Friday, May 17
Shadow

قائداعظم کا تصورِ قومی زبان | قراۃالعین عینیؔ

قراۃالعین عینیؔ
وہ عطر دان سا لہجہ مرے بزرگوں کا
رچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو
(بشیر بدر)
کسی قوم کی زبان اس کی تہذیب ثقافت اور اُس کی اصل  پہچان  ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں  قومی زبان ہمیشہ سے ایک حساس موضوع رہا ہے۔ اکثر اقوام اپنی قومی زبان پر فخر کرتی ہیں اور یہ پختہ یقین رکھتی ہیں کہ قومی اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ ترقی کا ایک اہم ذریعہ قومی زبان میں تعلیم ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کی دنیا کی تمام اقوام جنہوں کے اپنی قومی زبان کو اہمیت  دی آج ترقی یافتہ ممالک کی صفِ اول میں کھڑی ہیں۔
اردو کے معنی لشکری  زبان کے ہیں ۔  مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد کے نتیجے میں ملنے والے تحائف میں سے ایک  تحفہ اردو زبان بھی ہے ۔ اردو زبان مختلف زبانوں کامجموعہ ہے اور اردو یہ خاصیت رکھتی ہے کہ کسی بھی زبان کو با آسانی اپنے اندر سمو لے۔  عاطف توقیر ،’’ اردو زبان کا ارتقا ‘‘،میں لکھتے ہیں کہ’’کہا جاتا ہے کہ فارسی کے الفاظ کی حامل ہندوستانی زبان کے لیے لفظ ‘اردو‘ کا استعمال پہلی مرتبہ شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780 کے قریب کیا۔ اس زبان کی گرامر مقامی ہندوستانی لہجے ‘کھڑی بولی‘ سے ماخوذ رہی جب کہ اس کے لیے فارسی سے ماخوذ نستعلق خط کا استعمال کیا گیا۔‘‘(۱)
یوکے ڈکشنری کے مطابق قومی زبان ایک ایسی زبان ہے جو، ’’ ایک ایسی زبان جو کسی قوم کے باشندوں کا ایک بڑا حصہ بولتا ہو ۔ کسی خاص قوم میں ایک سرکاری زبان،  جو حکومت  میں تسلیم شدہ ہو اور اپنائی گئی ہو اور ایک جغرافیائی حدوداربع میں باہمی رابطے کا ذریعہ ہو۔ قومی زبان کہلاتی ہے۔‘‘(۲)
پاکستان کے عوام بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کی سالمیت اور اتحاد کی ایک اہم علامت قومی زبان ہے۔ پاکستان کی قومی زبان اردو اس لیے ہے کہ تحریک پاکستان میں اسلام کے بعد مسلمانان برصغیر کے اتحاد کا سب سے بڑا ذریعہ اردو تھی،
’’۱۸۳۷   میں اردو کو انگریزی کے ساتھ سرکاری درجہ حاصل ہوا۔ یہ زبان مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان بھی موثر ترین پل کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔
یہ بات واضح رہے کہ اس موقع تک ہندوستانی زبان نستعلیق رسم الخط ہی میں لکھی جا رہی تھی اور اس وقت اردو اور ہندی کو دو الگ الگ زبانوں کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا۔ تاہم ایسے میں آریا سمائی احتجاج شروع ہوا، ہندوستانی کے لیے مقامی دیوناگری رسم الخط پر زور دیا گیا۔ اسی تناظر میں ہندوستانی زبان کو دو الگ الگ رسم الخط میں لکھا جانے لگا اور یہیں سے اردو اور ہندی کی راہیں جدا ہوئیں۔
رسم الخط ہی پر موجود جھگڑا ‘اردو برائے مسلم‘ اور ‘ہندی برائے ہندو‘ جیسے مذہبی نعرے میں تبدیل ہوا۔ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان میں اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کے تناظر میں یہ معاملہ اور گہرا ہو گیا۔‘‘ (۳)
(اُردو زبان کا ارتقاء)
اُردو برصغیر ہند و پاکستان میں مسلمانوں کے دور حکمرانی کے دوران مختلف زبانوں کے باہم ملنے سے وجود میں آئی۔ ’’سنسکرت، ہندی، عربی، فارسی، لشکری ، انگریزی ،ریختہ کہلاتی ہوئی ساری زبانوں کے الفاظ اپنے اندر جذب کرتی ہوئی اب پاکستانی اُردو ہے‘‘(۴)۔ اُردو اس وقت دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نے قیام پاکستان کے فورا بعد واضح کردیا تھا کہ، پاکستان کی قومی زبان صرف ایک اور وہ اردو ہوگی۔ لیکن برسوں گزر گئے اردو کو اس کا حق نہیں دیا گیا یعنی سرکاری دفتری، عدالتی اور تعلیمی زبان کے طور پر اردو کو نافذ نہیں کیا گیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قائداعظم نے اردو زبان کے نفاذ پر زور کیوں دیا اور آپ اردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان کیوں دیکھنا چاہتے تھے؟۔
اردو زبان کے بارے میں قائداعظم کا پہلا بیان جو ۱۹۴۲  میں دیا گیا  ”پاکستان مسلم انڈیا“ دیباچے میں کچھ اس طرح سے ملتا ہے ،
’’پاکستان  کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔‘‘(۵)
قائد اعظمؒ  نے ۱۰ اپریل ۱۹۴۶ء کو اپنے آل انڈیا مسلم لیگ  اجلاس ،دہلی    میں فرمایا :
’’میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔ ‘‘(۶)
قائد اعظم اردو کے تہذیبی اور فکری لحاظ سے اہم ہونے  سے آگاہ تھے۔ ان کے نزدیک اردو نہ صرف برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے مذہی، فکری، تہذیبی ، سیاسی ، سماجی اور معاشرتی رویوں کی آئینہ دار تھی اور ہے،  بلکہ اس کا  دوسری زبانیں جو مسلم ممالک میں بولی جاتی ہیں ان سے گہرا رشتہ ہے، ایک ایسی زبان جس میں تمام زبانوں کی اقدار مشترک ہو مسلمانانِ  عالم کو جوڑے رکھنے میں کاریگر ثا بت ہو سکتی  ہے۔
قیام پاکستان کے بعد جب کچھ عناصر نے اردو کی بجائے بنگالی کو قومی زبان کے طور پر رائج کرنے کا نعرہ لگایا تو قائد اعظم ؒ نے نہایت سختی کے ساتھ تعصبانہ  رویے کی مخالفت کی۔ انہوں نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں فرمایا کہ پاکستان کی قومی ، سرکاری اور دفتری زبان اردو اور صرف اردو ہو گی ، کیونکہ یہ زبان نہ صرف پاکستان کے تشخص  کی پہچان ہے بلکہ تما م صوبوں کو جوڑے رکھنے میں  معاون بھی ۔ آپ نے فرمایا،
’’ میں آپ کو صاف صاف بتا دوں کہ جہاں تک آپ کی بنگالی زبان کا تعلق ہے۔ اس افواہ میں کوئی صداقت نہیں کہ آپ کی زندگی پر کوئی غلط یا پریشان کن اثر پڑنے والا ہے۔ اس صوبے کے لوگوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہو گی۔ لیکن یہ میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو ، اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔ جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہو گی۔‘‘(۷)
قائداعظم  قومی زبان کی اہمیت سے آگاہ تھے  اور وہ پاکستان میں ایک ایسی زبان رائج دیکھنا چاہتے تھے جو ہر اعتبار سے  قمی زبان کی تعریف پر پورا اترتی ہو ، قومی زبان کی تعریف کے مطابق اگر اردو کو پرکھا جائے تو  قائداعظم کا تصورِ قومی زبان بھی اس کے عین مطابق دکھائی دیتا ہے۔ اردو ایک ایسی زبان ہے جو پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ سمجھ اور بول سکتا ہے ،  اردو ایک جغرافیائی حد یعنی ملک پاکستان کا تعین کرتی ہے۔  ایک اور موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا،
’’ اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو ان کی سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ میری ذاتی رائے میں اردو اور صرف اردو ہے۔‘‘(۸)
لیکن صدہا افسوس کے اپنی مکمل زبان ہونے کے باوجود ہم اغیار کی زبانوں کو سیکھنے  میں عمر بتا دیتے ہیں ، محمد عرفان شاہد اپنے ایک مضمون میں  چوہدری احمد خان سے کچھ یوں اقتباس کرتے ہیں،
’’ظاہری طور پر ہم پاکستانی قائد اعظمؒ کے وفادار ہیں۔ قائد اعظمؒ کے ایام ولادت و وفات سرکاری طور پر مناتے ہیں۔ اخبارات قائداعظمؒ نمبر نکالتے ہیں۔ قائداعظمؒ کی جائے ولادت ، ان کا ذاتی سامان اور سارے کاغذات حکومت نے محفوظ کر لئے ہیں۔ قائد اعظمؒ کے اقوال ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھی آتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے سرکار ی طور پر قائد اعظمؒ کی سوانح عمری (نامکمل) تیار کروائی ہے۔ کراچی میں قائداعظم ؒ کے مقبرے پر چوبیس گھنٹے سرکاری گارڈ متعین رہتی ہے۔
تمام کرنسی نوٹوں پر قائداعظمؒ کی تصویر ہوتی ہے۔ ڈاک کے یادگاری ٹکٹوں پر قائد اعظمؒ کی تصویر ہے۔ ہر سرکاری دفتر میں بھی قائداعظمؒ کی تصویریں ہوتی ہیں۔ پنجاب کے ہر ضلع کے ڈسٹرکٹ کونسل ہال کا نام جناح ہال ہے۔ قائد اعظمؒ کا صد سالہ جشن ولادت بڑے تزک و احتشام سے سرکاری طور پر منایا گیا۔ ایک یونیورسٹی ، ایک بڑا ہسپتال اور ایک میڈیکل کالج قائد اعظمؒ کے نام سے موسوم ہیں۔ جلسوں میں قائداعظمؒ کے زندہ باد کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں۔ کئی مشہور باغ و پارک اور بڑی سڑکیں قائد اعظمؒ کے نام پر ہیں۔ لیکن ارباب اختیار قائداعظمؒ کے فرامین متعلقہ سرکاری زبان کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔‘‘(۹)
لہذا بحثیت پاکستانی  ، ہمارا فرض ہے کہ  ہم اردو زبان کی ترویج میں اپنا کردار ادا  کریں  اور جو لوگ قائد اعظم کے  مشن کو آگے لے کر چلنا چاہتے ہیں ان کا ساتھ دیں۔ اپنے گھروں اور نجی محافل میں اردو کو رائج کریں اور اپنی زبان کو فخریہ بولیں ۔ تاکہ ہم اقوام ِ عالم میں اپنا میعار قائم رکھ سکیں۔

حوالہ جات:
۱۔ عاطف توقیر ،’’ اردو زبان کا ارتقا‘‘  ۲۰۲۱
۲۔ یوکے أانگریزی لغت
)https://www.lexico.com/uk-english(
۳۔ عاطف توقیر ،’’ اردو زبان کا ارتقا‘‘  ۲۰۲۱
۴۔ پاکستان مسلم انڈیا ، ۱۹۴۲
۵۔ قائد اعظمؒ اور قومی زبان، میر افسر امان،۲۰۱۸
۶۔ ۱۰ اپریل ۱۹۴۶ء آل انڈیا مسلم لیگ  اجلاس ،دہلی
۸۔  جلسہ عام ڈھاکہ۲۱ مارچ ۱۹۴۸ء
۹۔ محمد عرفان شاہد ، اردو ہماری قومی زبان،۲۰۲۰

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact