تحریر و تبصرہ ۔ ہدایہ
موڑ مہاراں؛ خواجہ فرید کی کافی کا مصرعہ ہے۔ یہاں اس کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ: زمین کی تباہی کی صورت، خلافِ فطرت چل کر ہم نے قدرت کو اپنا دشمن بنا لیا ہے۔ ہمیں درست لائحہ عمل کی سمت کی جانب اپنا رخ موڑنا ہوگا تاکہ فطرت ہم پر مہربان ہو۔
موڑ مہاراں؛
اس ڈرامے میں موحولیاتی تبدیلیوں، جنگلات کی کٹائی کوئلے کی جگہ متبادل سولر ذرائع، پانی کی کمی، آبپاشی، کاشت کاری کے فرسودہ نظام کو متروک کر کے جدید طریقے اپنانے، چولستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے طریقے، ماحولیاتی تبدیلیوں اور پانی کی قلت کے باعث صحرائی جانوروں، ہرن وغیرہ کو محفوظ بنانے کےلئے جانوروں کی فارمنگ، نایاب جانوروں کے شکار پر پابندی کے سخت اقدامات، کماد کی کاشت کی بہاولپور کے آس پاس کاشت پر پابندی یا پانی کو بچاتے ہوئے جدید طریقہ کاشت کاری، کسان کا استحصال، وڈیرہ سسٹم ان کی شوگر ملز کی سیاست کو بے نقاب کرنے، روہی کی ثقافت، ہاتھ کی بنی انمول دستکاریوں کے تحفظ، اس کو دنیا کے سامنے لا کر زر مبادلہ کی حصولی کی طرف توجہ مبذول کروانے، جیسے موضوعات کو زیر موضوع بنایا گیا ہے۔
ان مسائل کو اجاگر کرتی ہیں ایک ماہرِ ماحولیات؛ جو کہ ایک با اثر شخص کی اکلوتی مغرور، روایتی شہزادی ہونے کی بجائے اپنے علاقے کے مسائل پر حقیقی کام کرتی ہے۔ جو ایک باعتماد، خودمختیار، فیصلہ ساز قسم کی مضبوط شخصیت کا کردار دکھایا گیا ہے۔ اس کا مکالمہ
“روہی کی مٹی نے خود چنا ہے مجھے، اپنے رنگوں کی حفاظت کےلئے”
اس کے کردار کی عکاسی کرتا ہے جسےخوبصورتی سے نبھایا سونیا حسین نے۔ اس کے والد ملوک شاہ کا کردار نبھایا فردوس جمال نے۔ جن کی آرٹسٹک صلاحتیں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ملوک شاہ کی حثیت سے اپنی بیٹی کو خود مختیاری، شخصی آزادی، تعلیم دینے کے ساتھ اسے اپنی ریت روایتوں کی جڑوں میں پیوست رکھنے کا ہنر آتا تھا۔ باپ کی حثیت سے یہ ایک غیر روایتی زمیندار، باثر وڈیرہ تھا جو ہمیشہ بیٹی کے ساتھ کھڑا پایا گیا چاہے وہ علاقے کے لوگوں کو اس کی بڑی گاڑیوں میں پانی کی ترسیل کا منصوبہ ہی کیوں نہ ہو۔
روہی کے لوگوں کی مشکلات،
فطرت کو بچانے کےلئے فطرتی راستوں کا انتخاب،
بہاوپور میں پر شکوہ محلات کی بھول بھلیوں میں جنم لینے والی دکھوں کی داستانیں، اور ان کے واسیوں کے حالات کی غلام گردشیں؛ دلشاد محل کی صورت قلمبند کی گئیں۔ اس محل کی شہزادی کا کردار ‘سمیعیہ ممتاز صاحبہ’ نے ادا کیا۔
سونے کا نوالہ لے کر پیدا ہونے والا گردیزی، سیاست کا بڑا نام، گدی نشین، اور اپنے خاندان کا واحد چشم و چراغ، جو عیش و عشرت کی زندگی میں بھٹک گیا تھا اور زمین کو اپنی ملکیت سمجھنے والا گردیزی، جب سمت درست کرتا ہے تو سمجھ آتی ہے زمین ملکیت نہیں ہے بلکہ اس کے کچھ حقوق واجب ہیں۔
مگر اس کی دادی ایک سلجھی ہوئی، جہاں دیدہ، درویش صفت نفیس خاتوں کوئی الہامی کردار محسوس ہوتی ہیں۔ ہمیشہ اس کےلئے دعا گو رہتی ہیں۔ دادی پوتے کا رشتہ اٹوٹ، مہذب، احترام سے گندھا ہے۔ ان کی ملاقاتوں میں روحانیت کا رنگ غالب ہے۔
“عشق تو دینے کا نام ہے۔ تو آسمانوں کی چیزکو زمین پر لانا چاہتا ہے ؟”
گردیزی کی مہاریں جب عیش و عشرت، خود پسندی، روعونت، پر فریب زندگی میں بھٹکنے لگتی ہیں تو قدرت اس کے اندر عشق کی چنگاری پیدا کرتی ہے۔ جو سلگ کر الاؤ کی حدت اختیار کر جاتی ہے۔ کچھ الجھنوں اور مسافتوں کے بعد اس کا من روشن ہو جاتا ہے۔ اسے درست راستہ دکھائی دینے لگتا ہے۔ پھر وہ اپنی بےمہار، مہاریں موڑ لیتا ہے۔
صرف منزل ہی نہیں شرط سفر
اونٹ کو اندازۂ صحرا بھی ہونا چاہیے
منزل تک انسان پہنچ جاتا ہے۔ مگر وہ درست بھی ہے یا نہیں، یا جس رستے کا انتخاب کیا گیا وہ درست تھا ؟ اونٹ صحرا کا جہاز ہے۔ اس کو قابو کرنے والی نکیل کو مہار کہتے ہیں۔ ساربانوں کو حکم ہے کہ جب راستے میں خبر ہو جائے کہ یہ راستہ درست نہیں تو انہیں چاہیے کہ اپنی مہاریں موڑ لیں۔
یہ سب کےلئے، نہ صرف روہی کے خطے، گردیزی، کےلئے یا عشق کے غلط انتخاب کےلئے نہیں بلکہ قومی، بین القوامی سطح پر سب کےلئے پیغام ہے کہ ہم نے اپنی زمین کو ناراض کر دیا ہے۔ ماحول کی شدت، بنجرزمین کے اندر تبدیلیوں کے ذمےدار ہم خود ہیں۔ ہماری پالیسز ہیں۔ پانی کو بچانے کے لئے انفرادی سطح سے لے کر حکام بالا تک، اور بین الاقوامی سطح پر کوئی لائحہ عمل نہیں۔
ایسے میں ہم خطہ زمین کے ایسے نازک جغرافیائی حد پر بیٹھے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک جو اصل میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار ہیں ان کے اعمال کا تاوان بھی ہم ہی ادا کر رہے ہیں۔ ہمارے کندھوں پر کئی گنا بوجھ ہے اور ہم آنکھیں بند کئے خطرے سے نپٹنے کی بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔
ایسے میں میڈیا کو اپنا کردار اس سے زیادہ وسیع ادا کرنا چاہیے مگر اس طرح کی دلچسپ انٹرٹینمنٹ کے ذریعے اپنا پیغام دے کر ٹی وی ون نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اس طرح ٹی ون کے مزید ایسے پراجیکٹس بھی نظر سے گزرے ہیں جو پانی کی قلت پر بنائے گئے ہیں۔ جو کہ قابل ستائش اقدام ہے۔
ڈرامے کے لکھاری ہیں ‘علی معین’ جنہوں نے خوبصورت لکھت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انہوں نے کہانی کے ساتھ مکالمے؛ کلاسک اور حقیقی طور پر تخلیق کئے ہیں:
“خاموشی؛ آوازوں کی مرشد ہے”
قسطیں گزاری نہیں ہیں بلکہ تخلیق کی ہیں اور کیا ہی خوبصورت کہانی تحریر کی ہے کہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ایک حساس موضوعاتی کہانی ہے۔ یہ گلیمرس قسم کی رومانوی کہانی نہیں ہے بلکہ خواجہ فرید کی کافی کی طرح روہی سے پھوٹنے والے عشق کی داستان ہے۔ جو روح سے وجود تک ایک دوسرے میں ضم ہو جائے۔ مگر اس شاہکار ڈرامے میں منجھے ہوئے، نامور اداکاروں؛ سمیعیہ ممتاز، بابر علی، سونیا حسین، زاہد احمد جیسے بڑے فنکاروں کے باوجود، بہترین کہانی، پروڈکشن، ہدایت کاری کے باوجود ڈرامے کے ویوز دیکھ کر واقعی مجھے صدمہ ہوا لیکن ویوز کی تعداد ہر گز اس کی ساکھ کو متاثر نہیں کرتی۔
موڑ مہاراں ڈرامہ سیریل دو سال قبل ٹی وی ون پر نشر ہوا جو کہ تینتیس اقساط پر مشتمل ہے۔
پوری کہانی میں دلشاد محل کی ٹینشنیں اگر کم کر دی جائیں تو میرے جیسے حساس لوگ انزائٹی سے بچ سکتے ہیں۔ یہ کچھ طویل زیادہ سازشیں ہیں ورنہ کہانی کی ٹوٹل اقساط صرف 33 ہیں اور پورا ڈرامہ مقصدیت پر مبنی ہے۔ پھر بھی زیادہ سے زیادہ 22-25 اقساط پر مشتمل ہونا چاہیے تھا۔
روہی کے ثقافتی رنگوں میں گھلا علامتی رقص پرفامنس، اسے حقیقی آرٹ کا نمونہ بناتے ہیں۔
کرداروں کے سرائیکی لہجے کی کوشش، لباس، روایات؛ اس ڈرامے کو روہی کے حقیقی روپ میں ڈھالتے نظر آتے ہیں۔
کلاسک، موضوعاتی ڈراموں کے شوقین، ماحولیاتی تبدیلیوں، اس کے اثرات، زراعت اور پانی کی قلت، اس کے مستقبل سے پیدا ہونے والے خطرات سے جو لوگ بیدار ہیں اور حقیقی معنوں میں درد رکھتے ہیں انہیں یہ ڈرامہ ضرور دیکھنا چاہیے۔ روایتی رومانوی، گلیمرس، فینسی کہانیوں کے دلدادہ افراد کےلئے یہ انتخاب بور کر دینے والا ہوگا۔
معلوم نہیں ٹی وی ون کو پروموشن کرنا نہیں آتی یا کیا وجوہات ہیں کہ انتہائی کم ویوز ہیں۔ ایسے کلاسک ڈرامے شاذ و نادر بنتے ہیں مگر افسوس ان کی رسائی خال خال لوگوں تک ہوتی ہے۔ کچھ نامور چینلز پر ایسے ڈراموں کو پسند کیا بھی جاتا ہے۔ جیسے حال ہی میں ہم ٹی وی کا
‘زردپتوں کا بن’ بھی موضوعاتی اور لازوال ڈرامہ تھا جبکہ کافی تعداد نے اسے سراہا بھی۔ ۔۔۔
‘موڑ مہاراں’ کو بہت سے دوسرے نامور چینلز پر بھی چلنا چاہیے اور یہ بھی زیادہ ستائش کا مستحق ہے۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.