تبصرہ: پروفیسر محمد اکبر خان
پروفیسر تفاخر محمود گوندل اردو ادب کے وہ شہسوار ہیں جو اپنی رعنائی تحریر کی بدولت پاکستان کے ادبی افق پر ایک نمایاں حیثیت رکھتے ہیں. ان کی کئی کتابیں دنیائے ادب میں روشن ستاروں کی مانند جگمگا رہی ہیں اور جہالت کی ظلمتوں کو مسلسل مٹانے میں مصروف ہیں. رواں برس ماہ ستمبر کے ابتدائی ایام میں مجھے عمرہ کا سفر درپیش ہوا اور مجھے نہایت عجلت میں کوئیٹہ سے کراچی کا سفر کرنا پڑا جہاں سے تین ستمبر 2024 کو میری جدہ روانگی تھی. ادھر پروفیسر صاحب نے مجھے اپنا سفرنامہ حجاز یکم ستمبر کو ارسال فرمایا جو یقیناً اس وقت محکمہ ڈاکے کے ہرکارے نے میرے گھر پہنچایا جب میں خود حجاز کی پر لطف فضاؤں میں پہنچ چکا تھا. اکتوبر میں واپسی ہوئی تو پروفیسر تفاخر کی کتاب “جلوہ ہائے جمال” کو منتظر مطالعہ پایا اور اگلے چند ایام اس سفرنامے کے مطالعے میں بسر ہوئے. ان کا یہ سفرنامہ حجاز سفر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے روح پرور ایام کی جاں فزا روداد ہے.بطحا کی حیات بخش وادیوں کا یہ دل پذیر تذکرہ چھ ابوب پر مشتمل ہے جبکہ اس کتاب کا دوسرا حصہ ان کے نعتیہ کلام سے مزین ہے. سفر حجاز کی روداد تحریر کرنے کے بارے میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ ان کے ایک دوست نے سعادت حج کے بعد سفرنامہ حجاز تحریر کرنے کے ارادے سے آگاہ کیا تھا مگر بوجہ وہ اسے مکمل نہ کرسکے اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ “میں نے اس روز مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ اگر زندگی نے وفا کی اور خدا کا بے پایاں لطف و کرم مجھے اس ارض قرآن میں لے گیا تو میں خود یہ سعادت حاصل کرنے کی کوشش کروں گا”. .تفاخر کی نثر میں وسعت اور حقیقت نگاری کی گہری عکاسی دکھائی دیتی ہے. ان کی تحریر میں فارسی تراکیب و اشعار کا استعمال کثرت سے دکھائی دیتا ہے البتہ اس کے سبب تحریر میں کوئی بوجھل پن محسوس نہیں ہوتا بلکہ ایک منفرد سی شگفتگی، متانت اور دلکشی جنم لیتی ہے.اس سفر نامے میں متعدد مقامات پر ان کے اسلوب تحریر کی قوت اور ندرت سامنے آتی ہے. ان کی اس تخلیق میں جوش بیان کی کارفرمائی معلوم ہوتی ہے. پروفیسر صاحب کو منظر نویسی و منظر کشی پر کمال حاصل ہےگوندل صاحب کا یہ سفرنامہ ادبی چاشنی، شیریں بیانی اور گھلاوٹ کا پر لطف مرقع ہے. کعبۃاللہ پر پہلی نظر اور مدینہ منورہ میں دربار رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم پر حاضری کا حال انھوں نے نہایت ہی اثر انگیز انداز میں رقم فرمایا ہے. ان کی تحریر میں جذبات کی فراوانی کا وہ عالم ہے کہ قاری بھی خود کو اسی رو میں بہتا ہوا پاتا ہے۔.
میں نہایت ادب سے انہدام مزارات کے بارے میں ان کی رائے سے اختلاف کرنا چاہوں گا کیونکہ متعدد صحیح احادیث( سنن ترمذی حدیث نمبر 1049)سے یہ ثابت ہے رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے قبر پر کسی بھی تعمیر کو ناجائز قرار دیا ہے بلکہ احادیث میں ہے کہ آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جنت البقیع اس حکم کے ساتھ بھیجا کہ وہ ہر اونچی قبر کو برابر فرما دیں. علامہ اقبال نے اپنی نظم پنجابی مسلمان فرمایا ہے.
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کرلے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد.
پروفیسر صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ یقیناً توحید خالص پر ایمان رکھنے والے، ضعیف الاعتقادی سے دور رہنے والے اور شرک کی کثافتوں سے پاک ہونگے مگر کیا عوام الناس کی وہ حالت نہیں ہے؟ جو اقبال نے اپنی نظم میں پیش فرمائی ہے. اس پرفتن دور میں رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ کے احکامات پر عمل کرنے سے ہی شرک کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔.
اس کتاب کا آخری حصہ ان کی نعت گوئی اور علمی رسوخ کے کئی رخ آشکار کرتا ہے بلاشبہ وہ میدان سخن کے بھی شہسوار ہیں ان کی نعت نگاری میں ادب، تقدس، اور عشق مصطفیٰ نبی آخر الزماں خاتم النبیین حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وبارک وسلم کی کرنیں پھوٹتی دکھائی دیتی ہیں. میں ان کو ایک اعلی اور منفرد قلبی واردات تحریر کرنے پر مبارکباد باد پیش کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے قلم کی جولانی اور روانی کو سدا قائم رکھے۔.
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.