توہین خدا کا مقدمہ: کیا یہ خدا اور مذہب کا معاملہ ہے؟ تاثرات: شمس رحمان

توہین خدا کا مقدمہ: کیا یہ خدا اور مذہب کا معاملہ ہے؟ تاثرات: شمس رحمان

تاثرات: شمس رحمان
چند دم قبل عاصمہ بتول کی گرفتاری کی خبر پڑھی ۔ وجہ یہ کہ انہوں نے کوئی گستاخانہ نظم شئیر کی تھی۔ پھر پوسٹیں بڑھتی رہیں، کمنٹس بھی اور اس معاملے پر بہت سے زاویوں سے مختلف آرا بھی۔ پھر وہ نظم بھی سامنے آگئی جس  کو شئیر کرنے پر عاصمہ کے خلاف آئین کی دفعہ ۲۹۸ اور ۴۸۹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔   تفصیلات کے مطابق عاصمہ کے بعد نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک اور طالب علم رہنما  ارسلان شانی کے خلاف بھی یہ نظم شئیر کرنے پر مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ مقدمہ درج کرنے اور گرفتاری کی درخواست  اس کے خلاف ایک مذہبی جماعت کے مقامی رہنما نے شکایت کی تھی کہ عاصمہ کو خدا اور مذہب کی شان میں گستاخی کی پاداش میں گرفتار کیا جائے۔
کچھ دیر بعد کسی نے وہ نظم بھی شئیر کر دی جس کو شئیر کرنے کی پاداش میں عاصمہ اور ارسلان پر مقدمے درج کیے گئے اور عاصمہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری سے پہلے مذہب کی توئین پر مشتعل مردوں کے جتھوں کی طرف سے عاصمہ کے گھر کے باہر جمع ہو کر نعرے لگانے اور دھمکیاں دینے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا جس کے بعد عاصمہ نے خود گرفتاری دے دی کیونکہ بقول ان کے بھائی پولیس کی حراست میں کم از کم اس کی جان تو محفوظ ہو گی۔ یعنی اگر وہ گرفتاری نہ دیتی تو مشتعل افراد کے  ہاتھوں اس کے قتل کے امکانات  بڑھ رہے تھے۔
کچھ دیر بعد وہ نظم بھی شئیر ہونے لگی۔ جو یہ تھی
‏خُدا ،بھگوان، ایشور ،اللہ سب موجود تھے
‏جب میرا ریپ ہوا
‏میری أنکھوں سے خون بہنے سے لمحہ پہلے میں نے دیکھا
‏سب شرمندگی سے نظریں چُرا رہے تھے
‏کہ اس قدر ناقص تخلیق
‏اور اس پر خالق ہونے کا فخر
‏جب میرا گلہ دبایا گیا
‏خُداؤں نے میری چیخ سُن کر
‏کانوں پر رکھ لیے
‏کہ ان کی سماعتیں نہ چر جائیں
‏میں پُکارتی رہی پر کوئی خُدا بچانے نہیں آیا
‏کیونکہ ، خُدا بھگوان اور ایشور
‏سب مرد ہیں !

کسی نے لکھا کہ یہ نظم کسی ہندوستانی شاعر کی ہے جو اس نے چند روز قبل بھارتی ریاست بنگال کے شہر کولکتہ میں ایک ڈاکٹر کی اجتماعی عصمت دری کے واقعے پر لکھی تھی۔ کسی نے لکھا کہ نہیں جی یہ نظم پاکستان کے ایک شاعر اور شہرہ حقوق کے علمبردار سلیمان حیدر کی ہے۔ میں نے اس پر مزید کھوج نہیں لگایا کہ یہ نظم کس کی ہے۔ تاہم میں نے اس کے معنی پر بہت غور کیا۔ کیونکہ کشمیر کے علاقہ عباس پور کی عاصمہ بتول کو یہ نظم شئیر کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔

میں نے اس کی نثر بنائی تو یوں بنی
جب میرے ساتھ جبری زنا  یعنی زنا بالجبر ہوا تو خدا، بھگوان اور ایشور سب موجود تھے۔ میری آنکھوں سے خون بہنے سے ایک لمحہ پہلے میں نے دیکھا کہ سب نظریں چُرا رہے تھے کہ اس قدر ناقص تخلیق کی  خالق ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ جب میرا گلہ دبایا گیا تو خداوں نے میری چیخ سُن کر کانوں پر ہاتھ رکھ لیے تاکہ ان کی سماعتیں چرا نہ جائیں۔ میں پکارتی رہی لیکن  کوئی خدا بچانے نہیں آیا۔ کیونکہ خدا بھگوان اور ایشور سب مرد ہیں۔
مجھے یاد آیا کہ ہاں انڈیا میں ایسا واقعہ ہوا تو تھا۔ چونکہ میں کل وقتی سیاسی کارکن یا حقوق انسانی کا کارکن نہیں ہوں اس لیے بہت سے واقعات کی خبر پڑھنے کے بعد کسی اور کام میں مصروف ہو جانے سے تفصیلات نہیں معلوم ہو پاتیں۔ اگلے روز کوئی اور پھر اسی روز یا اس سے اگلے دن کوئی اور واقعہ یا حادثہ رونما ہو جاتا ہے اور زندگی آگے بڑھ جاتی ہے۔ تاہم آج کی ڈیجیٹل اور آن لائن دنیا کا کمال یہ ہے کہ جو کچھ آپ کی یاداشت یا لائبریری میں نہیں ہوتا وہ بھی دسترس میں ہوتا ہے۔
میں نے گوگل کی پوچھنے والی کھڑکی پر جا کر لکھا، بھارت ، بنگال، ڈاکٹر ، ریپ۔  سینکڑوں خبریں ، کالمز، اور اس واقعے پر احتجاجی مظاہروں کی خبریں سامنے آگئیں۔
مضمون کی غیر ضروری طوالت سے بچنے کے لیے میں اس واقعے کی تفصیلات یہاں بیان نہیں کروں گا ۔ تاہم اتنا کہوں گا کہ مغربی بنگال کی ریاست میں ہونے والے اس واقعے میں بی بی سی کے مطابق تربیتی ڈاکٹر کو پہلے قتل کیا گیا اور پھر اس کا ریپ کی گیا۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ مذکورہ نظم سلیمان حیدر یا جس کی بھی ہے اس ریپ کے بعد اس سے متاثر ہو کر لکھی یا پھر اس سے پہلے ریپ کے کسی واقعے کے زیر اثر۔ اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں ہر سولہ منٹ بعد اور پاکستان میں ہر دو گھنٹے بعد کسی لڑکی یا عورت کا ریپ ہوتا ہے۔ تفصیلات کے لیے یہ لنک دیکھیں۔
پاکستان میں ہر دو گھنٹے بعد ایک خاتون عصمت دری کی شکار ہوتی ہے،

سروے  Rape Cases in Pakistan

(etvbharat.com)
بھارت میں ہر 16 منٹ میں ایک خاتون کا ’ریپ‘

– World – Dawn News Urdu
یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوتے ہیں۔  ہم سب جانتے ہیں کہ اس  گھناؤنے ظلم کا شکار کتنی ہی عورتیں شکایت ہی درج نہیں کرواتیں کیونکہ معاشرہ بے ایمانہ جبر کرنے والے کی بجائے عورت کو اس کا ذمہ دار قرار دینے کے لیے درجنوں جواز گھڑ لاتا ہے۔ کبھی اس کے کپڑوں کی وجہ سے ، کبھی نوکری کرنے اور کبھی رات کو سفر کرنے اور جانے کیا کیا۔
تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس ہوس ناکی کے خلاف عوامی شعور اور عورتوں میں اس کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد تیز ہو رہی ہے۔ جب عاصمہ بتول یا ہزاروں دیگر لوگوں نے یہ نظم شئیر کی تو وہ کیا سوچ رہےتھے؟

اس سوال سے پہلے یہ سوچنا مناسب لگتا ہے کہ لکھنے والے شاعر نے اس نظم کے ذریعے انسانوں کو کیا پیغام دینے کی کوشش کی ہے؟ یاد رکھیے شاعر یا فنکار براہ راست اللہ تعالیٰ، خدا، رب، ایشور یا بھگوان سے بات نہیں کرتے ۔ وہ انسانوں سے مخاطب ہوتے ہیں۔  اور ان پر شاعری  یا پیغام براہ راست خدا کی طرف سے نہیں اترتا۔  خدا سے براہ راست وحی اترتی ہے جو کہ نبی اخر الزماں محمد ﷺ  کے بعد کسی پر نہیں اتری نہ اترے گی۔
شاعر کا پیغام اپنے گرد و پیش یعنی معاشرے کے حالات کے اثرات سے پیدا ہوتا ہے۔ اس نظم میں ایک ریپ ہوتی ہوئی عورت کے ذریعے خدا ، ایشور اور بھگوان کو بیچ میں کیوں لایا گیا؟ کیونکہ ہمارے جنوب ایشائی معاشرے میں یہ عقیدہ آج بھی سب پر بھاری ہے کہ جو ہوتا ہے اس قوت کی مرضی سے ہوتا ہے جس نے یہ جہان تخلیق کیا اور جس کے مختلف عقائد و مذائب میں مختلف نام ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ایک توضیح ہے کہ اس طرح کے جرائم بھی خالق کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ مذاہب کے اندر ہی دوسرا عقیدہ یہ بھی ہے کہ خالق نے انسان کو تخلیق کر کے ، اس میں  اچھے بُرے کی سمجھ کا نظام ڈال کر بھیج دیا ہے ۔ اب انسان جو کچھ کرے گا اس کا بدلہ اس کو یہاں یا وہاں یا دونوں جگہوں پر ملے گا۔ ماضی میں تو شاعر لوگ ازل سے ہی خدا سے مکالمہ کرتے رہے ہیں۔  مشہور زمانہ ہیر کے مصنف وارث شاہ جو کہ / میں ہوئے ہیں نے جب یہ شعر لکھا تھا
اوّل حمد خدا دا ورد کیجے عشق کیتا سو جگ دا مول میاں
پہلے آپ ہے رب نے عشق کیتا معشوق ہے نبی رسول میاں
عشق پیر فقیر دا مرتبہ ہے مرد عشق دا بھلا رنجول میاں
کھلے تنھاں دے باب قلوب اندر جنھاں کیتا ہے عشق قبول میاں
تو وہ کس کو بتا رہے تھے / وہ ان کو بتا رہے تھے جو دین کی اپنی سمجھ کی بنیاد پر دعویٰ کرتے  تھے کہ محبت بھی جرم ہے ۔ خلاف دین ہے۔
ریپ ہوتی لڑکی کی ٓواز اس نظم میں بھی شاعر نے مختلف ناموں والے خالق کی طرف سے درحقیقت زنا بالجبر کرنے والوں کو مسترد کرنے کی بات کی ہے۔ زنا بالجبر کرنے والوں کے سامنے سماج کی بے بسی کی بات کی ہے۔ انسان جس کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے اس کے اس عمل کو ایک ایسا نقص قرار دیا ہے جس کو دیکھ کر خود خالق شرمندگی سے آنکھیں چُرا رہا ہے۔ تاہم اس نظم میں آگے چل کر یہ طعنہ بھی دیا گیا ہے کہ خدا، ایشور اور بھگوان ریپ کا شکار ہونے والی بے بس عورت کی مدد کو نہیں آتے کیونکہ وہ مرد ہیں۔ اگر عورت ہوتے تو کیا عورت کی اتنی تزلیل پر آنکھیں چراتے۔ یہاں درحقیقت طعنہ خدا ، ایشور یا بھگوان کو نہیں دیا گیا بلکہ ان مردوں کو دیا گیا ہے جو خدا بنے بیٹھے ہیں ۔ یہ  سوال خدا ، ایشور اور بھگوان کے اس تصور پر سوال ہے جو تصور جنوب ایشیا میں عقائد اور مذاہب کی اس سمجھ سے پیدا ہوا اور پروان چڑھا ہے جس کی جڑیں قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرے میں ہیں۔ تاہم نئی نسل جو ایک عالمی سرمایہ دارانہ، اشتراکی، لبرل، صنعتی اور انٹر نیٹ کے بعد سوشل میڈیا کے عالمی معاشرے میں پروان چڑھ رہی ہے وہ عقائد و مذائب کی ہماری  سوچ سمجھ کو مسترد کر رہی ہے۔ مذہب کو یا خدا کو نہیں۔ خاص طور سے عورتوں کے مقام، حقوق اور مردوں کی عورتوں کے بارے میں کچھ مردوں ( جن کی تعداد بدقسمتی سے اچھی خاصی ہے) کی فرسودہ ، جابرانہ اور ظالمانہ سوچ و فکر اور جبر کے ذریعے اس کو مسلط کرنے کے چلن  کے خلاف دنیا بھر میں گزشتہ کئی عشروں سے ایک عالمی سیاسی تحریک بن چکی ہے۔ جس کے کئی نام اور کئی رنگ ہیں۔ جو ہر سیاسی تحریک کے بن جاتے ہیں۔ عاصمہ بتول نے خدا، رب، ایشور یا بھگوان کے خلاف یہ پوسٹ نہیں شئیر کی تھی بلکہ ان مردوں کی اس فرسودہ فکر و عمل کے خلاف شئیر کی جو مذہب کے نام پر ، اور مذاہب کے ان خداوں کے نام پر خود خدا بنے بیٹھے ہیں۔ یوں یہ میرے خیال میں یہ مسئلہ بنیادی طور پر مذہب کا ہے نہیں ۔ یہ ریپ کا مسئلہ ہے۔ ایک باشعور عورت کا ریپ کا شکار ایک اور عورت اور لاکھوں دوسری عورتوں کے ساتھ ہونے والےظلم کے خلاف یک جہتی کے اظہار کا سوال ہے جو اس نے ایک ایسی نظم کے ذریعے کیا جو ریپ کے خلاف پورے جنوب ایشیا میں اور بیرون ممالک جہاں جہاں اردو پڑھی اور سمجھی جاتی ہے میں عورتوں کو بلا تمیز رنگ، نسل، علاقے، قوم مذہب، عقیدے اور حتیٰ کہ صنف کے یک جہتی کے رشتے میں پرونے کا کام کر رہی ہے۔ عاصمہ کے خلاف توئین مذہب کا کیس درج کرنے پر قانونی رائے تو ماہرین قانون ہی دے سکتے ہیں، لیکن میرے خیال میں سیاسی طور پر اس کی بازگشت بہت دور تک جائے گی۔ کس شکل میں اور اس کے ’’آزاد جموں کشمیر‘‘ میں کیا سیاسی اور سماجی اور انتظامی اثرات مرتب ہوں گے یہ آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.