے فارغ ہوئے تو ہال خالی صرف اعتکاف والی خواتین لمبی تان کے سو گئیں مگر ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ صفائی والی خواتین سر پر مو جودکہ اٹھو صفائی کرنی ہے۔ ایسی ہی افراتفری میں دس بجے تک سو کر اُٹھ جاتے، گیارہ بجے سے نمازِ ظہر کے لیے لوگ آنا شروع ہو جاتے اور نمازِظہر تک ایک ہجوم اور جگہ کے لیے بحث وتکرار، عصر کی نماز پڑھتے ہی دستر خوان بچھانا شروع کر دیتے۔ اس پر کھجوریں اور قہو ہ اس افطاری کی تفصیل کیا بتاؤں ایک معجزہ، لاکھو ں لوگو ں کے لیے روزانہ نئی پلاسٹک شیٹ اور افطاری کا سامان، اذان کے ساتھ ہی افطاری اور اقامت کی اذان تک سب کھا پی کر فارغ، عصر کی نماز پڑھ کے میں طواف کے لیے چلی جاتی، بے انتہا رش(اور ہر روز اضافہ ہی اضافہ)یہ طواف میرا پسندیدہ وقت، حجرِ ِ اسودملتزم نظروں کے سامنے طواف ختم کر کے بمشکل افطاری سے پہلے اپنےگروپ تک پہنچتے اور کبھی کبھی راستے میں ہی افطار، اس افطار کی خوشی کے کیا کہنے۔
        اس عمرے پر آنے سے پہلے شعبان کے روزے افطار کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے رب سے دعا کی کہ میرا یہ عمرہ پچھلے تما م عمروں سے بہتر ہو، تقویٰ، عبادت ، ریاضت، قبولیت ہر لحاظ سے۔ ہم تیرے مہمان اور تو بہترین میزبانی کرنے والاہمیں بخش دے اوراچھے لوگ ملا جو دین میں بہتری لانے کا سبب بنیں۔اعتکاف کے دوسرے دن زبیدہ آپا سے ملاقات ہوئی جوجدہ میں تیس سال سے اسلامی مدرسہ چلارہی ہیں۔کراچی سے تعلق رکھنے والی دھان پان سی زبیدہ آپامگر عزم و ہمت اور عمل کا پیکر، عصر کی نماز پڑھتے ہی راحیلہ کو  ساتھ لے کر جاتے۔ افطاری خریدتی اور راستے میں سب بانٹ کر آجاتی۔ جلد ہی ان سے محبت اور دوستی کارشتہ استوار ہو گیا،دینی معلومات میں اضافہ ہوا، ہروقت قرآن پاک پڑھتی رہتی، تھک جاتی تو لیٹ کر کروٹ کے بل ہر حا ل میں قران ہاتھ میں ہوتا۔دن میں اگر ان سے بات کی جاتی تو جواب نہ دیتی کہ یہ قرآن کا مہینہ ہے باتوں میں وقت ضائع نہ کرو۔
        شروع کے ایک دو دن تو باہر سے کھانالانا منع تھا۔لہٰذا دودھ ڈبل روٹی ،فروٹ پر ہی سحری وافطاری ہوتی مگر بعد میں باہر سے افطاری لانے پرکچھ نرمی، کچھ چشم پوشی کی گئی اور سب ثواب میں سبقت کے لیےایک دوسرے کے لیے افطاری کرنے لگے۔ایک خوبصورت بھائی چارے اور محبت کی فضا، یوں تو تما م راتیں ہی خوبصورت اور تقدس بھری مگر طاق راتوں کےکیا کہنے،طاق راتوں میں ہجوم بہت بڑھ جاتااتنا کہ نماز کے لیے جگہ ملنی مشکل ہو جاتی ایک سیلِ رواں کی صورت ایک بحرِ بے کنار۔
        عصرکی نماز پڑھتے ہی دستر خوان بچھ جاتے اوراس پر انواع واقسام کی کھجوریں ، عربی قہوہ چھوٹے چھوٹے گلاسوں میں، اس ہال میں زیادہ تر انڈین اور پاکستانی،پاکستان کے ہر حصے سے آئی ہوئی خواتین، ہر کوئی ثواب میں سبقت کے لیے ایک دوسرے کو کھانے کی چیزیں پیش کرتا،راحیلہ اور اس کی امّی نے تو گویا میری ذمے داری ہی اُٹھا لی۔ آبِ زم زم کی بوتلیں بھر کر لانا، با زار سے کچھ سودا وغیرہ خرید کر لانا، یہاں تک کہ وضو کے لیے بھی ساتھ جانا کیونکہ آخری عشرہ اور بے انتہا ہجوم تھا۔ایک دن مغرب کے بعد اکیلی وضو کرنے چلی گئی واپس آئی تو ناہیدہ نے بتایا کے ناصرہ مجھے دیکھنے گئی ہے کہ اللہ خیر کرے آنٹی نے اتنی دیر کیوں کر دی۔ آسٹوپروسس کی وجہ سے اکثر میر ی ٹانگوں میں درد رہتا (اور مستقل بیٹھے رہنے کی وجہ سے )سوجن اور درد اور بڑھ گیا۔اکثر یہ بچیاں میری ٹانگیں دباتیں، اللہ انہیں خوش رکھے، آج بھی میں انہیں دعاؤں میں یاد رکھتی ہوں۔ غرض ایک بہت ہی خوبصورت اورروح پرورفضامیں اعتکاف کی روح پرور ساعتیں اورایمان افروز لمحات گزر گئے۔ زبیدہ آپا بھی ہماری روحانی پاکیز گی اورتعلیم کا ذریعہ تھیں،عمل کا پیکر ، سارادن قرآن پڑھتیں ،عصر کے بعد نکل جاتیں اور لوگوں کو افطاری کروا کر اور اکثر ہمارے لیے بھی افطاری لے کر آتیں۔ 
        27ویں شب کی رونق اور ہجوم تو دیدنی تھا۔اگر باہر کسی کام سے گئے تو اندر واپس آنا مشکل تھا۔عشاء کی نماز کے لیے وضو بنانے ابوجہل کے باتھ روم تک گئے تو واپس اپنی جگہ نہ آسکے،فرض اوپر ہی ادا کیے پھر نیچے آنے کا راستہ ملا۔ ستائیسویں شب کی تلاوت تراویح میں قیام اللیل،سُدیس کی طویل اور پُر سوزدعاکہ سارے ہال سے صرف رونے اور سسکیوں کی آواز سنائی دے رہی تھی یا اللہ تو ہم سب کی دُعائیں قبو ل فرما ،یہ آنسو، یہ آہیں یہ دل سے نکلی ہوئی آہِ پُر سوزاس رات کی کیفیات بیان کرنے کے لیے الفاظ ناپید۔اعتکاف تو ویسے بھی ایک خوبصورت عبادت ہے سب سے کٹ کر الگ تھلگ اپنے رب سےجُڑ جانے کا نام، روحانی کیفیات و لذتِ عبادت ، لذتِ گریہ، رکوع وسجود، حرم پاک میں اعتکاف کے کیا کہنے، دنیا کا اعلیٰ ترین مقام ااور سب سے افضل اعتکاف ،(دنیا میں سب سے افضل اعتکاف حرم کااور پھر مسجدِ نبویؐ کا)یہاں تنہائی توخیر نہیں ہوتی مگر عبادات کا ایک نہ ٹوٹنے والا تسلسل ،خاص طورپر رات کی عبادات کا ۔
        مغرب کی نماز ،نوافل،عشاء،تراویح پھر ایک گھنٹے کا وقفہ جس میں کچھ کھا پی کر وضو تازہ کر لیتے پھر ایک بجے قیامُ الیل،سدیس کی آواز میں طویل قیام وسجود، پھر اللہُ اکبر کی صدا یا ساتھ والی ساتھی کے کندھا ہلانے پرنیند کی وادی سے واپس آنا،سب سے خوبصورت چیزوتر کے درمیان طویل، پُر سوز اور مؤثر دُعائیں، وہ سارے لوگوں کا رونا ،آہ و زاری اور آمین آمین کہنا۔
