تبصرہ: ھدایہ
ریزگاری: ارشد ابرار ارش
سٹڈی بلاک ختم کرنے کےلئے، میں نے گزشتہ برس کتاب “ریز گاری” نومبر میں آرڈر کی۔ چونکہ میں گزشتہ طویل عرصے سے کتابوں سے دور تھی۔ لیکن آرڈر کرنے کے دو ماہ تک میں کتاب کھول کر بھی نہیں دیکھ پائی۔ ٢٠٢٤ میں جنوری کے ابتدا میں ہی میں کتاب کھولی اور پڑھتی چلی گئی۔
بس اتنا کہوں گی کہ یہ کتاب میری دیرینہ ادبی تشنگی دور کرنے میں کامیاب ہوئی ۔جو احباب کلاسک اردو ادب سے واقف ہیں وہ افسانہ نگاری میں، غلام عباس، منشی پریم چند، کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی، منشا یاد اس کے بعد انتظار حسین، شوکت صدیقی اور عبداللّٰہ حسین ( مختصر کہانیاں) کے ناموں سے واقف ہوں گے۔ میں پوری ذمہ داری سے یہ کہتی ہوں کہ ‘ریز گاری’ کے علامتی افسانے انتظار حسین اور شوکت صدیقی اور منشا یاد کی یاد دلاتے ہیں۔ جو قارئین یہ سمجھتے ہیں کہ نامور کلاسک ادیبوں کے بعد اب کوئی ویسا پیدا نہیں ہوگا تو انہیں یہ ضرور پڑھنی چاہیے۔ بلکہ” ریز گاری” اور “کابوس” دونوں اعلیٰ پائے کی کلاسک ادبی کتب ہیں۔ اردو ادب کے مذکورہ بالا افسانہ نگار وہ ہیں جو اس وقت میرے ذہن میں آرہے اور جن کے اسلوب نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔
میں ضرور کہنا چاہوں گی کہ اردو ادب کی دنیا میں یہ کتاب ایک بہترین اضافہ ہیں۔ آپ کے ادبی ذوق کو مہمیز کرتی یہ تصنیف آپ کو انگلی پکڑ کر آخری پڑاؤ تک لے جائے گی۔ یہ آپ کو سوالوں میں چھوڑتی، لفظوں سے جھنجھوڑتی، کانوں میں صور پھونکتی، زندگی میں آس پاس کے کرداروں کو سمجھنے کے نئے زاویے تشکیل دیتی، آگے بڑھتی ہے۔ کوئی ایک افسانہ ایسا نہیں جس کے تاثر سے نکلے بنا آپ فوراً اگلا صفحہ پلٹ پائیں یا چند نشستوں میں کتاب ختم کر پائیں۔
“ریز گاری” عمر کی ریز گاری ہے۔ ماہ و سال، لمحے گھنٹے۔ کہاں جئے، کہاں رکھے، کس کس کو تاوان میں دیے اور عمر کی ریز گاری گھٹتی چلی گئی۔ اپنی تمام زندگی کی ریز گاری؛ ہارا ہوا مفلوک الحال، عمر رسیدہ شخص، جب وقت کے آخری دہانے پر کھڑا ہو، غائب دماغی، عدم جسمانی توازن، مفلس پیٹ، رعشہ زدہ نحیف ہاتھوں سے یہاں وہاں، تلاش کرتا ہے کہاں رکھی تھی کہاں گئی زندگی کی ریزگاری؟۔
تبصرہ تفصیل طلب ہے۔ لیکن جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کی اس قدر پختہ سوچ، مشاہدہ پر داد بنتی ہے۔ ہاں مجھے ذاتی طور پر کچھ لفاظی بے جا مشکل محسوس ہوئی۔ جہاں قاری رکتا ہے اور روانی ٹوٹتی ہے۔ اور قاری مفہوم میں کھو جاتا ہے۔
اگر آپ کلاسک ادب کے ذریعے نادار لوگوں کا درد، حتیٰ کہ زمین کا درد؛ ختم ہوتے پانی کی صورتحال میں مستقبل کی جھلک، معاشرتی درجہ بندی اور افلاس، معاشرتی استحصال،طبقاتی تقسیم کی بھینٹ چڑھتی ادھوری سسکتی محبت، نفسیاتی کشمکش اور ذاتی چبھن محسوس کر سکتے ہیں، تو یہ کتاب آپ کی توجہ کی طالب ہے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.