Sunday, May 19
Shadow

غریب کون ؟/مصنفہ:نسیم امیر عالم

نسیم امیر عالم
عیدکی چاندرات متوقع تھی۔یعنی آج آخری روزہ تھایاکل بھی روزہ ہوگا یہ چنداماماکےمکھڑےکودیکھنے پر منحصرتھا۔بچےدعامانگ کر۔۔۔۔مردٹی وی کے آگے بیٹھ کر۔۔۔عورتیں جلدی جلدی کاموں کو نمٹاتےہوۓ۔۔۔۔نوجوان دوربین لیےچھت پرغرض ہرکوئ منتطر تھاکہ کل عید ہے یا نہیں۔۔۔۔۔!!
سب خوش تھےلیکن اس تمام صورت حال میں ایک بچہ ایسا بھی تھاجواس جگمگاتی خوشیاں بکھیرتی رات میں بھی افسردہ اورغمگین تھا۔وہ حسرت سے آس پڑوس کے خوشیوں بھرےہنگامے کو دیکھتا اورسر جھکاکرٹہلنے لگ جاتا۔باجی ہوں یا امی۔۔۔۔بےحدمصروف دکھائ دے رہی تھیں۔۔۔۔بابا جانی بھی پرتفکراورپریشان سے تھے۔اس کی طرف کسی کا بھی دھیان نہیں تھااور نہ ہی توجہ تھی کہ عکرمہ کہاں ہے۔۔۔۔۔کیا کر رہا ہے۔۔۔کس کیفیت کے زیر اثر ہے۔۔۔!

وہ حسرت سےسامنے والےکوارٹرکو تک رہاتھا۔اس کوارٹرکے باہران کاور خاندان پر مسرت انداز میں جمع ہو کرآسمان کو تک رہا تھا۔ماں ,باپ,اوردو اس کے ہم عمر بچے۔۔۔۔!
اچانک فضا میں سائرن کی آواز گونجنے لگی۔وہ ہم عمر بچے پہلےتوآپس میں خوشی سےلپٹ گئےاور پھر ان کے ماں باپ نے ہنستے ہوے ان کو بمشکل گود میں اٹھا لیا۔۔۔

*چاندنظر آگیا۔۔۔۔چاند نظر آگیا۔۔۔!کل عید ہے۔۔۔۔بابا ہم سویاں کھائیں گے ۔۔۔۔۔عیدی بھی لیں گے۔۔پھپھو کے جائیں گے۔۔۔۔چچا کے گھر دعوت کھائیں گے۔۔۔بچےجھوم جھوم کر جیسے خوشی کا گیت سا گانا لگنے۔*
عکرمہ کے چہرے جی اداسی مزید گہری ہوگئ۔وہ یہ سب افسردگی سے دیکھ اور سن رہا تھا۔اس نے اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھا اور پھر ان بچوں کے ہاتھوں کی جانب دیکھا جو ماں باپ کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالےواپس کوارٹر کی جانب جا رہےتھےکہ اچانک ماں نے محبت سے کہا گرم گرم میٹھے پراٹھے بناؤں گی چاند رات کی خوشی میں۔۔۔واہ امی جان واہ۔۔۔۔!
بچے اس میٹھے سے “سرپرائز “پرحیران وخوش ہوگۓ۔اور وہ سب کوارٹر کے اندر چلے گئے۔
ابھی وحسرت سے یہ منظر دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک اس کی باجی پیچھے سے نمودار ہوئ اور زور سے چیخ کر کہا۔۔۔عکرمہ!
تم یہاں لان میں کیا کر رہے ہو۔۔۔۔چلو اندر۔۔۔۔ پیزا منگوایا ہے مما نے چاند رات کی خوشی میں۔اتنے میں مما خود آگئیں۔ارے بھئ تم لوگ جلدی پیزا کھالواور مجھے بالکل ڈسٹرب نہیں کرنا کیوں کہ میرے چینل کوبہت لائک اور کمنٹس مل رہے ہیں۔مجھے ویڈیوز اپ لوڈ کرنی ہیں۔اس لیےمیرے پاس بالکل وقت نہیں ہے۔یہ کہتے ہوۓ وہ اپنے کمرے میں چلی گئیں۔باجی بھی موبائل اسکرین کو گھورتی ہوئ اپنےکمرےمیں چلی گئ۔اب بچے بابا۔۔۔۔۔۔تو وہ اپنے شئیرز کی وجہ سے پریشان تھے۔اب کچھ سکون میں آۓ تھے۔پارٹنر سےبات کرتے ہوۓ لاپرواہ انداز میں بولے کہ وہ عید کا دن سو کر گزارتے ہیں۔بچے ڈرائیور کے ساتھ گھومنے چلے جاتے ہیں۔آج کل کے بچے بہت تیزہیں ان کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ہم کیا ٹائم دیں۔۔۔اللہ کا شکر ہے ہر گیجٹ ہے ان کے پاس۔۔۔۔۔انہوں فخر سے اپنی بے تحاشہ دولت کا رعب جھاڑا۔۔۔۔۔اچھا اوکے باۓ۔۔۔باۓ۔
عکرمہ نے ملامت بھری نظروں کے ساتھ بے نیاز باپ کو دیکھا اور اپنے کمرے میں آگیا۔۔۔وہ چیخ چیخ کر اپنے باپ سے کہنا چاہتا تھا کہ مجھے کی کمپنی چاہیے۔۔۔۔ڈرائیور چاچا چھوٹے سے کوارٹر میں اپنے بیوی بچوں ے ساتھ چاند رات منا رہے تھے اور وہ اس عالی شان بنگلے میں سب رشتوں کے ہوتے ہوۓ تنہا تھا۔اسکے چچا باہر تھے۔۔۔پھپھو سے مما کی بنتی نہیں تھی اور جو مما بابا کے غریب رشتے دار تھے ان کے پاس مما بابا جاا پسند نہیں کرتے تھے۔پھر میں کیا کروں۔۔۔وہ تھکا تھکا سا اپنےکمرے میں آگیا۔۔۔کمرے کی ہرچیز سے امارت ٹپک رہی تھی۔اگر کوئ بے رونق تھا تو وہ عکرمہ کی ذات تھی۔
اس نے کھڑکی سے بریک چاند کو دیکھا اوراپنے اندر کے سناٹے کو محسوس کر کے دو موٹے موٹے آنسو اس کے گا لوں پر لڑھک آۓ۔اور وہ مجبورا گیم کھیلنے لگا۔تھوڑی دیر بعد ٹارگٹ کو ہٹ کرنے کی خوشی میں اس کی دل چسپی اتنی بڑھی کہ وہ بھول گیا کہ آج چاند رات ہے اور کل عید ہے۔وہ گیم کھیلتا رہا۔۔۔اداسی۔۔۔۔۔پریشانی۔۔۔۔اکیلے پن کو دور کرتے ہوۓ اسے گیم ایک دوست کی طرح مہربان محسوس ہوا۔وہ خوشی سےقہقپے لگانے لگا۔۔۔۔اسےلگا جسے یہ عالی شان بنگلہ۔۔۔۔دولتمند والدین کااجنبی رویہ۔۔باجی کا برتاؤ سب اس پر قہقہہ لگا رہے ہوں۔وہ بھی ہسنتا چلا گیا۔۔اور میں سوچ رہی ہوں غریب کون ہے وہ کوارٹر میں رہنے والا عکرمہ کا ڈرائیور یا عکرمہ خود۔۔۔۔۔؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact