Monday, April 29
Shadow

انجانی راہوں کو اجنبی نہیں رہنے دیا/ انعام الحسن کاشمیری

انعام الحسن کاشمیری
ہر نئی راہ نووارد کے لیے ہمیشہ اجنبی ہی ہوتی ہے۔ جوں جوں قدم آگے بڑھتے جائیں توں توں راہ قالین کی طرح لپٹتی اپنے اسرار و راز مسافر پر منکشف کرتی چلی جاتی ہے۔ چلنے والا اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور اپنی حسیات سے سب محسوس کرتا ہوا نئے تلذذ کے ساتھ راہ کی دھول اپنے جسم وجاں کے ہر مسام پر جماتا ایک نئی دنیا سے آشنا ہوتا چلا جاتاہے۔ لطف تب ہے کہ وہ اس تجربہ واحساسات میں انھیں بھی بعینہ شریکِ سفر کرے جو ہم سفر نہیں۔ وہ جو بیاں کرے، ہم اسے اسی طرح دیکھ سکیں اور جس چیز کا اظہار کرے ہم اسے براہ راست محسوس کرسکیں۔ جناب امانت علی نے ”انجانی راہوں کا مسافر“ سفرنامہ لکھ کر یہ اجنبی راہیں صرف اپنے ہی نہیں ِ ہمارے لیے بھی بیگانہ نہ رہنے دی ہیں۔ انھوں نے جس جا اپنا قدم رکھا، اسی نقشِِ پا پر ہمارا قدم بھی جما اور ان کی نظروں میں جو مناظر سمٹے، ان کا اسی صورت عکس ہمارے دیدوں میں بھی امڈآیا۔
برادر اسلامی ملک ترکی کہ جس کی تہذیب وثقافت، تاریخ وغیرہ سینکڑوں برسوں پر محیط ہے اگرچہ ہمارے لیے اجنبی نہیں لیکن اس کے باوجود متعدد نئے گوشوں پر سے پردہ سرکنا ابھی باقی ہے۔ محترم امانت علی جس طرح ترکی کے سفر پر روانہ ہوئے اور محترم قاسم علی شاہ کی معیت اور دیگر احباب کی سنگت کے لطف آگہیں احساسات کو انھوں نے جس طرح بیان کیا، اس نے سفرنامے کے لطف کو خوب دوبالا کیاہے۔ یہ محض سفرنامہ ہی نہیں بلکہ ترکی اور کینیا ہر دو ملک کے بارے میں ایک معلوماتی کتاب بھی ہے۔ چنانچہ باب اول میں ہمیں ترکی کا موجودہ احوال، اس کی تاریخ، بودوباش، رہن سہن، تہذیب وثقافت اور دیگر امور پر گفتگو جو سننے یا پڑھنے کو ملی ہے تو جہاں سارا منظر ہماری نگاہوں کے دائروں میں سمٹ آتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ شاندار تاریخ بھی، اگرچہ مختصر ہی سہی ہمارے علم میں اضافے کے لیے دے دی گئی ہے جس کی بدولت ہم محض سفر سے لطف اندوز ہی نہیں ہورہے بلکہ اپنی معلومات میں بھی بتدریج اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں۔ پھر انداز بیاں بھی اس قدر سادہ، دلنشیں اور عام قاری کے فہم کے اس قدر برابر ہے کہ کہیں کوئی مشکل بات معلوم نہیں پڑتی یا کوئی تشنگی باقی نہیں رہتی۔ امانت علی نے جس انداز میں اپنے سفر کے احوال کا بیان شروع کیا، اختتام تک اسی کیفیت کو بڑی خوبی کے ساتھ برقرار رکھا۔
ترکی تو چلیں ہمارے لوگ خوب آتے جاتے ہیں اور یوں ہمارے علم میں اس ملک کی بابت خوب اضافہ کرتے رہتے ہیں لیکن دوسرا ملک جسے ہم محض جانوروں کے بہت بڑے نیشنل پارک یا چائے کی پتی کے حوالے سے ہی جانتے ہیں وہ کینیا ہے۔ اس کے باوجود جب یہ سفر نامہ اختتام پذیر ہوا تو معلوم ہو اکہ افریقہ کا یہ ملک کینیا کوئی دوسری دنیا ہرگز نہیں۔ وہاں کالوں یا حبشیوں کے باوجود ان کی سوچ، ان کا سماج چند باتوں کے علاوہ دیگر امور میں باقی دنیا سے ہی مماثلت رکھتا ہے۔ یہ کس قدر حیرت انگیز امر ہے کہ جس دنیا کو ہم خود سے الگ تھلگ سمجھتے اور محض شکلیں دیکھ کر ان کے متعلق مختلف قسم کی رائے قائم کرلیتے ہیں، تو ان سے روابط کے قیام اور پھر ان کے رہن سہن، سوچ وخیالات اور بودوباش یا طرز معاشرت کے مطالعہ سے جو چیز سامنے آتی ہے تو صاف معلوم پڑتا ہے کہ ارے! یہ تو ہمارے جیسے ہی گوشت پوست کے انسان نہیں بلکہ سوچ بچارمیں بھی یکساں ہیں۔ یہی چیز پھر ہمیں ابھارتی ہے کہ ہم بھی ٹکٹ کٹوائیں اور بلا خوف وخطر متعلقہ ملک کی سیر کو نکل کھڑے ہوں۔ لوگوں سے گپ شپ لگائیں، دیدہ زیب مناظر سے لطف اندوز ہوں، مقامی ثقافت کی نمائندگی کرتی اشیاء کی خریداری کریں اور پھر واپس آکر ایک شاندار سفر نامہ لکھ کر اپنی تصنیفات کی تعداد میں اضافہ کرلیں۔ اگرچہ کہنے کو یہ آسان ہے لیکن اس لحاظ سے کارِ دارد ہے کہ واقعات کو ترتیب سے لکھنا، پھر مقامی حالات وغیرہ کے متعلق درست معلومات مہیا کرنا کے لیے بڑی عرق ریزی سے کام لینا پڑتا ہے۔ بسااوقات ہم جس منظر سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں، کچھ دن بعد اس کے متعلق کچھ اظہار کرنے کے لیے ہمارے پاس مناسب الفاظ موجود نہیں ہوتے۔
جناب امانت علی کے متعلق مجھے اس کتاب سے ہی آگاہی ملی کہ وہ میرے اپنے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے مجھے حیرت بھی ہوئی کہ اتنا اچھا انھوں نے کس طرح لکھ لیا۔ انھوں نے صرف مشاہدات ہی کو بیان نہیں کیا بلکہ اپنے تجربات کو بھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ صفحہ قرطاس پر اس طرح بکھیرا ہے کہ قاری بور نہیں ہوتا بلکہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ اس تجربے کی بنیاد پر تبدیلی کس طرح لائی جاسکتی ہے۔ انھوں نے زیرنظر ممالک اور اپنے ملک کے ہوائی اڈوں کے عملے، سکیورٹی سٹاف اور شہریوں کے عموی رویوں کے تقابل بھی کھل کر بیان کیا ہے۔ مجموعی طور پر اس تقابل میں ہمارے نمبر کافی کم ہیں جنھیں بڑھانے پر زور دیا گیا ہے۔ انھوں نے بیان کیا ہے کہ ہوائی اڈے عالمی مسافروں کے لیے ہمارے چہرے ہوتے ہیں۔ اگر وہاں پر عالمی مسافر خوش ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارا مجموعی رویہ بہتر ہے اور یہی وہ چیز ہے جو کسی ملک کی سیاحت کی ترقی کے لیے نہایت اہم ہے۔ ترکی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی سیاحتی معیشت اسی لیے بڑی مضبوط اور تیزی سے ترقی پذیر ہے کہ انھوں نے ائیرپورٹس کے ذریعے اپنے چہروں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کررکھا ہے۔ یہ پہلا تاثر ہوتا ہے جو سیاحوں کو براہ راست اپنے حصار میں لیتا ہے۔
”انجانی راہوں کا مسافر“ میں مصنف نے تصاویر بھی دے رکھی ہیں۔ کتاب کا سرورق انتہائی دیدہ زیب ہے کہ جسے دیکھتے ہی بے اختیار مطالعہ کو جی چاہتاہے اور جب ایک بار یہ مطالعہ شروع ہوجائے تو پھر کوشش ہوتی ہے کہ ایک ہی نشست میں ساری کتاب پڑھ لی جائے۔ تصاویر کی شمولیت نے کتاب کی اہمیت وافادیت میں اور زیادہ اضافہ کردیا ہے۔ پھر کتاب کی بڑے اہتمام سے خوبصورت اشاعت نے اس کی افادیت دوچند کردی ہے۔ پریس فار پیس یو کے اس لحاظ سے مبارکباد کا مستحق ہے کہ اس کے زیراہتمام شائع ہونے والی کتب اپنے گیٹ اپ، کاغذ، ترتیب اور نفاست کے لحاظ سے اعلیٰ معیار کی حامل ہیں۔ پڑھنے سے قبل کتاب کی دیگر خصوصیات کاجائزہ لینے ہی سے دل باغ باغ ہوجاتاہے کہ آج کے سوشل میڈیائی دور میں بھی ایسی نفیس اور اہم کتب کی اشاعت کااہتمام کرکے پریس فار پریس قارئین کی خوب خدمت کررہاہے۔ جناب ظفراقبال اور ان کی ٹیم کے دیگر اراکین اس لحا ظ سے شاندار خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ ان کا کام محض کتاب کی اشاعت ہی نہیں، بلکہ اسے عام قاری تک پہنچانے کا ایک مشکل فریضہ بھی وہ بڑی خوبی سے سرانجام دے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا پر مصروف لوگوں کو اس کے مطالعہ پر قائل کرنے کی ذمہ داری بھی انھوں نے اپنے کاندھوں پر لے رکھی ہے۔ اس لحاظ سے وہ بیک وقت ناشر، ڈیلر، بک سیلر، سوشل میڈیا ایکٹویسٹ،لائبریرین کا کردار نبھارہے ہیں۔ مختصر الفاظ میں کہہ سکتاہوں کہ پریس فار پیس یوکے کی شائع کردہ ہر کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact