Monday, April 29
Shadow

شناخت کا سفر- تبصرہ نگار :  مدیحہ نعیم

مدیحہ نعیم،ایم –ایس سکالر،گورنمنٹ صادق کالج ویمن یونیورسٹی بہاول پور

بہاول پور میں اجنبی

پھروں جیسے بے راہ کے مسافر، ہوں بہاول پور میں اجنبی

دیس نکالا دے گیا وہ جاتے جاتے،ہوں بہاول پور میں اجنبی

وہ شہر جو ہے زندہ دل والوں کا، ہوں بہاول پور میں اجنبی

سرشام گم ذات کے ادھیڑبن میں،ہوں بہاول پور میں اجنبی

نہیں جانتا نوابوں کے شہر میں کوئی،ہوں بہاول پور میں اجنبی

موسم خزاں سے بکھر گئے ہیں،ہوں بہاول پور میں اجنبی

کھوگئی لہجوں کی مٹھاس کہیں،ہوں بہاول پور میں اجنبی

دل کو پتھر کر گئے گزرے لمحے،ہوں بہاول پور میں اجنبی

آنکھیں بے نور تیرے انتظار میں، ہوں بہاول پور میں اجنبی

مر ہی نہ جائیں اس دکھ سے ماہی،ہوں بہاول پور میں اجنبی

(از قلم: ماہی)                                                                                                          

مظہر اقبال مظہر کی  کتاب” بہاول پور میں اجنبی” جب میں نے پہلی بار شعبہ اردو کی میز پر دیکھی تو مجھے یہ جاننے کا اشتیاق ہوا کہ اس میں کیا لکھا ہے۔اپنے اندر کے تجسس کو مٹانے کے لیے جب کتاب ہاتھ میں لے کر ورق گردانی شروع کی تو مجھے پہلی نظر میں ہی اس کتاب سے پیار ہوگیا اور دل چاہا کہ ابھی اسے پڑھنا شروع کردوں۔خوبصورت سرورق اور منفرد عنوانات کو دیکھ کر ناداں دل سے آواز آئی ۔۔۔۔۔۔کاش یہ کتاب  میرے پاس ہوتی تو میں اس کا مطا لعہ کرتی۔دعا کب قبول ہوجائے یہ کوئی نہیں جانتا ،شاید نہیں  یقینناً میری دل کی مراد اسی لمحے پوری ہوچکی تھی۔ اس وقت میری حیرت کی انتہانہ رہی جب مجھے اس کتاب پر کام کرنے کا موقع ملا۔آج میں بہت خوش ہوں کہ نہ صرف میں نے اس منفرد کتاب کا مطالعہ کیا ہے بلکہ  ایک نئی دنیا کا سفر بھی کیا ہے۔ایسا سفر جسے انسان کبھی بھول نہ پائے۔

چولستان کے تپتے ریگزاروں میں چلتا مسافر،سرخ اینٹوں سے بنی دیدہ زیب اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور،قدیم گیٹ باب فرید، ایک خوبصورت سرسبز درخت،نیلگوں فلک پر  لکھا” بہاول پور میں اجنبی” پڑھنے والوں کو پہلی ہی نظر میں اپنی جانب متوجہ کرتا ہے کہ آؤ دیکھو، میرے اندر تجسس و حیرت کا اک نیاجہاں آباد ہے،آؤ میری سیر کرواور ایک ان دیکھی دنیا سے واقف ہو جاؤ۔اک ایسی دنیا جس کا تصور پہلے کبھی نہ کیا ہو۔اک ایسا سفر جس کا راہی بن کر خوابوں کو منزل مل جائے اور دل پکار اٹھے یہی تو وہ مقام ہے جس کی تلاش میں صدیوں سے مارا مارا پھر رہا تھا۔زیریں حصے میں پریس فار پیس فاؤنڈیشن  (یوکے ) تحریر ہے۔فرنٹ فلیپ پر مصنف ،محقق اور تجزیہ کار شمس رحمان(مانچسٹر،انگلینڈ) کی رائے موجود ہےجب کہ بیک فلیپ پر         شاعر عنایت اللہ عاجز(سٹاکٹن آن ٹیز،انگلینڈ)،افسانہ و ناول نگار،محقق،مدیر دیدبان میگزین ڈاکٹر نسترن احسن فتیحی(نئی دہلی) اور مصنف ومعلم جاوید خان(راولا کوٹ آزاد جموں کشمیر) کی آراء گراں قدر اہمیت رکھتی ہیں۔ان قابل قدر شخصیات کی آراء  کتاب کے حسن میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔انتساب والدہ محترمہ اور علم کی طلب میں صحراؤں کی خاک چھاننے والوں  کے نام کیا ہے۔علم ایک ایسا  سایہ دار شجر ہے  جس کی چھاؤں میں بیٹھنے  کے لیےجتنی  شدت انسان کے اندر بڑھتی جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ شدت سے علم تناور درخت کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور ا س کی خوبصورت نرم و نازک ٹہنیوں پر جھولتے ہوئے  انسان ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے  جہاں پر کسی کے گزرنے کا شائبہ تک نہ ہو۔ایسی دنیا کو پاکر اس کی ذات سے خوشی کے ہزار چشمے پھوٹنے لگتے ہیں جو اپنا رستہ بناتے ہوئے صحراؤں، بیابانوں،ریگستانوں اور غیر آباد  علاقوں کو اس طرح سیراب کرتے چلےجاتے ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے  چہارسو خوش رنگ پھول ، پرندوں  کے گیتوں کے ساتھ   خوش نما گلشن میں کب بدل جاتے ہیں پتاہی نہیں چلتا۔انسان صبح کے وقت چلنے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے  اپنے چہرے پر محسوس کرتے ہوئے علم کے گلشن میں کھوجاتا ہے ۔خوب، کیاقدرت کی صناعی ہے جس نے مختلف رنگوں کی آمیزش سے علم کے گلشن اور علم کی زمین میں دلنشین ست رنگوں کا چھڑکاؤ کر کے دل و دماغ موہ لیا ہے۔

کتاب کا آغاز سعود عثمانی کے شعر سے ہوتا ہے۔اس کتاب میں ۲۴ عنوانات درج ہیں جب کہ  ۲ افسانے بھی موجود ہیں۔میرے نزدیک یہ کتاب  بیانیہ سفر نامہ ہے جو مختلف اسفار پر مشتمل ہے۔یہ سفر راولا کوٹ سے شروع ہوکر  برطانیہ تک پھیلا ہوا ہے۔سفر چاہے کسی بھی نوعیت کا کیوں نہ ہو وہ کبھی بھی ختم نہیں ہوتا بلکہ سفر کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو انسان کی موت کے بعد بھی چلتا رہتا ہے۔ اگر اسے یاد داشتوں کی ڈائری کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیوں کہ مصنف کے نزدیک  یہ کتاب ڈائری کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس میں ذہن میں محفوظ   یادوں کو  خوش نما رنگوں میں بھگو کر صفحہ قرطاس پر الفاظ کی صورت میں ڈحال  دیا ہے۔اسے مصنف کی مختصر سوانح عمری بھی کہا جاسکتا ہے۔

مظہر اقبال مظہر  نے جس طرح بہاول پور کی  تاریخ و ثقافت کو بیان کیا ہے وہ لائقِ تحسین ہے۔قارئین کرام  اس کتاب کے مطالعے سے قدیم  و جدید بہاول پور کی تہذیب و ثقافت سے آشنا ہو جاتے ہیں۔اپنے اندر تجسس کی ابھرنے والی لہر کو پرسکون بنانے کے لیے  تاریخ کے اوراق پلٹنا شروع کرتے ہیں۔یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا ہوجاتی ہے آج سے کچھ صدیاں  ماضی میں جھانکیں تو اس وقت کا بہاول پور اپنی  خوبصورت تہذیب و معاشرت کے ساتھ  آنکھوں کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔کوچوان کی آواز اس خوبصورتی میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔سائیکل رکشوں پر سفر کرتے ہوئے موسم سے لطف اندوز ہونے کا اپنا ہی ایک مزہ ہے۔یہ مزہ وہی جانتا ہے جس نے سائیکل رکشے پر سفر کیا ہو۔نیلگوں فلک پر تیرتے ہوئے سحاب کے ٹکڑے،بھیگا موسم،تواتر سے ہوتی مسلسل بوندا باندی،کھانوں کی مہک،لوگوں کی ملی جلی آوازیں، بازاروں کی رونق،روشنیوں میں نہایا ہوا باب فریداور مضافات کے علاقےاوراس ماحول کو اور خواب ناک بنانے کے لیے کہیں دور سے آتی ہوئی لتا منگیشکر کی آواز کا جادو ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے کافی تھا۔بابا فرید کی کافیاں  بہاول پور کے حسن کو مزید چار چاند لگادیتی ہیں۔ان کی شاعری میں اس شہر سے محبت  کی چاشنی ٹپکتی نظر آتی ہے۔ایک روایت کے مطابق ایک بار جو انسان بہاول پور میں  آجائے اور اپنا دل دے بیٹھے تو  واپسی کا سفر اس کے لیے آسان نہیں ہوتا۔بغیر دل کے وہ روتا ہوا واپس چلا جاتا ہے اور اپنا سب کچھ بہاول پور کے نام کر جاتا ہے۔بہاول پور میں بہت کشش ہے جو ہر دیکھنے والی آنکھ اور سراہنے والی زبان کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ جو بھی ایک بار اس شہر کو محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے وہ اپنا سب کچھ ایک ہی پل میں ہار جاتا ہے۔

مظہر اقبال مظہر کا تعلق چوں کہ  کشمیر سے ہے۔بہاول پور سے ان کا تعلق  بحیثیت ایک طالب علم کا ہے لیکن پھر بھی انہوں نے بڑی خوبصورتی سے بہاول پور کی تہذیب و ثقافت اور معاشرت کو  بیان کیا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ اپنے مختلف اسفار کو دلکش انداز میں نہ صرف بیان کیا ہے بلکہ اس وقت کی تہذیب و معاشرت کی تصویریں بھی  فلم کی صورت میں دکھاتے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔کتاب کے دوسرے حصے میں ان کے دو افسانے شامل ہیں۔جن میں مٹتی ہوئی انسان کے اندر کی انسانیت پر نوحہ کناں ہیں۔معاشرے کی تلخ سچائیوں کو اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے۔وہ ایک دردمند انسان ہیں جو دوسروں کا دکھ اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں اور بعض اوقات یہی دکھ  ان کی تحریروں میں بھی نظر آتا ہے۔

”بہاول پور میں اجنبی“ ایک نوجوان  کی اپنی شناخت کا سفر ہے۔جو خود کو تلاشنے کے لیے مارا مارا پھرتا ہے۔تلاش کا یہ سفر بہاول پور سے شروع ہوکر  برطانیہ تک پھیلا ہوا ہے۔اس کتاب کے مطالعے سے بخوبی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مظہر اقبال مظہر  کوئی اور نہیں بلکہ ‘اپناہی بندہ’ ہے۔جس کے دل میں آج بھی روزِ اوّل کی طرح بہاول پور اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ جلوہ نما ہے۔یہ کتاب  ان کی بہاول پور سے محبت کا  ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔دلکش اور منفرد اسلوب ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔بہت ہی خوبصورت پیرائے میں اس کتاب کو تحریر کیا گیا ہے۔اپنے منفرد عنوانات کی بدولت یہ کتاب اردو ادب کی دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔ مصنف مظہر اقبال مظہر کو ان کی اس خوبصورت کتاب کی بدولت  ادب کی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact