مصنف: حافظ ذیشان یاسین
حقیقی لکھاری ہمیشہ اپنے مزاج ،اپنی فطرت اور اپنے علم کی بنیاد پر ہی لکھتاہے۔ کوئی اسے کتنا سمجھا لے یا رہنمائی کردے وہ انیس بیس کے فرق کے بعد بھی وہی کچھ تحریر کرتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے ۔
کچھ افسانے حیران کردیتے ہیں، اور اگر دلچسپ افسانہ برائے اصطلاح بھی ہو تو کیا ہی بات ہے۔
کچھ عرصہ پہلے حافظ ذیشان صاحب نے اپنی ایک کتاب “اسیر ماضی” بھیجی تھی جس کے افسانے پڑھ کے میں بے حد متاثر ہوئی تھی لیکن کوشش اور مصنف کی یاد دہانی کے باوجود میں اس پر تبصرہ نہیں لکھ پائی تھی ۔ یہ ان کی تیسری کتاب تھی۔
حال ہی میں پریس فار پیس کی جانب سے “اسیر ماضی ” کا دوسرا خوبصورت ایڈیشن موصول ہوا تو کوشش کی کہ پہلی فرصت میں اس پر تبصرہ لکھ دوں۔ گو کہ بے حد مصروفیت سے وقت نکال کر کتاب پڑھنا اور اس پر تبصرہ بھی لکھنا ایک وقت طلب کام ہوتا ہے اور زیادہ تر لوگ فارغ ہوکر بھی یہ کام نہیں کر پاتے لیکن میں سجھتی ہوں کہ محبت سے بھیجی گئی کتاب کا تبصرہ قرض ہوتا ہے اور جب بھی فرصت ملے یہ ادا کردینا چاہئے۔
کتاب کے عنوان کی طرح اس کا انتساب بھی حیران کن ہے،” سنہرے ماضی، گم شدہ بچپن،کٹتے درختوں،دربدرپرندوں، اداس چرواہوں،گم گشتہ جولاہوں،بوڑھے ملاحوں،اونٹوں کے ساربانوں،گمنام قافلوں، بجھتے چراغوں،لرزتی قندیلوں،مسمار فصیلوں، سوکھتی جھیلوں،ٹوٹتے حوصلوں ،مرجھائے پھولوں، سلگتے دلوں، جلتی آنکھوں، بےچین صداوں، ماتم کناں ہواوں، مسموم فضاوں، آزردہ دریاوں اور تپتے صحراوں کے نام۔۔!”
اس انتساب کی طرح ہر افسانہ ایسا با کمال ہے اور تجریدی اسلوب میں لکھا گیا ہے۔ افسانوں کا ایسا ہی انداز کچھ دن پہلے محترمہ دعا عظیمی کے افسانوں میں بھی پڑھنے کو ملا تھا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ تجریدی افسانے مخصوص حلقہ ادب تک ہی محدود ہے کیونکہ جہاں ایک شاہکار افسانہ لکھنے کے لیے شاندار تخلیقی دماغ کی ضرورت ہوتی ہے وہیں اور اس کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے قارئین بھی بہترین ذہن رکھنے والے ہونے چاہیئں۔
اسیر ماضی پڑھتے ہوئے ایسے لگتا ہے جیسے ہم کلاسک ادب پڑھ رہے ہوں۔۔۔جیسے طلسم ہوش ربا یا باغ و بہار پڑھ رہے ہوں۔
اسیر ماضی کی ٹائٹل کہانی کا اقتباس پڑھ کر آپ کو ان افسانوں کا مکمل مفہوم اور مقصد سمجھ میں آجائے گا، مصنف لکھتے ہیں،
” مرشد! مجھے ماضی میں لوٹا دیجئے، مجھے علی الصبح گھر سے سپارہ لے کر ہائی سکول کی مسجد جانا ہے،چاند میں چرخہ کاتتی عورت کا ہیولہ دیکھنا ہے، طوطا مینا اور فاختہ سے کچھ گفتگو کرنی ہے ،طوطے کو چوری اور چڑیا کو باجرہ کھلانا ہے ،جگنو اور تتلیوں کے پیچھے بھاگنا ہے ،ٹوٹے بکھرے کھلونوں کو جوڑنا ہے ،ماں کے ہاتھوں سے بنے ہوئے اون کے رنگ برنگے سویٹر اور ٹوپیاں پہننی ہیں مٹی کےگھروندے بنا کر گرانا ہیں ، عینک والےجن کی پہلی قسط دیکھنی ہےاور رات ہوتے ہی کوہ قاف کی کہانی سن کر سو جانا ہے ۔
مرشد کے سرخ و سفید نورانی چہرےپر تفکرات اور یادوں کے گہرے سائے پھیلتے چلے گئے، ماحول افسردہ اور پژمردہ ہوگیا ،دانہ چگتی چڑیاں مغموم اور بے چین ہوگئیں، فاختہ کی آنکھیں افسردہ اور ویران ہوگئیں ،درخت کے پتے زرد ہوکر مرجھانے لگے۔ مئں نے گم گشتہ ماضی کو کریدا تھا، عہد رفتہ کو آواز دئ تھی۔
“زمانہ موجود پر صبر و قرار کیوں نہیں ، حال سے فرارکی تمنا کس لیے ہے؟ ” مرشد گویا ہوئے۔ میں نے ایک نظرخاموش بھیٹی فاختہ اورسہمی ہوئی چڑیا کو دیکھا اور عرض گزار ہوا ،” فصلوں پر زہریلی ادویات کے استعمال نے پرندوں کی نسلیں معدوم کردیں،جگنو نا پیدہوگئے، درختوں کے قتل عام سے طوطا مینا بے گھر ہوگئے ،سارےپرندےغمگین ہیں، شفاف پانی آلودہ ہوتے جارہے ہیں ۔دریاوں میں روانینہیں رہی، جھیل جھرنےاور سیل رواں سرابو ریگ رواں میں تبدیل ہورہے ہیں۔ انسانوں کے ہاتھوں زمین کی شکست و ریخت اب دیکھی نہیں جاتی۔ ”
مرشد کی زبان ساکت اور آنکھیں آنسوؤں سے رواں ہوگئیں ، گرم دوپہر مزید ویران ہوگئی ،چڑیاں شدت غم سے تڑپنے لگیں،پتے تیزی سے جھڑنے بکھرنے لگے۔ کچا گھڑاٹوٹ کر مٹی ہوگیا۔ “
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی سے متعلق یہ افسانے علامت نگاری کی عمدہ مثال ہیں جو اعلی ادبی اسلوب لیے ہوئے ہیں۔ بہت متاثر کن ہیں ۔
حافظ ذیشان کو اتنی عمدہ کتاب لکھنے پر مبارک باد اور نیک خواہشات۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.