یاد رفتگان: نسرین بھابھی کے نام/ نسیم سلیمان

You are currently viewing یاد رفتگان: نسرین بھابھی کے نام/ نسیم سلیمان

یاد رفتگان: نسرین بھابھی کے نام/ نسیم سلیمان

تاثرات : نسیم سلیمان
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
کوئی کتنا خوب صورت ہو سکتا ہے کتنا پیارا، کتنا اچھا اور دلفریب ہو سکتا ہے۔کتنا باوقار ہو سکتاہے۔معاشرے میں  اس کی عزت و تکریم کیسے ہوتی ہے!!لوگ اسے کتنی عزت دیتے ہیں اس سب کا ادراک دس اور گیارہ جنوری2023 کو ہوا۔جب  نسرین بھابھی کا سفر  آخرت شروع ہوا۔ان کے سفر آخرت کے آخری دو دنوں میں اندازہ ہوا کہ وہ لوگوں میں کس قدر مقبول تھیں۔
وہ مجھے شروع سے ہی بہت اچھی لگتی تھیں۔میری سکول فیلو  تھیں۔ہمارا تعلق ایک ہی گاؤں سے تھا۔اس لحاظ سے ہم ایک دوسرے کو جانتے تھے۔گو کہ بہت  زیادہ دوستی نہ تھی۔لیکن مجھ سے سینئر تھی اس لیے ان کے لیے ایک احترام و عقیدت کا جذبہ  میرے دل میں موجود تھا۔
اگر ان کی شخصیت کا احاطہ کیا جائے تو ان کو دیکھتے ہی ایک خوش گوار سا احساس پیدا ہوتا۔ان کے سروقد سراپے کو دیکھ کرخود بخود ہی ستائش کرنے کا دل کرتا تھا۔بہت خوب صورت ڈریسنگ کے ساتھ سب کی توجہ کا مرکز ہوتیں۔ ایسے جیسے کسی مصور کا بہت خوب صورت شاہکار ،کسی شاعر کا خواب۔
رب نے بڑی ہی فرصت سے بنایا۔ تھا خوب صورت ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی اخلاقی اقدار و روایات  کی امین بھی۔
ستمبر 1999ءکو وہ میری بھابھی کے روپ میں ہماری فیملی کا حصہ بنیں۔تب سے لے کر آج تک اپنے اعلی اخلاق و کردار کی بدولت سب کے لیے بہت قابل فخر اور قابل عزت رہی ہیں۔ان کا رکھ رکھاؤ اور مہمان نوازی اپنی مثال آپ  تھا۔
رشتے ناطے کا تقدس اور احترام کیا ہوتا ہے۔اس سب کو وہ بہت اچھے سے نبھارہی تھیں۔
وہ بہترین ماں ،بہترین بیوی،بہترین بھابھی تھیں۔ اپنے ہر روپ میں وہ سب کے لیے بہت محترم تھیں۔دیندار اور بااصول سی خاتون۔
زندگی اپنی خوب صورت ڈگر پر رواں دواں تھی۔
پرسکون  سی زندگی میں اچانک ہی طلاطم برپا ہو گیا۔جب یہ پتا چلا کہ نسرین بھابھی کو کینسر ہے۔اور وہ بھی آخری سٹیج پر۔گویا کہ زندگی رک سی گئی ۔یہ کیا ہو گیا کیسے ہو گیا
!!!
سب کے لبوں پر ان کی صحت وزندگی کے لیے دعائیں تھیں۔کہ رب کی زات کوئی معجزہ ہی دکھا دے۔۔”علی مریم” کی ماما واپس لوٹ آئیں۔لیکن ایسا نہ ہوا۔اللہ پاک کو شاید وہ ہم سب سے زیادہ پیاری تھیں۔
شفاء انٹرنیشنل کے وہ آخری شب وروز جو 28 دسمبر 2022 سے 10 جنوری 2023 تک محیط رہے۔بہت ہی صبر آزماء، بہت طویل امید اور نا امیدی کے گرداب  میں ڈوبتے ابھرتے وہ دن کیسے گزرے۔ممکن نہیں کہ ان دنوں  کی اذیت و کرب کو لفظوں کے روپ میں ڈھالا جا سکے۔
کے ویٹنگ روم سے آئی یو سی کے درجنوں چکر ہر چکر میں ایک نئی امید “علی مریم”
کہ اب ماما ٹھیک ہو جائیں گی۔کبھی بھی نہیں بھول پاؤں گی۔

صغیر بھائی کا اداسیوں میں ڈوبا چہرہ۔
ان کے جانےسے ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جس کی بھرپائی بہت مشکل ہے۔
کس قدر پریشان ایام رہے یہ۔نسرین بھابھی جو نہ صرف  “علی، مریم” کی ماما تھیں بلکہ ہمارے خاندان کی شان ،عزت کرنے والی ،عزت کرانے والی۔
ساری زندگی  اپنی سفید پوشی کے بھرم کو قائم رکھا۔اتنی خاموشی سے کچھ بھی کہے سنے بغیر عدم کی راہ پر چل دیں۔ آپ کے بغیر “علی مریم” کا کیا ہو گا۔ماں کی ممتا اور خوشبو کہاں سے ملےگی۔کچھ بھی تو بتائے بغیر آپ چلی گئیں۔
دس جنوری 2023 کو سہہ پہر2..بج کر37 منٹ پر اس فانی دنیا کو الوداع کہہ گئی  شدید برف باری اور بارش کے باوجود لوگوں کا جم غفیر ان سے لوگوں  کی محبت کا غماز تھا۔  دعا ہے پروردگار سے کہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔”علی مریم” اور صغیر بھائی کو صبر اور استقامت عطا کرے۔ان لوگوں نے جس بہادری اور صبر سے بیماری کے ایام کو گزارا ۔اللہ پاک ان کو  اجر سے نوازے ۔۔ ۔آنے والی زندگی میں  ان کے لیے آسانیاں عطا فرمائے


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.