تاریخی مادیت کی روشنی میں میریوری معاشرے کا ایک عمومی تعارفی جائزہ

معاشرہ اور معاشرتی تبدیلی  ۔۔ سلسلہ وار کالم  (قسط سات )

شمس رحمان
پیداواری قوتیں
پیداواری قوتوں سے مراد وہ تمام قوتیں لی جاتی ہیں جو پیداوار کے عمل میں شامل ہوتی ہیں یعنی جو پیداوار کرتی ہیں۔ پیداواری قوتوں کا مرکز اور بنیاد انسانی محنت ہوتی ہے۔ کیونکہ انسانی محنت کے بغیر  خام لکڑی  اور پتھر کو ہاتھوں سے استعمال کرنے سے لے کر آج مصنوعی ذہانت تک کا سفر ممکن نہیں تھا۔ یہ محنت جسمانی بھی ہوتی ہے اور  دماغی بھی۔ آسان لفظوں میں  پیداوار  ی قوتیں پیداوار کے ذرائع، پیداوار کے  آلات اور انسان کی محنت کے  اشتراک یا مجموعے پر مشتمل ہوتی ہیں۔ پیداوار کے معیار کا انحصار پیداواری قوتوں کے معیار پر ہوتا ہے۔
اب اگر ہم شکاری معاشرے میں پیداواری قوتوں کو تلاش کریں تو  شروع میں ہمیں   پیداواری قوتوں میں انسانی ہاتھ پاؤں، دماغ  اور قدرتی قوتیں شامل تھیں جن کے استعمال سے   کھانے پینے اور حفاظت کے لیے درکار اشیاء حاصل کی جاتی تھیں۔ اس مرحلے پر انسان پیدا کچھ نہیں کرتا تھا بلکہ جو کچھ قدرت کی طرف سے پیدا کیا ہوا تھا اس کو استعمال کرتا تھا۔ ساری محنت اورہنر مندیاں جو کچھ ارد گرد    موجود  تھا اس کو حاصل کرنے اور استعمال کر نے  کے لیے درکار ہوتی تھی۔
لیکن جب انسان نے  ہاتھوں سے لکڑی  کے ڈنڈے اور پتھر استعمال کرنا شروع کر دیے تو یہ پیداواری قوتوں میں  پہلا انقلابی اضافہ تھا ۔   ہاتھوں کے  لچکدار اور ” آزادانہ” استعمال کے بعد  اشرف المخلوقات کے سفر کا یہ  دوسرا مرحلہ تھا ۔   اس  سے انسان کو    یقیناً  ارد گرد کے جانداروں پر  مزید  برتری یعنی اشرفیت   حاصل ہو گئی۔ کاشتکاری سیکھنے کے  بعد  پیداواری قوتوں میں انسانی جسم و دماغ کے ساتھ ساتھ پتھر اور لکڑی کے بنے  ابتدائی آلات اور اوزار   بھی شامل ہو گئے جن میں بتدریج  مسلسل استعمال اور اس استعمال کرنے کے عمل سے سیکھ سیکھ کر مزید اضافہ اور بہتری آتی گئی۔ ارتقاء کا عمل نہ صرف مسلسل  جاری و ساری رہا بلکہ تیز اور پیچیدہ  ہوتا گیا۔
موجود ہ عہد میں صنعتی معاشروں میں پیداواری قوتوں میں   ارتقاء کے طویل سفر کے دوران بہترین سیکھے ہوئے دماغ  نے اب دماغ سے باہر دماغ  (مصنوعی زہانت)   ایجاد کر لیا ہے۔ جس طرح پہلی بار  پاؤں پر کھڑا ہو کر ہاتھ استعمال کرنے کے عمل نے انسانی ارتقاء میں انقلابی تبدیلی کی تھی  اور اسے ارد گرد کے ان جانوروں پر فوقیت عطا کر دی تھی جو دو قدموں پر کھڑے نہیں ہو سکتے تھے اور ہاتھوں کو خود مختاری سے استعمال نہیں کر سکتے تھے  اور جس طرح ہاتھوں سے ڈنڈا یا پتھر استعمال کرنے کے ہنر نے انسان کو مزید  طاقت ور بنا دیا تھا  یعنی  انسان کے ہاتھ لمبے ہو گئے تھے اور کئی ہزار سال بعد  جس طرح  چھاپہ خانے نے   علم اور فہم و فراست کو  عام آدمی تک پہنچانے کا سفر شروع کیا تھا اسی طرح مصنوعی ذہانت در حقیقت انسانی دماغ کی  انقلابی وسعت ہے جو کہ ارتقاء کے سفر  کو مزید تیز اور وسیع کر دے گی۔
اس کو  پھر سے خلاصہ کر کے پڑھ لینا مفید رہے گا۔ انسانی تاریخ کے شروع زمانوں میں ( جو کہ ملین سالوں پر محیط تھے)  زیادہ استعمال انسانی جسم کا ہوتا تھا لیکن جوں جوں ابتدائی آلات  سے لے کر زندگی کی پیچیدگی اور  تنوع ( رنگا رنگی) میں اضافہ ہوتا گیا  دماغی صلاحتیں بھی کھلتی چلی چلی گئیں اور اب تو ہم جس زمانے میں رہ رہے ہیں وہاں دنیا کے کچھ ممالک کے کچھ حصوں میں تو جسمانی محنت پر دماغی محنت غالب آ رہی ہے اور جسمانی طور پر انسان کے پاس  فرصت اور تفریحی سے لطف اندوز  ہونے کے لیے زیادہ وقت ہوتا ہے۔   البتہ وسائل کی غیر مساوی تقسیم ، سامراجی راج اور سرمایہ پرستی کے باعث دماغی ترقی کے شاہکار انسانوں کی اکثریت کو میسر نہیں اور اربوں انسانوں کی زندگیاں چند صدیاں قبل کے عہد میں پھنسی ہوئی ہیں۔ بقول ارون دتی رائے  آج کی دنیا ( انہوں نے ہندوستان کے حوالے سے کہا تھا)  میں کئی صدیاں اکٹھے جی رہی ہیں۔  پیداواری قوتیں جسمانی و دماغی قوتوں کے امتزاج  پر مشتمل ہوتی ہیں۔ پیداواری قوتوں میں ترقی سے پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر تقسیم کا نظام اچھا ہو تو خطے کی آبادی کی خوراک  میں بہتری آتی ہے اور ان کو دماغی  قوتوں کے مزید بہتر استعمال سے پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے سوچ و  وچار اور غور و خوض کے لیے زیادہ وقت اور مواقع ملتے ہیں جس کے نتیجے میں پیداواری قوتوں میں مزید بہتری آتی ہے اور یوں پیداواری قوتوں کے ارتقاء میں تیزی آ جاتی ہے جس کے نتیجے میں پھر پیداوار  کی مقدار اور معیار میں بھی مزید  بہتری  پیدا ہوتی اور یوں یہ سلسلہ انسان کو ‘ ستاروں پر کمند ڈالنے ‘  اور  ‘ دماغ سے باہر دماغ’ کی  ایجاد تک لے آیا ہے   اور رکا نہیں ہے۔  کچھ ایسی ہی سوچوں سے کئی سال قبل میرے  دماغ میں یہ شعر پیدا ہوا تھا۔
ہو جائے گی خدا سے بھی ملاقات ایک دن
کھلتے جاتے ہیں اسرار آہستہ آہستہ
میرپور میں پیداواری قوتوں کو دیکھیں تو  1960  کے عشرے تک یہاں کے کاشت کاری سماج  میں روزی پیدا کرنے کے لیے  پتھر  کے زمانے سے لے کر لوہے کے زمانے کے اوزار استعمال ہوتے تھے جن کو استعمال کرنے کے لیے انسانی محنت زیادہ تر جسمانی تھی ۔ تاہم پیداوار کو قائم رکھنے اور بہتر بنانے کے لیے اپنے مخصوص مادی حالت کی مناسبت سے دماغی محنت بھی ہزاروں سال تک   ارتقاء کا سفر کر کے اتنی ترقی کر چکی تھی کہ اوزراوں اور ہتھیاروں کو نہ صرف بہتر شکل دی جا چکی تھی بلکہ ان کے استعمال کے بھی کئی رنگ ڈھنگ سیکھے جا چکے تھے۔  کیونکہ  اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرح سے تخلیق کیا ہے کہ وہ جو عمل کرتا ہے  وہ اس کے دماغ میں محفوظ ہو جاتا ہے جس کو یاداشت کہا جاتا ہے۔ اس لیے اول روز سے انسان نے جو عمل کیا  وہ اس کی یاداشت میں محفوظ ہوتا گیا اور مسلسل عمل سے  وہ سیکھتا چلا گیا۔
اگر غور کریں تو  زندگی کے ہر شعبے میں  ہر علاقے میں اپنے اپنے مقامی ‘عالم’   موجود تھے  جو زمینداری سے لے کر صحت و تندرستی اور  ہنر و کاریگری کے میدانوں میں ماہرانہ علم رکھتے تھے۔ جن کومقامی زبان و ثقافت میں ‘ سیانے ‘ کہا جاتا تھا۔ پیداوار چاہے زمین سے اناج کی شکل میں ہو یا مختلف ہتھیار اور اوزار استعمال کر کے ارد گرد موجود  قدرتی  طور پر موجود اشیاء جیسے مچھلی، شہد،  جانوروں اور مفید و قیمتی  جڑی بوٹیوں  کا شکار یا لوہے، دھاتوں بشمول سونے سے ہتھیار اور زیورات بنانے کے ہُنر،   ان میں سے ہر ایک ہنر کے نام ور ماہرین موجود تھے ۔ بدقسمتی سے اور کئی مادی و سیاسی اندرونی اور بیرونی  وجوہات  کی بناء پر ہمارے یہ عظیم مقامی  ‘سیانے’ اپنا علم کسی تحریری شکل میں نہ لا سکے اور سینہ بسینہ بھی یہ ہم تک نہ پہنچ سکا کیونکہ تحریری علم  خاص طور سے نصاب تعلیم جو رائج ہو ا  وہ  مقامی معاشرے یا مقامی ماہرین سے حاصل نہیں کیا گیا تھ بلکہ ہزاروں میل دور معاشروں سے درآمد کیا ہوا تھا اور اب بھی ہے۔
میرے خیال میں پیداواری قوتوں کا تصور اب کافی حد تک واضح ہو گیا ہے کہ پیداواری قوتیں کیا ہوتی ہیں ۔  پیداوار کے لیے استعمال ہونے والی انسانی محنت اور اس سے استعمال ہونے والے آلات ، ہتھیار اور اوزار۔
اب  آگے بڑھتے ہیں پیداواری عمل کے  اس پہلو کی طرف جو درحقیقت یہ کتابچہ لکھنے کی بنیادی وجہ بنا ۔ یہ پہلو   ہے پیداواری تعلقات ۔ کیونکہ ہمارے ہاں ( میرپور آزاد جموں  کشمیر )  میں تیز رفتار  معاشرتی  تبدیلیوں کی وجہ سے  ہر کوئی اس بارے میں فکر مندی کا اظہار کرتا ہے ۔  ان تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے کئی وجوہات اور نظریات پیش کیے جاتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ان سب سے گذرا  ہوں ۔ تاہم تاریخی مادیت کا نظریہ پڑھنے کے بعد مجھے  لگا کہ اس نظریے کی روشنی میں میرپوری معاشرے میں تبدیلی کا  بظاہر پیچیدہ اور دھندلا  عمل خاصا  صاف اور واضح  سا نظر آتا ہے ۔ اس کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ     انسانوں کے  درمیان تعلقات کا تانا بانا ہی ہے جو معاشرہ تشکیل دیتا ہے یعنی جس سے معاشرہ بنتا ہے۔ یعنی  کسی بھی معاشرے کی بنیاد پیداواری تعلقات پر ہوتی ہے۔ اور معاشرتی تبدیلی ان پیداواری تعلقات میں تبدیلیوں ہی  کا نام ہے۔ معاشرتی تبدیلی کی اس بنیاد  یا مرکز کو سمجھ لینے کے بعد اس کے اثرات کو سمجھنا اور پھر ان کے مطابق بہتر اور مفید حکمت عملیاں اور پالیسیاں بنانا بھی آسان ہو جاتا ہے۔
پیداواری تعلقات
پیداواری تعلقات سے کیا مراد لی جاتی ہے یعنی پیداواری تعلقات کن تعلقات کو کہا جاتا ہے- جیسا کہ اوپر اشارہ کیا   تاریخی مادیت کی عینک جو یہاں استعمال کی جارہی ہے   اس  میں سے  معاشرے کی بنیاد ،  معاشرے کی عمارت  یعنی تعلقات  اور مفادات کے تانے بانے   کے نیچے    روزی روٹی پیدا کرنے کے عمل یعنی پیداواری عمل کے دوران پیدا ہونے اور پروان چڑھنے  والے تعلقات سے   تعمیر ہوئی ،   ہوئی نظر آتی ہے۔ سادہ الفاظ میں پیداواری تعلقات ان تعلقات کو کہا جاتا ہے جو پیداوار کے لیے  پیداواری عمل کے دوران اس  میں شریک افراد    کے درمیان  پیداواری قوتوں (پیداوار کے زرائع،  آلات یعنی ہتھیار  ،  انفرا سٹرکچر ( راستے ۔ سواری )  اور تکنیک(  طریقے ) وغیرہ)  کو تخلیق کرنے کے  اعمال کی کوکھ سے جنم لیتے  یعنی    پیدا ہوتے اور پروان چڑھتے  ہیں۔
معاشرے میں تعلقات کے پیچیدہ تانے بانے کا جال    یعنی مختلف  اداے    درحقیقت ان تعلقات  سے بُنے اور بنے ہوئے ہوتے ہیں۔
اب آئیے پہلے  پیداواری تعلقات کے تصور کو مزید وضاحت سے  سمجھتے ہیں کہ  کن تعلقات کو پیداواری تعلقات کہا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد دیکھیں گے کہ میرپور میں 1947 سے پہلے  پیداواری تعلقات  کیا تھے؟
ان تعلقات کا  اہم پہلو یہ ہے کہ یہ رضاکارانہ نہیں ہوتے یعنی ان میں شریک افراد اپنی مرضی سے ان میں شریک نہیں ہوتے بلکہ ان کے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو اس حیثیت میں وہ کام کرنا پڑتا ہے۔یعنی یہ تعلقات  مجبوری ہوتے ہیں۔   کیونکہ  فرد کے پیداواری  عمل میں شریک  ہوئے  بغیر   اس کی بقاء خطرے میں پڑ جاتی ہے۔  یعنی یہ شعوری طور پر نہیں بلکہ ضرورت کے تحت ہوتے ہیں۔  جب کہا جاتا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے تو انسان کی  سب سے  اولین ترین  معاشرتی   ‘ ایجاد  ‘  شاید     مل کر غذا حاصل کرنا اور مل کر کھانا اور اس دوران مل کر حملہ کرنا یا دفاع کرنا تھا۔ پیداوار کے یہ ابتدائی ترین تعلقات شعوری کم اور جبلتی زیادہ تھے ۔ تاہم شعور کا سفر وہاں سے شروع ہو گیا تھا۔ اس ابتدائی عہد میں انسان   مکمل طور پر قدرت کا محتاج تھا۔ خوراک کے لیے بھی اور موسم کے اعتبار سے بھی ۔ ابھی وہ بات چیت کر سکنے کے قابل بھی نہیں ہوا تھا۔
جیسا کہ اوپر اشارہ کیا  زندگی کے سفر میں پیداواری قوتوں کی پیچیدگی میں اضافے کے ساتھ ساتھ پیداواری عمل اور  اس وجہ سے پیداواری تعلقات اور ان سے پیدا ہونے والے شعور اور اس کی روشنی میں قائم ہونے والے روزی حاصل کرنے اور اس کو تقسیم کرنے کے    معمولات قائم ہوئے۔ ان  معاشی ضروریات اور سرگرمیوں کے ذریعے  تاریخ کے مختلف مراحل پر  ہر ایک علاقے میں  اس کے اپنے جغرافیائی، موسمی، اور پیداواری قوتوں کی مناسبت سے رشتے ناطے، خاندان، ٹبر، قبیلے ، برادریاں  پروان چڑھے ۔ بتدریج  قواعد و ضوابط ، رسوم و رواج، اقدار، قوانین،  اداروں اور انتظام و انصرام میں بھی پیچیدگی آتی گئی ۔   یعنی ریاست قائم ہو گئی ۔  دنیا کی پہلی ریاست حضرت عیسیٰ  کی پیدائش سے کوئی  چھ ہزار سال قبل  میسوپوٹومیہ میں  قائم ہوئی  ۔ اس کا بادشاہ حمو رابی تھا جس کو دنیا کا پہلا قانون  ساز  مانا جاتا ہے ۔ ریاست کا  بنیادی کام زمین اور اس سے ہونے والی پیداوار کا زیادہ سے زیادہ حصہ سرکاری  (حاکم کے ) خزانے  میں پہنچانا ہوتا تھا۔ اس کے لیے مختلف ادارے وجود میں آئے اور ارتقاء پذیر ہوئے۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact