تاثرات : پروفیسر محمد اکبر  خان

گزشتہ چند دنوں سے مدینہ منورہ میں ہوں۔ گو موسم خاصا گرم ہے گرمی کی حدت اور دھوپ کی شدت زیادہ ہے مگر ایک روح پرور ماحول ہے۔مدینۃ النبی ص میں سکون ہی سکون ہے. آج سے دس سال قبل جب یہاں آیا تھا تو دسمبر کا مہینہ تھا صبح شام  خنکی محسوس ہوا کرتی۔ اس بار مدینہ منورہ کو کافی بدلا ہوا محسوس کیا حرم نبوی کے آس پاس کافی کام کیا گیا ہے۔ تمام سڑکوں کی وسعت اور حسانت میں اضافہ کیا گیا ہے۔ سڑکوں کے دونوں کناروں پر شجر کاری کی گئی ہے غالباً انھیں  لگائے زیادہ عرصہ نہیں ہوا اس لیے ابھی تک ان کا سایہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مختلف مقامات پر بحالی اور تعمیر کا کام جاری ہے۔ شہر میں زیر زمین راستوں اور اور ہیڈ پلوں کا جال بچھا دیا گیا ہے. مسجد نبوی سے مسجد قبا جانے کے لیے آراستہ و پیراستہ راستہ تیار کیا گیا ہے روایات کے مطابق رسول اللہ ص مسجد نبوی سے مسجد قبا تشریف لے جاتے اور وہاں نوافل ادا کرتے فجر کی نماز کے بعد مومنین کا جم غفیر اس راستے پر رواں دواں دکھائی دیتا ہے۔ یوں تو ہر دور میں مدینہ منورہ حکومت وقت کی ترجیحات میں شامل رہا ہے مگر اس شہر میں بکھرے آثار رسول اللہ پر یادگاریں تعمیر کرنے کا کام عمر بن عبدالعزیز رح نے کیا۔
عمر بن عبد العزیز بن مروان بن حکم نے 61ھ 681 ع میں اسی شہر  میں آنکھ کھولی۔ آپ کا نام عمر بن عبد العزیز بن مروان اور ابو حفص کنیت تھی۔ آپ کی والدہ کا نام ام عاصم تھا جو عاصم بن عمر بن الخطاب کی صاحبزادی تھیں یعنی حضرت عمر فاروق کی پوتی تھیں. اس لحاظ سے آپ کی رگوں میں فاروقی خون تھا. ان کے والد مسلسل 21 برس مصر کے گورنر رہے تھے ۔ دولت و ثروت کی فراوانی تھی لہذا نازو نعم کے ماحول میں آپ کی پرورش ہوئی۔ جس کا اثر خلیفہ بننے تک قائم رہا۔ وہ ایک نفیس طبع نہایت خوش پوش مگر صالح نوجوان تھے۔ عہد شباب میں اچھے سے اچھا لباس پہنتے۔ دن میں کئی پوشاک تبدیل کرتے، خوشبو کو بے حد پسند کرتے، جس راہ سے گذر جاتے فضا مہک جاتی۔  چونکہ طبیعت بچپن ہی سے پاکیزگی اور زہد و تقویٰ کی طرف راغب تھی اس لیے یہ ظاہری اسباب و نشاط ان کو قطعاً متاثر نہ کر سکے۔ ان کا دل ہمیشہ اللہ تعالٰی کی عظمت اور خوف سے لبریز رہا۔ پاکیزگی نفس اور تقدس آپ کی شخصیت کا ایک نہایت ہی اہم اور خصوصی وصف تھا۔
آپ کے والد نے آپ کی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ دی۔ مشہور عالم اور محدث صالح بن کیسان کو آپ کا اتالیق مقرر کیا۔ اس دور کے دیگر اہل علم مثلاً حضرت انس بن مالک، سائب بن یزید اور یوسف بن عبد اللہ جیسے جلیل القدر صحابہ اور تابعین کے حلقہ ہائے درس میں شریک ہوئے۔ بچپن ہی میں قرآن کریم حفظ کر لیا اور قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم مکمل کرکے ایک خاص مقام حاصل کیا۔ اسی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپ کی شخصیت ان تمام برائیوں سے پاک تھی جن میں بیشتر بنوامیہ کے حکمران مبتلا تھے۔ نگرانی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار عمر نماز میں شریک نہ ہو سکے استاد نے پوچھا تو آپ نے بتایا کہ میں اس وقت بالوں کو کنگھی کر رہا تھا استاد کو یہ جواب پسند نہ آیا اور فوراً والد والیٔ مصر سے شکایت لکھ دی وہاں سے ایک خاص آدمی انھیں سزا دینے کے لیے مدینہ آیا اور ان کے بال منڈا دیے اور ان کے بعد ان سے بات چیت کی۔
آپ طبعاً صالح اور نیک تھے اس کی نشان دہی ان کے استاد صالح بن کیسان، عبد العزیز کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران ان الفاظ میں کر چکے تھے۔
“۔      مجھے ایسے کسی آدمی کا علم نہیں ، جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اس لڑکے سے زیادہ نقش ہو       ”

بئرالفقیر حضرت سلمان فارسی کے باغ کا کنواں
بئرالفقیر حضرت سلمان فارسی کے باغ کا کنواں

یہی وجہ تھی کہ خلافت سے پہلے جب کئی دیگر اعلیٰ عہدوں پر آپ کو فائز کیا گیا تو انھوں نے اپنی اس نیک نفسی اور خدا خوفی کی روش کو قائم رکھا۔ عبد الملک نے ہمیشہ ان کو دیگر اموی شہزادوں سے زیادہ پیار و محبت اور قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا اور اپنے بھائی عبد العزیز کی وفات کے بعد عبد الملک نے اپنی چہیتی بیٹی فاطمہ کی شادی عمر سے کر دی اس وجہ سے بنو امیہ میں عمر کے وقار میں مزید اضافہ ہوا۔
عمر بن عبدالعزیز کے والد  عبد العزیز مروان کے چھوٹے لڑکے تھے،مروان نے عبد الملک کے بعد انھیں ولی عہد نامزد کیا تھا، لیکن وہ عبد الملک کی زندگی ہی میں وفات پاگئے۔  عبد العزیز اپنے خاندانی اوصاف وکمالات کے پوری طرح حامل تھے اوراپنے والد کی مہمات میں ان کے دست راست رہے، عبد اللہ بن زبیرؓ کی وفات کے بعد مروان نے جب مصر پر قبضہ کرنے کے لیے فوج کشی کی توعبدالعزیز کو ایلہ پر متعین کیا۔  مصرپر قبضہ حاصل کرنے کے بعد مروان دو مہینہ یہاں مقیم رہا، دو مہینہ کے بعد عبد العزیز کو یہاں کا گورنر بنا کر شام واپس ہوا۔ مروان کے بعد عبد الملک نے بھی عبد العزیز کو مصر کی حکومت پر برقرار رکھا، اورانہوں نے یہاں کامل اکیس سال حکومت کرنے کے بعد 86 ھجری میں انتقال کیا تاریخ اسلام میں اتنی طویل مدت  کسی والی کو کم ہی نصیب ہوئی ہوگی۔ عبد العزیز نے مصر اورحلوان میں اپنی حکومت کی بہت سی یادگاریں چھوڑیں ایک زرنگار محل تعمیر کرایا، حلوان میں متعدد محلات اورمسجدیں بنوائیں،مصر کی جامع مسجد منہدم کرا کے اس کو از سر نو تعمیر کرایا،خلیج مصر پر پل بنوائے، انگور اورخرمے کے باغات لگوائے۔ وہ علما اورارباب کمال کا بڑے قدر دان تھے ، قاضی عبد الرحمن بن حجیرہ خولانی کا ایک ہزار اشرفی سالانہ وظیفہ مقرر کیا. شعرا کے ساتھ اتنی داد ودہش کرتے تھے کہ بعض شعرا نے اس کے بعد شاعری ہی چھوڑدی،کثیر سے کسی نے پوچھا،اب شعرکیوں نہیں کہتے ،جواب دیا، عبد العزیز کے بعد صلہ کی توقع کس سے کی جائے۔
عمر بن عبد العزیز درحقیقت مسند درس کے لیے زیادہ موزوں تھے لیکن شاہی خاندان کی رکنیت نے ان کو ایوان حکومت میں پہنچا دیا. چنانچہ سب سے اول وہ خناضرہ کے والی مقرر ہوئے. 707ء میں ولید بن عبد الملک کے کہنے پر آپ نے مدینہ کی گورنری اس شرط پر قبول کی کہ وہ اپنے پیش رو حکمرانوں کی طرح لوگوں پر ظلم اور زیادتی نہ کریں گے۔ ولید نے بھی اس شرط کو قبول کیا اور کہا کہ آپ حق پر عمل کیجیے گو ہم کو ایک درہم بھی وصول نہ ہو۔ جب مدینہ پہنچے تو اکابر فقہا کو جمع کرکے کہا کہ:
”       میں نے آپ لوگوں کو ایک ایسے کام کے لیے طلب کیا ہے جس پر آپ لوگوں کو ثواب ملے گا اور آپ آپ حامی حق دار قرار پائیں گے۔ میں آپ لوگوں کی رائے اور مشورہ کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا پس آپ لوگ کسی کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں یا آپ لوگوں میں سے کسی کو میرے عامل کے ظلم کا حال معلوم ہو تو میں خدا کی قسم دلا کر کہتا ہوں کہ وہ مجھے تک اس معاملہ کو ضرور پہنچائے       ”
تمام اخلاقی خوبیوں کے باوجود طبیعت ابھی تک شاہانہ وقار اور اطوار برقرار رکھے ہوئے تھی۔ چنانچہ جب مدینہ آئے تو آپ کا ذاتی سامان 30 اونٹوں پر لد کر آیا۔ 707ء سے 713ء تک مدینہ کے گورنر رہے اس دوران آپ نے عدل و انصاف سے حکومت کی اور اہل حجاز کے دل جیت لیے۔ مسجد نبوی کی تعمیر آپ کے زمانہ گورنری کا شاندار کارنامہ ہے۔ 713ء میں ولید نے انھیں مدینہ کی گورنری سے علیحدہ کر دیا۔ سلیمان آپ کی شخصیت سے بے حد متاثر تھا چنانچہ اس نے وفات سے پہلے آپ کو خلافت کے لیے نامزد کر دیا۔
لیکن فطرت سلیم تھی، اس لیے مدینہ پہنچنے کے بعد یہاں کے دس بڑے فضلاء کو بلا کر ان کے سامنے ایک مختصر تقریر کی کہ میں نے آپ کو ایک ایسے کام کے لیے بلایا ہے جس میں آپ کو ثواب ملے گا اورآپ حامی حق قرار پائیں گے،میں آپ لوگوں کے مشورہ کے بغیر کوئی فیصلہ کرنا نہیں چاہتا، اس لیے جب آپ لوگ کسی کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں یا آپ کو میرے کسی عامل کے ظلم کی اطلاع ہو تو آپ خدا کی قسم مجھ کو ضرور اس کی خبر کیجئے،یہ تقریر سننے کے بعد فقہا ان کو دعائے خیر دیتے ہوئے واپس گئے۔

مسجد فتح سعودی عرب
مسجد فتح سعودی عرب

مدینہ کی گورنری کے زمانہ میں عمر بن عبد العزیز نے یہاں بہت سی اصلاحیں اور مفید کام کیے،ان میں ان کا ناقابل فراموش کارنامہ مسجد نبوی کی تعمیر اوراس کی تزئین وآرائش ہے۔ ولید کے پیشر وخلفاء نے وقتاً فوقتاً مسجد نبوی میں ترمیمیں کرائی تھیں لیکن ولید نے بڑے اہتمام کے ساتھ اس کو نہایت عظیم الشان پیمانہ پر تعمیر کرانے کا ارادہ کیا اور 88 ھ میں عمر بن عبد العزیز کو لکھا کہ مسجد نئے سرے سے تعمیر کی جائے، اس سے متصل ازواج مطہرات کے حجرے اوردوسرے جو مکانات ہیں ان کا معاوضہ دے کر ان کو مسجد میں شامل کر لیا جائے جو لوگ قیمت لینے سے انکار کریں ،ان کے مکانات زبردستی گرادیے جائیں اوران کی قیمتت فقیروں کو خیرات کردی جائے۔  قیصر روم کو خط لکھ کر بہت سے رومی کاریگر ،مزدور،میناکاری اور پچی کاری کا سامان کئی ہزار مثقال سونا منگایااور مختلف مقامات سے مختلف قسم کے تعمیراتی سامان جمع کیے اورفقہائے مدینہ کی موجودگی میں مسجد کی پرانی عمارت گروا کر ان بزرگوں کے متبرک ہاتھوں سے عمارت کی بنیاد ڈالی۔  عمر بن عبد العزیز کو اس عمارت سے ذاتی دلچسپی تھی،اس لیے بڑے انہماک اورحسنِ مذاقِ سے اس کو تعمیر کرایا، ساری عمارت نفیس پتھروں کی تھی ، دیواریں اورچھتیں منقش طلائی اورمیناکاری کے نفیس کام. سے مزین تھیں، فانوس کے ایک نقش پر کاریگروں کو 30 درہم انعام دیتے تھے۔اس اہتمام سے تین سال میں عمارت بن کر تیار ہوئی 91ھ میں ولید نے مدینہ جاکر اس کا معائنہ کیا اور عمر بن عبد العزیز کی کارگزاری پر خوشنودی ظاہر کی۔
مسجد نبوی کے علاوہ اپنے عہد گورنری میں اطراف مدینہ میں اوربہت سی مسجدیں بنوائیں ،آنحضرت ﷺ نے اطرافِ مدینہ میں جہاں جہاں نمازیں پڑھی تھیں مسلمانوں نے یاد گار کے طور پر وہاں معمولی مسجدیں بنالی تھیں، عمر بن عبد العزیز نے اس قسم کی تمام مسجدوں کو منقش پتھروں سے تعمیر کروایا انہوں نے اپنے دور میں رفاہِ عام کے سلسلہ میں ولید کے حکم سے مدینہ میں بہت سے کنویں کھدوائے اور دشوار گزار پہاڑی راستے درست کرائے۔ مدینہ منورہ میں جگہ جگہ عمر بن عبدالعزیز رح کی تعمیر کردہ مساجد موجود ہیں جنہیں بعد میں متعدد بار بحالی مرمت اور تعمیر کا کام کیا گیا ہے سلطنت عثمانیہ میں اکثر مساجد کو  نئے سرے سے تعمیر کیا گیا جن میں سے اکثر آج تک موجود ہیں. عمر بن عبدالعزیز رح کو زہر دے دیا گیا تھا اور ان کی شہادت شام میں ہوئی. شام کے شہرمعرۃ النعمان میں انہیں سپرد خاک کیا گیا.
اٹھائیس جنوری 2020 کو ایرانی ملیشیاؤں اور شام کی اسدی فوج نے شامی جیش الحر کے جنگجوؤں کے ساتھ ہونے والی ایک جھڑپ کے بعد معرۃ النعمان شہر میں داخل ہوکر  اس بطل جلیل کے مقبرے کو شدید نقصان پہنچا کر نذر آتش کر دیا. مدینہ منورہ میں ہر جگہ ان کی یاد کے چراغ روشن ہیں جو ان کے حب رسول کا مظہر ہیں۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact