ایک دفعہ ایک مدھو مکھی اڑتی ہوئی دفتر سے اچھے مزاج میں اپنے گھر کو جا رہی تھی کہ راستہ میں اسے بو آنے لگی۔ اب مدھو مکھی پریشان ہوگئی کہ ایسی بو آ کہاں سے رہی ہے؟
وہ خود بہت صاف ستھری رہتی تھی اور اپنے اردگرد کے ماحول کو جہاں تک ہو سکے صاف رکھنا پسند کرتی تھی۔ وہ راستے میں پڑا کوئی بھی کوڑا کرکٹ کوڑے دان میں ڈال دیتی تھی۔
تھوڑا اور آگے بڑھنے لگی تو اسے عام مکھی ملی۔ عام مکھی بہت گندی ہو رہی تھی۔ وہ لگھ بھگ بیس سال کی لگ رہی تھی۔
عام مکھی اپنے کوڑے دان گاؤں سے باغ گاؤں میں رہنے آتی ہے۔ وہ بہت پریشان ہوتی ہے اور دل ہی دل میں اپنے رب سے کہہ رہی ہوتی ہے کہ “یا رب! میرا کیا ہوکا اب؟” مگر پھر وہ باغ گاؤں کی دلکشی میں کھو جاتی ہے۔ باغ گاؤں بہت پیار، صاف ستھرا اور خوشگوار ہوتا ہے۔ جبکہ کوڑا دان گاؤں میں صرف کوڑا اور ہر جگہ کچرے کے ڈھیر ہوتے تھے۔ ماحول کافی غلاظت والا ہوتا تھا۔ وہ باغ گاؤں کو آنکھے پھاڑے دیکھ رہی ہوتی ہے کہ اسے سامنے سے ایک مکھی آتی دکھتی ہے۔ اس نے سنا ہوتا ہے کہ دنیا میں بہت مکھیاں پائی جاتی ہیں اور پیلے بھورے رنگ کی مکھیاں مدھو مکھیاں ہوتی ہیں۔ وہ ایسے دکھاوا کرتی ہے کہ اس نے مدھو مکھی کو دیکھا ہی نہ ہو۔ مدھو مکھی اسکی طرف دیکھتی ہے وہ آنکھیں پھیر لیتی ہے اور مدھو مکھی کو دیکھنے سے گریز کرتی ہے۔ مدھو مکھی کو عام مکھی کا برتاؤ کچھ سمجھ نہیں آتا۔ وہ بات کرنے کی کوشش کرتی مگر کیا کہیں کچھ نہ سوجھا تب مدھو مکھی سے بو کے مارے رہا نہیں گیا اور اس نے عام مکھی سے پوچھ ہی لیا کہ، “مکھی بیٹا! آپ کہاں سے آ رہی ہو اور آپ اتنی گندی کیوں ہو رہی ہو؟” عام مکھی نے سوچتے ہوۓ مدھو مکھی سے کہا “میں گندی لگ رہی ہوں آپ کو آنٹی؟” مدھو مکھی نے کہا “جی بیٹا! آپ بہت گندے اور بدبودار ہو رہے ہو۔” وہ غصے سے مدھو مکھی کو دیکھتی ہے اور کہتی ہے کہ، “آنٹی آپ ایسے مجھے نہیں کہیں۔” اس بات پر مدھو مکھی نے اسے بتایا کہ “میں خوشی خوشی دفتر سے گھر روانہ ہورہی تھی چنانچہ مجھے بو آنے لگی، اور ڈھونڈنے پر مجھے آپ پاس ہی ملے ہو یہاں۔” اس پر عام مکھی اور آگ بگولہ ہوگئ اور اس نے مدھو مکھی سے کہا، “آنٹی آپ کو وہم ہوا ہے۔ مجھ میں سے کوئی بو نہیں آرہی ہے۔” اس بات کو سن کر مدھو مکھی نے عام مکھی سے کہا، “اچھا بیٹا! اگر آپ میری بات مانو تو میں آپکو کہیں لے چلوں؟” عام مکھی نے جوابً کہا،”جی نہیں، مگر کیوں اور کہاں؟” مدھو مکھی بولی “آرے! بیٹا چلو بھی سوال بہت کرتی ہو، میں آپ کو سب سمجھاتی ہوں۔” مدھو مکھی پاس ہی نہر تک عام مکھی کو لے گئی۔ اس نے پھر عام مکھی سے کہا، “بیٹا! اب اس صاف پانی میں اپنے آپ کو دیکھو۔” اس بات کو سن کر عام مکھی نے پہلے آنٹی کو اوپر سے نیچے تک گھورا اور پھر اپنا عکس دیکھنے پانی کی طرف جھکی۔ اس نے اتنا صاف پانی پہلی بار دیکھا تھا اور اس میں اسے اپنا عکس دکھا۔ اس کے عکس میں چہرے پر کالک اور پروں وغیرہ پر میل جما نظر آیا اور اس کے ہاتھ اور پاؤں بھی گندے نظر آۓ۔ اس پر عام مکھی نے پہلے خود کو دیکھا اور پھر مدھو مکھی کو دیکھا اور اسے احساس ہوا کہ مدھو آنٹی صحیح کہہ رہی ہیں۔ چنانچہ عام مکھی نے مدھو مکھی آنٹی سے سوال کیا کہ، “آپ کہہ تو صحیح رہی ہیں آنٹی مگر یہ بو مجھے ابھی بھی نہیں آرہی ہے اور مجھے نہیں معلوم تھا پانی ایسا بھی ہوتا ہے۔” جس پر وہ مدھو مکھی مسکرائی اور کہنے لگی کہ “آپ جس ماحول میں رہتی ہو یا جہاں سے بھی آئی ہو وہاں گندگی اور بو عام ہوگی۔ تبھی آپکو اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ وہ آپ میں ہی سے آرہی ہے۔” جس پر وہ عام مکھی حیران ہوئی اور کہنے لگی کہ، “جی میں دور کوڑے دان گاؤں سے آئی ہوں۔ وہاں ہم عام مکھیوں کا بسیرا ہے اور وہاں صاف صفائی کا کوئی رواج نہیں۔ ہم کچھ کرتے ہی نہیں۔ ہمارا کھانا بھی کوڑا ہوتا ہے اور اردگرد بو اور بوسیدگی ہوتی ہے۔ پانی مٹی ملا ہوتا ہے۔ آپکا گاؤں بہت چمکدار ہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اتنی پیاری جگہ بھی کوڑے دان گاؤں کے باہر ہوسکتی ہے۔” مدھو مکھی یہ سب سن کر دنگ رہ گئی۔ اسکو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو کوڑے کرکٹ میں ہی رہتے، سوتے اور کھاتے بھی وہی ہیں۔
اس سب کے بعد مدھو مکھی نے عام مکھی کو لے کر ساتھ پودے کے نیچے بیٹھ گئی اور پھر اس سے واپس پوچھا کہ، “آپ یہاں کیوں آئی ہو؟” اس پر عام مکھی نے جواب دیا کہ “گاؤں میں میرا کوئی نہیں اور میرے ماں باپ حادثے میں جان سے چلے گۓ۔ اسکے بعد میرے پڑوسیوں نے میرا گھر چھین لیا۔”
جس پر مدھو مکھی کو اس پر بہت رحم آیا اور اس نے عام مکھی سے کہا کہ، “اگر بیٹا آپ مجھ سے وعدہ کرو کہ آپ ویسا کرو گے جیسا میں کہوں گی تو میں آپکو اپنے ساتھ اپنے گھر میں رکھ لوں گی ورنہ مشکل ہو سکتی ہے۔” یہ سن کر عام مکھی خوش ہوئی اور اس نے مدھو آنٹی سے وعدہ کیا کہ جیسا وہ کہیں گی وہ بس ویسا ہی کرے گی۔”
مدھو آنٹی اسے نہر کی طرف لے جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ، “بیٹا! اس پتھر پر بیٹھو جیسے میں بیٹھی ہوں اور پانی کو ہاتھ میں ایسے جما کرو جیسے میں کر رہی ہوں۔ اب اپنے آپ کو صاف کرو۔” عام مکھی ویسے ہی کرتی ہے جیسے مدھو آنٹی اسے بتاتی اور دکھاتی جاتی ہیں۔ اس طرح عام مکھی بلکل صاف ستھری ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے شیشے جیسے پروں کو دیکھتی ہے اور خوشی سے مدھو آنٹی کے گلے لگ جاتی ہے اور کہتی ہے کہ، “آنٹی یہ تو بہت نۓ جیسے لگ رہے ہیں۔ ” وہ اپنا عکس پانی میں دیکھتی ہے اور اسے خود کو دیکھ یقین نہیں آتا ہے۔ اب بار بار مدھو آنٹی کو خوشی سے قہقہے لگا لگا کر بتاتی ہے کہ، “آج کا دن میرا سب سے اچھا دن رہا اور میں آپکی شکر گزار ہوں آنٹی جو آپ نے مجھے اپنے آپ کو صاف کرنا سکھایا۔” مدھو مکھی ہنستے ہوۓ اس بات پر اسے کہتی ہیں کہ، “جی جی میں آپکی خوشی سمجھ رہی ہوں بیٹے، آؤ چلو میرے گھر میں آپ کو کھانے میں مزے کی چیز کھلاؤں گی جو آپ نے کبھی نہیں کھائی ہوگی۔” وہ آنٹی کے ساتھ ان کے گھر کی طرف روانہ ہو جاتی ہے۔ گھر جب عام مکھی دیکھتی ہے تو بے ساختہ اسکے منہ سے “واہ واہ” نکل آتا ہے۔ مدھو آنٹی اسکو مسکرا کر دیکھتی ہیں۔ اور گھر کا دروازہ کھول کر اسے اندر لے جاتی ہیں۔ مدھو آنٹی کا گھر چھوٹا مگر بہت خوبصورتی سے بنا ہوتا ہے۔ ہلکے گندمی رنگ کی دیواریں۔ سب کچھ جگہ پر ترتیب سے رکھا ہوا اور گھر میں بھینی بھینی پھولوں کی خوشبو آرہی ہوتی ہے۔ مدھو آنٹی اسے کچن میں لے جاتی ہیں جہاں چھوٹے برتنوں میں پیلے رنگ کی کوئی چیز ہوتی ہے۔ جو مدھو آنٹی اسے ایک صاف پتے میں نکال کر دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ آج سے آپ یہاں یہ کھاؤ گی۔
پہلے تو عام مکھی اسے غور غور سے دیکھتی ہے کے یہ ہے کیا۔ مدھو مکھی یہ دیکھ مسکراتی ہیں اور کہتی ہیں کہ، “بیٹے اب کھاؤ بھی یہ شہد ہے آپکو پسند آۓگا۔ عام مکھی شہد جیسے ہی کھاتی ہے اسکا چہرہ دیکھنے لائق ہوتا ہے۔ “آنٹی یہ شش- شہد بہت ہی مزے کا ہے میں تو ایسا کھانا پہلی مرتبہ کھا رہی ہوں یہ لذیذ ہے۔” مدھو آنٹی اسکے سر پر ہاتھ پھیرتی ہیں اور کہتی ہیں آج سے یہ ہمارا گھر ہے اور آپ میرے ساتھ رہنا ہم شہد کھائیں گے اور ہنسی خوشی رہیں گے۔” اس پر عام مکھی مدھو مکھی کو گلے لگا لیتی ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتی ہے کہ رب نے اس سے سب کچھ چھینا تو مگر اس سے بڑھ کر اسے عطا بھی کیا۔ پھر وہ اور مدھو آنٹی ہنسی خوشی رہنے لگے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.