ابن اشرف تنولی
نماز جمعہ جو کہ ہماری اہم ترین عبادت ہے اکثر بدنظمی اور بد انتظامی کا شکار ہو جاتی ہے۔ہم اکثر سنتے رہتے ہیں کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے جب کہ اپنا حال یہ ہے کہ دیگر عبادات پر تو کبھی حکومت نے توجہ ہی نہیں دی اور نہ ہی کبھی کسی نے توجہ دلانے کی کوشش کی سوائے حج عمرہ کے کہ ان سے نہ صرف یہ کہ زرمبادلہ اکٹھا ہوتا ہے بلکہ بہت سے میرے جیسے مذہب پسندوں کا بھی اسی سے دال دلیہ چلتا ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی نماز جمعہ کی تو اکثر دوران سفر بھی یہ بات مشاہدے میں آئی اور مقامی سطح پر بھی ایسے کہی واقعات دیکھے کہ نماز جمعہ کے وقت مسجد ، راستے ، کاروباری مراکز ، نمازی حضرات سمیت مقامی آبادی بھی متاثر ہوتے ہیں۔جب ایک عبادت مسلمہ ہے اور اجتماعیت کی علامت بھی ہے تو کیوں ہمارے مذہبی رہنماء حکومت وقت کی توجہ اس عبادت کی طرف نہیں مبذول کرواتے کہ اس عبادت کو اس کے میعار کے مطابق ادا کرنے کے لیے بہترین انتظامات کرے۔نماز جمعہ کے لیے مخصوص مساجد کے لیے نمازیوں کی گنجائش ، وضو خانوں کا معیار ، پارکنگ اور مسجد کو آنے جانے والے راستوں کی کشادگی کا خیال رکھا جائے یہ کیا کہ ہم ایک آزاد اسلامی ملک میں رہتے ہوئے کسی مقبوضہ علاقے کی طرح پارکوں، پلازوں کی پارکنگ ، مسجد کے واش روم کی چھتوں،سڑکوں ، گلیوں میں نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔نماز پڑھنے والے بے چاروں کے آنے جانے والوں کو دھکے، نماز کی بے حرمتی ، نمازیوں کی گاڑیوں کی وجہ سے راہگیروں کو تکلیف اور اکثر مقامات پر پیدل چلنے والوں کو تکالیف۔عرض ہے کہ خشوع وخضوع کے ساتھ عبادت کرنا ہر شہری کا برابر کا حق ہے اور اس سلسلے میں کوئی بھی رکاوٹ نہیں ڈالی جا سکتی۔جہاں تک بات ہے انسانی بساط کی تو ہر مسجد کی انتظامیہ کی کوشش ہوتی کہ وہ نمازیوں کو بہتر سہولیات فراہم کرے۔مگر یہ چند افراد کے بس کی بات نہیں اس لیے حکومتی مشنری کو چاہیے کہ اس حوالے سے خاطر خواہ اقدامات کرے تاکہ نمازیوں کی عبادت میں خلل نہ آئے اور نماز کے اوقات میں راہگیروں بالخصوص خواتین کو تکالیف نہ برداشت کرنی پڑے۔
اس حوالے سے ہمارے مذہبی رہنماؤں کو بھی دل بڑا کرنا پڑے گا ہرچند کہ ہر عالم دین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خطابت بھی کرے اور نماز جمعہ کی امامت بھی کرے لیکن انتظامی بنیادوں پر اگر نماز جمعہ کے لیے مل بیٹھ کر جامع مساجد کا ایک مکمل نقشہ بنایا جائے اور صرف مخصوص مساجد جو نمازیوں کے لیے ہر طرح کی سہولیات آسانی سے فراہم کر سکتی ہوں ان کو ہی جامع مسجد ڈکلیئر کیا جائے تو حکومت کے لیے جامع مساجد کو سہولیات فراہم کرنا آسان ہوگا۔بصورت دیگر نمازیوں کی عبادات میں خلل واقع ہوتا رہے گا اور نمازی حضرات غیر ضروری اذیت برداشت کرتے رہیں گے۔ جس کا نہ تو حکومت کو ہی کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی آئمہ مساجد کو۔اس سلسلے میں محکمہ اوقاف اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔کیونکہ تمام مکاتب فکر کے علماء کا اس پر اعتماد ہے۔اگر اس محکمے کے درد دل رکھنے والے افسران کو متوجہ کیا جائے تو نمازی حضرات کا سلسلہ عبادت تماشا بننے سے رک سکتا ہے۔ہمارے اکثر مذہبی رہنماء اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ نمازیوں کے لیے مسجد میں ضروری سہولیات میسر ہیں کہ نہیں۔بس شوق خطابت اور مسجد کے اوپر جامع مسجد کا سابقہ وہ کچھ کرنے پر مجبور کردیتا ہے کہ نمازی بے چارے پلازوں کی چھتوں ، مارکیٹوں میں اپنی عارضی سہولیات سے عبادت کر رہے ہوتے ہیں۔جب کہ ہماری حکومت کے پاس اتنی وسیع زمین بے کار پڑی ہوئی ہے کہ بیک وقت پورا شہر بھی نماز کے لیے امڈ آئے تو کافی ہو مگر ہمیں اپنی عبادات سے دلچسپی ہوتو تب نا اور سب سے آخر میں مسجد کے اندر اور باہر بھکاریوں کی رش الگ اذیت سے دوچارکر رہی ہوتی۔امید ہے کہ ہمارے متعلقہ محکمے اس طرف توجہ فرمائیں گے
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.