        29ویں شب بھی طاق مگر ہجوم قدرے کم،پھر عید بھی متوقع تھی مگر خلافِ معمول عید کا اعلان نہ ہوا۔ایک د ن مزید اس گھر میں اعتکاف کی سعادت اور برکت حاصل ہوئی اور ہم اس طاق رات کی برکتوں سے فیض یاب ہوئے۔ یہاں کا جذبہ ہی الگ مختصر نیند کے باوجود چاق و چوبند،قیامُ الیل کے بعد تہجد کی اذان اورنماز،جلدی جلدی پیٹ پُوجا ، پھر اذانِ فجر نماز اور اشراق اس کے بعد سوئے تو لوگ کم ہونے کی وجہ سے ہال اتنا ٹھنڈا کہ نیند نہ آئے، اکثر لوگ قالین اوپر اوڑھ لیتے۔
        30ویں روزے پر عشاء کے فوراً  بعدصفائی والے آگئے ۔ہمیں زبیدہ آپا نے بتا دیا تھا کہ اپنا سامان اُٹھا لیناورنہ یہ اُٹھا کر پھینک دیں گے۔ ہم نے تُو سامان اُٹھا لیا لیکن بہت سے لوگ بے خبری میں مارے گئے اور گاربج والی گاڑی سامان اُٹھا کر لے گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے لوشن اور سرف سے فرش کی دُھلائی، صفائی اور نئے قالین بچھا دیے گئے۔ ہم سیڑھیوں پر بیٹھ کر دُعائیں مانگنے لگے۔ راحیلہ کہنے لگی جلدی آئیں عجب منظر ہے ،مرد حضرات نظر نہیں آرہے طواف میں صرف عورتیں ہی عورتیں۔ مرد شاید عید کے لیے تیار ہونے چلے گئے ہیں۔ایک خوبصورت منظر ہے ،جلدی چلیں۔میراقرآن ختم ہونے والا تھا، میں نے کہا یہ ختم کر کے اُٹھتی ہوں۔ راحیلہ لوگ چلے گئے طواف کے لیے، میں نے قرآن پاک ختم کر کے خوب خوب دُعائیں مانگیں اور پھر ناصرہ کے ساتھ طواف شروع کیامگر میں نے قرآن ختم کرنے میں یہ نادر موقع ضائع کر دیا۔ دوسرے چکر میں ایک دم سے ہجوم ویلغاراتنا رش کہ ہجوم اور گرمی کی وجہ سے سانس رُک رُک کے آنے لگی اور ہم رینگ رینگ کر طواف کرنے لگے۔ اس جمِ غفیر میں ناصرہ گھبراکر پُوچھنے لگی ،’’آنٹی آپ ٹھیک ہیں؟‘‘میں نے کہا ، ’’تم فکر نہ کرو اللہ کے فضل وکرم سے میں بالکل ٹھیک ہوں اور رش میں آسانی سے طواف کر سکتی ہوں۔‘‘ جن لوگوں نے ایسے دنوں میں یا چاند رات میں طواف کیا ہو وہ اس طواف کی کیفیت جان سکتے ہیں۔ بہر حال رینگتے ہوئے دُعائیں مانگتے ہوئے طواف مکمل کیا۔مقامِ ابراہیم کے پیچھے نفل پڑھے اورسیڑھیاں چڑھنے لگی تو گویا دنیا ہی بدلی ہوئی پائی،سارا مطاف لوگو ں سے بھرگیا، بڑے بڑے شیوخ کی بیویاں وہیل چیئر کے ساتھ صحن میں براجمان تھیں۔ سارا مطاف عربی اور مقامی لوگوں سے کھچاکھچ بھراہواتھا،یا اللہ یہ کیا، آگے بڑھے تو انڈین، انڈونیشیا، ترکی ہر ملک وقوم کے لوگوں نے اپنے اپنے بہترین قومی لباس زیبِ تن کر رکھے تھے۔ ہندوستانی مرد وخواتین کے کلف لگے کڑھائی سے مزین رنگا رنگ کُرتے،ٹوپیاں، بناؤ سنگھار ، پُوچھا یہ کیا تو پتہ چلا کہ عید کی نماز پڑھنے کے لیے یہ سب لوگ تیا ر ہو کر آگئے ہیں یا مظہر العجائب ہمارے ہاں تُو لوگ صبح سات بجے تیار ہوکر جاتے ہیں ابھی تُو رات کے گیارہ بجے ہیں ابھی سے عید کی نماز کے لیے؟
        بیس منٹ میں آئے تو اِکا دُکا خواتین، تھوڑی ہی دیر میں خواتین بھی تیار ہو کر آنے لگیں۔ ہر ملک ومِلّت کی خواتین رنگا رنگ لباس، بناؤسنگھار خاص طور پر سیاہ فام خواتین کی چمکتی آبنوسی رنگت،شوخ لباس اور بال بال موتی پروئے ہوئے،چھوٹی چھوٹی مینڈھیاں، سب نے مل کر ایک دوسرے کو اعتکاف مکمل ہونے کی مبارک باد دی۔ زبیدہ آپا نے کہا، “آج غسل ضرور کرنا ہے ہو سکےتو لباس بھی نیا پہننا۔” اللہ کی طرف سے یہ انعام وخوشی کا تہوار ہے، آج کی رات کی عبادت سب سے افضل، اللہ سے عیدی مانگنی ہے، لوگو یہ
شبِ قدرہے لہٰذا اوپر جا کے ہم نے غسل کیا ،تیا ر ہوئے عموماً  ہم دنیاوی تقریبات کے لیے تیار ہوتے ہیں لیکن آج حکمِ خداوندی اور سنت کے مطابق تیار ہونے کا اپنا مزہ ہے۔آپ نے دُنیا بھر کی چاند راتیں دیکھی یا سنی ہوں گی مگر میں دعوے سے کہتی ہوں کہ ایسی حسین چاند رات نہ دیکھی نہ سنی ہوگی، جگ مگ جگ مگ کرتا اللہ کا گھر، رنگ ونور کا سیلاب، روشنی ہی روشنی ، نور ہی نور، اندر بھی باہر بھی۔ جن لوگوں کو بھی یہ چاند رات نصیب ہوئی وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔سب کے چہرے خوشی سے دمک رہے ہیں، سب کی کوشش تھی کہ طواف کرلیں، طواف ہے کہ سیلِ رواں کی صورت ہے ہر لب پر ذکر ، تسبیح وتہلیل،درو دوسلام ،دُعائیں ، تمنائیں، اللہ سے عیدی، رات ایک بجے تک ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی،عرب شیوخ کی بیگمات وہیل چیئر پر(زیادہ تر موٹی تھیں تو وہیل چیئر پر ہی نظر آئیں ) اپنی سیاہ فام ملازم بچیوں کے ہاتھ مٹھائیاں اورٹا فیاں تقسیم کرنے لگیں۔قہوے کے تھرماس، طرح طرح کی ٹافیاں، چاکلیٹ، ہر کوئی اپنے طور پر کچھ نہ کچھ میٹھا دوسروں کو دینے اور نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف، ایک سر خوشی وسرشاری کی کیفیت۔ایک دوسرے کو مبارک باد اور تلقین کہ اللہ سے مزدوری مانگنے کی رات، مانگو مانگو تو کبھی ذکر وشکر تو کبھی لب خاموش اوردل سے صدائیں کہ تجھے سب پتا ہے ،تُو سب جانتا ہے کہ تُو دلوں کے بھید اور راز جاننے والا،آج اپنے گھر میں یہ سعادت،کیسی بہترین میزبانی، اعتکاف کی توفیق،یہ سب اعتکاف بھی میرے سوہنے رب تیری طرف سے بہت بڑا انعام ہے،بس تُو قبول کرلے۔
        ربّنا تقبّل مِنّا ربّنا تقبّل مِنّا۔
        اس طرح جیسے یہ کرم بن مانگے، سار ی دُعائیں بن مانگے، دین و دنیا کی نعمتیں، سار ی مشکلیں حل کر دے ۔جنت، جنت کی نعمتیں،کبھی اللہ سے سرگوشیاں کبھی سجدے میں رو رو کرکبھی با آوازِ بلند کبھی آنسوؤں کی زبانی وترجمانی، کبھی حمد بھرے دل و شکر کے گہرے احساس کے ساتھ، اس چاند رات کی خوشی، اس وارداتِ قلبی اور روحانی کیفیات کو کیسے بیان کروں۔ نہ ہم غالب نہ انیس کہ”اک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھیں”۔
ہم نے تو جو کچھ پایا، دیکھا ،محسوس کیا شائد ہی ا س کی تر جمانی کر پائیں،اسی طرح دُعائیں مانگتے، ذکر کرتے غنودگی سی طاری ہونے لگی کہ نمازِ فجر کی اذان گونجی،نمازِ فجر ادا کی تو تکبیریں شروع ہو گئیں، وقفے وقفے سے مختلف لوگوں کی تکبیریں،تکبیریں سن کر انوکھی سی کیفیت جیسے کائنات تھم جائے گی،ایک خاموشی ، سناٹا اور ا س خاموشی میں تکبیریں ان کی گونج یوں محسوس ہو جیسے قیامت آنے والی ہے۔خاموشی ،تکبیریں اور نمازِ عید کا انتظار ، سنا کہ شاہ آئیں گے تو نمازشروع ہو گی۔ بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور عید کی نماز پڑھائی گئی،نماز کے بعد دوبارہ دعائیں۔
        اتنے دنوں اعتکاف والوں کے ساتھ رشتہ ِ الفت بن گیا تھا، ان سے ملنا اوردعاؤں کی درخواست کے ساتھ الوداع کہنا،ابھی مل ہی رہے تھے کہ حاجی صاحب آگئے کہ بس جلدی چلو بہت تھکاوٹ ہو گئی ہے۔ ابھی دل نہیں چاہ رہا تھا با دل نخواستہ باہر نکلے تو ہجومِ بے کرا ں و بے پناہ،معمول سے ہٹ کربنے،سجے سنورے لوگ، ملک ملک کے لباس و فیشن اور مولانا صاحب کا با ر بار خطبے میں کہناکہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے تو آ ج اس خوشی کے خاص موقعے پر سب خالصتاً رب کی خاطر تیار ، حسین وجمیل،بنے سنورے،ہوٹل قریب ہی تھا مگر اس بھیڑ میں راستہ بناتے چلتے ہوئے ہوٹل پہنچنے تک کافی دیر ہو گئی،پھر جو ناشتہ کر کے سوئے تو ظہر کے قریب آنکھ کھلی۔ عصر کی نماز کے لیے حرم گئے تو خیال آیا کہ آج حرم میں ویسا ہجوم نہیں ہو گا،باہر حرم خالی، طواف میں ویسا ہی رش، مگر بیسمنٹ خالی اعتکاف والے سارے ساتھی کوچ کر گئے۔ عید کی اس شام اپنی مخصوص جگہ پر نماز پڑھی جہاں اعتکاف کیا تھا تو اعتکاف کے ساتھیوں کو یاد کر کے اداسی طاری ہوگئی۔خالی قالین،ٹوٹی ہوئی اور سالم کرسیوں کے ڈھیر وہ کرسیا ں جو ڈھونڈنے سے نہیں ملتی تھیں۔عید کے دوسرے دن طواف اور طوافِ وداع ،روتے ہوئے اس دعا کے ساتھ کے پھر بھی ایسے مواقع نصیب ہوں ۔ ابھی ہمارے جانے میں دو دن باقی تھے مگر ہمیں جدہ جانا تھاجہاں ہمار ی سمدھن اپنی بیٹی کےساتھ ٹھہری ہوئی تھیں اور اپنی بہن اور ہماری منتظر تھیں۔ ان کی بیٹی اور داماد عبدالغفور نے خوب آؤ بھگت کی،جدہ میں اعتکاف کی ساتھی عالمہ آپا زبیدہ تھیں۔ ان سے رابطہ کیاعبدالغفور سے کہا مجھے آپا زبیدہ کے پاس جانا ہے اور حجامہ بھی کروانا ہے۔ اللہ خوش رکھے و ہ مجھے زبیدہ آپا کے پاس لے گئے۔ ان کے گھر کی بے شمار سیڑھیاں چڑھ کے اوپر پہنچےتو انہوں نے اور ان کی بہو نے خوش دِلی سے استقبال کیا ،کہا کہ مجھے یقین تھا کہ میں نے ہی حجامہ کے بارے میں بتایا ہے تو نصرت ضرور آئے گی۔
        ان کی بہو نے ہی حجامہ کیا۔ میں نے سب سے پہلے سنت کے مطابق گردن پر کروایا۔ کپ لگاکر انہوں نے بے شمار کٹ لگائے میری بیٹی کی نندیہ دیکھ دیکھ کر پریشان اور تکلیف میں مبتلا، اتنی ڈرپوک مگر سنت پر عمل کرتے ہوئے دل مطمئن و پُر سکو ن،انہوں نے زخموں پر ایک دو دن شہد لگا نے کو کہا۔حجامہ سنتِ رسولؐ اور ایک حدیث کے مطابق یہ ستر بیماریوں کا علاج ہے لہٰذا سنت پہ عمل کر کے روحانی مسّرت و خوشی سے ہم کنار ہوئے۔
        ان کے مدرسے سے نکل کر ساحلِ سمُندر پر گئے، راستے میں کھانا ہوٹل سے لیااور سمندر کے کنار ے ٹھنڈی سمندری ہواؤں میں کھاناکھایا ،شام آہستہ آہستہ اُترنے کو تھی۔سمندری پانی ،ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں د ل ہی د ل میں اللہ تعالیٰ کی ان تما م نعمتوں کا شکر ادا کیا۔ وہاں سے نکلے تو رات ہو چکی تھی ۔پھر مختلف مالز میں گئے اور خوب گھوم پھر کر رات کو واپس آئے۔ دوسر ے دن دوپہر کو فلائٹ تھی،ناشتہ کر کے ائیر پورٹ پہنچے، اللہ کے گھر کی میزبانی واعتکاف،درِنبویؐ  پرچند روزے اور بہترین میزبانی اور آخر میں جدہ کی سیر، یا اللہ تیرا شکر
بے حد وبے حساب کہ تُو نے ایسا خوبصورت رزق ،آبِ زم زم ،کھجوراور انواع و اقسام کی بے شمار نعمتیں ہمیں عطافر مائیں۔اللہ کے در پر اعتکاف کی سعادت ، چاند رات، عید کا دن غرض کس کس چیز کا کس زبان اور کس طرح شکر اد اکریں، دل تشکر سے معمور،احسانوں سے خمیدہ ومسجود،مگر پھر بھی ’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘۔
        ہاں پھر ایک اور سنّتِ نبویؐ پر عمل کرنے کی توفیق یعنی حجامہ،یا اللہ اس گھر کی برکت سے اپنے پیارے نبیﷺ  کی ہر سنّت پر عمل کرنے والا بنا دے، مجھے اور میر ے بچوں کو بار بار تیرے در پہ آنانصیب ہو، اور خاص کر رمضانِ کریم کی مبارک ساعتوں میں۔ 22، 23 دنوں کے بعد گھر جانے کی خوشی بھی اور اداسی بھی،خوشی اور غم کے جذبات گڈمڈ،جہاز نے سر زمینِ حجاز کو چھوڑا اوراس مقدس سر زمین سے اُٹھے تو آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے۔ دل میں شکر کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، دِل سپاس گزار اور شکر گزارکہ عمرے تو بہت کیے تھے مگر اللہ کے گھر اعتکاف کی خواہش پُوری ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی حرفِ آخر کے طور پر اپنے قارئین سے درخواست ہے کہ اگرمالی استطاعت ہو تو فوراً حج وعمرہ کر لیں یہ مت کہیں کہ یہ کام ہے وہ کام ہے، یہ ذمہ داریاں پُوری کر لیں  گےتو جائیں گے۔اللہ کا وعدہ ہے کہ جو اس گھر کا عمرہ و حج کر ےگا، وہ کبھی تنگ دست نہیں ہوگا۔ آپ گھبرائیں نہیں عمل کر کے دیکھیں انشاء اللہ زندگی کے تمام مسائل ختم ہو جائیں گے اور اگر نہ کریں تو ہو سکتا ہے کہ چند سالوں میں آپ کے پاس پیسہ بھی ہو اور فرصت بھی مگر صحت اور چلنے پھرنے کی طاقت نہ ہو، اپنی جوانی میں ہی اس فرض سے سبکدوش ہو تو بہتر ہے کہ فر صت کا انتظار کرنا ہو تو وہ مرتے دم تک نہیں ملتی، نہ زندگی کے جھمیلے ختم ہوتے ہیں،بس لبیک کہیں اور زندگی کی سب سے خوبصورت جگہ جائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact