کتاب : آئینے کے پار مبصرہ : شمع اختر انصاری

You are currently viewing کتاب : آئینے کے پار مبصرہ : شمع اختر انصاری

کتاب : آئینے کے پار مبصرہ : شمع اختر انصاری

مبصرہ : شمع اختر انصاری

       

افسانوی مجموعہ ” آئینے کے پار ” مہوش اسد شیخ صاحبہ کے افسانوں کا مجموعہ ہے جس میں پندرہ افسانے شامل ہیں ۔  افسانوں کا یہ مجموعہ پریس فار پیس فاؤنڈیشن نے شائع کیا ہے جو  طباعت اور اشاعت کے معیار کے لیے مشہور ہے ۔کتاب میں بہترین سفید کاغذ استعمال کیا گیا ہے اور طباعت بھی ہمیشہ کی مانند بہترین ہے ۔

اس افسانوی مجموعے کا نام ایک افسانے سے ہی اخذ  کیاگیا ہے اور سرورق افسانے کے   نام کی اہمیت کو سراہتے ہوئے بنایا گیا ہے ایک لڑکی قد آدم آئینے کے سامنے کھڑی ہے اور اپنے بجائے اسے نظر آرہا ہے ایک مرد کا عکس ۔۔ جو آئینے کے اس پار ہے ۔۔۔۔۔۔کیا یہ کوئی ماورائی دنیا ہے یا گمان کے اس پار واہمہ ہے ۔۔

مہوش اسد شیخ کا نام ادب کی دنیا میں نیا نہیں ہے  اس سے پہلے بچوں کے لیے کہانیوں کا مجموعہ ” پروفیسر بوئنگسٹان ” اور معاشرتی کہانیوں پر مشتمل مجموعہ ” مہر النساء ” بھی لکھ چکی ہیں ۔

‘”آئینے کے اس پار ” کا انتساب انہوں نے اپنے شریک حیات کے نام لکھا ہے ۔ کتاب کی ابتدا میں محمد شاہد محمود اور محمد عثمان ذوالفقار صاحب کے توصیفی کلمات بھی موجود ہیں۔مجموعے کے فلیپ پر ڈاکٹر جہان آرا لطفی کی خوب صورت رائے کو شامل کیا گیا ہے جو مصنفہ کے ادبی قد کی اہمیت واضح کرتے ہیں۔

مجموعے میں مندرجہ ذیل افسانے شامل ہیں ۔

.میری کشتی وہاں ڈوبی 

.اعتبار کا موسم

.ذرا سوچئے گا 

توبہ کے نفل

.ناانصافی 

.آخری ورق 

.چوررستہ

.ناولوں کی دنیا 

.آئینے کے پار 

.آہ

.دوسرا رخ

.آخری سورج 

.سونا آنگن

.روز محشر

. توکل

______۔ 

.میری کشتی وہاں ڈوبی 

پہلا افسانہ ایک قلم کار نغمانہ سراج اور ڈائجسٹ کے مدیر اعلی سے متعلق ہے ۔ ان دیکھی کشش اور سامنے آنے والی حقیقت کے مابین سچ کیا ہے اور کیا واہمہ ہے۔۔ ان احساسات  کو عمدگی سے قلم بند کیا گیا ہے ۔

.اعتبار کا موسم

دوسرا افسانہ ہے  جس میں مامون زاد اظہر کی  محبت میں مبتلا علینہ کے بروقت شادی کے  فیصلے کی کہانی اور خالہ زاد حمزہ کے شوہر کا فرض نبھانے کا طریقہ دکھایا گیا ہے ۔ لیکن علینہ نے یہ فیصلہ کیوں کیا اور حمزہ نے اپنی شریک حیات کو کیسے سنبھالا ۔۔یہ بھی ایک پڑھی جانے کے لائق داستان ہے 

یہ افسانہ آج کے مخلوط اور بے لگام معاشرے میں پنپنے والے تعلقات کا خوب صورت اور بہترین  انجام ہے ۔

ذرا سوچئے گا ۔

تیسرا افسانہ ہے جس کا مرکزی کردار پردیس میں خواہشات نفسانی کی تسکین کے لیے ایک سیکس ورکر کی خدمات سے مستفید ہونا چاہتا ہے ۔۔

اور اسے ملتا ہے ایک سوال ۔۔۔

“یہاں آنے سے پہلے تم نے سوچا کہ تم تو اپنی ضرورت پوری کرنے یہاں آگئے ، تمہاری بیوی کہاں گئی ہو گی ، اسے بھی تو ضرورت محسوس ہوتی ہو گی نا!”

یہ جملہ نہیں ایک طمانچہ ہے ایسے مردوں کے منہ پر جو اپنا نصف ایمان مکمل ہونے کے باوجود بھی اس کی رکھوالی نہیں کرپاتے ۔

اسی افسانے کا ایک اور جملہ دیکھیے ۔۔۔۔  

وہ میرا نہیں رب کاکام ہے ۔۔۔۔۔وہ کوئی نہ کوئی وسیلہ بنایا دے گا ۔۔۔۔۔” نہیں نہیں ۔۔ یہ جملہ اس سوال کا جواب نہیں ہے ۔۔یہ جس سوال کاجواب ہے اس کے لیے پڑھیے ” آئینے کے اس پار “

. توبہ کے نفل 

یہ مہرو کی کہانی ہے ،

 یہ مظہر اور بانو کی کہانی ہے ۔۔۔ 

یہ بانو کی کہانی ہے ۔

بانو جس زندگی سے پریشان رہی وہ زندگی کسی اور کی آئیڈیل لائف تھی اور جب اس بظاہر خوب صورت زندگی کی حقیقت  آشکار ہوئی تو واجب ہوئے ” توبہ کے نفل “

.ناانصافی ۔۔

کیا والدین سے ناانصافی ممکن ہے ؟ والدین بھی انسان ہیں اور ہر بات جو کسی انسان سے صادر ہوسکتی ہے اس کی عمل پذیری والدین سے بھی ممکن ہے ۔اس کااولاد پر کیااثر ہوگا کیا وہ ذہنی صحت مند رہ سکے گی؟ جان لیوا سچائیوں پر مبنی تحریر ۔

آخری ورق

اس افسانے میں مہوش اسد شیخ اپنے مستقبل میں جھانک کر اپنی کہانی لکھ رہی ہیں اور اپنے ارد گرد حقیقی زندگی کے کرداروں سے زیادہ اپنے ناول کے کرداروں کی نامکمل زندگی پر پریشان ہیں ۔زندگی کے  اس افسانے کا انجامکیا ہوگا ؟ کسے خبر ۔۔۔۔۔

.چور راستہ 

مونا اور اکمل کی کہانی ۔۔ شوہر اور بیوی کے درمیان ایک چور دروازہ کھلا لیکن کیوں ؟ 

کمی کہاں تھی ؟ 

کیا ایسا راستہ نکلنا لازم تھا ؟ 

ایک اور معاشرتی داستان ۔

.ناولوں کی دنیا

ناول پڑھنے اور ناولوں کی دنیا میں رہنے والی امتل محسوس کرتی تھی کہ حقیقی دنیا بھی اتنی ہی حسین ہے جتنی خوب صورت کاغذوں پر لکھے الفاظ کی دنیا ہے ۔ مگر اس کا خیال غلط نکلا جب اسے شاہد جیسا ہم سفر ملا۔۔۔۔زندگی  بار بار بتاتی رہی کہ زندگی تلخ تجربات کا نام ہے ۔ناولوں کی دنیا امتل کا الفاظ سے حقیقت تک کا سفر ہے ۔

. آئینے کے پار 

یہ وہ ہی افسانہ ہے جسے مجموعے کے نام کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔یہ ہمارے معاشرے میں بکھری ان گنت داستانوں میں سے ایک ہے ۔۔ زندگی کی سچائیوں سے  گھبرا کر تخیلات کی دنیا میں پناہ لینا ہوا کے ٹھنڈے جھونکے کی مانند ہے جہاں کچھ دیر سستانے کی جگہہ مل جاتی ہے ۔

. آہ 

دو سگی بہنوں کے درمیان مکافات عمل کی کہانی ہے اس کہانی نے ڈپٹی نذیر احمد کے مراۃ العروس کی یاد تازہ کردی ۔۔ اور ثابت کردیا کہ جب تک لکھنے والا قلم کااستعمال کرے گا زندگی کی کہانیاں ہی لکھے گا ۔

. دوسرا رخ 

بد گمانی سے بچنے کی نصیحت  اور رشتوں کو سنبھالنے کی کاوشوں پر مبنی ایک اور تحریر جو پس آئینہ اور پیش آئینہ کے منظر کو بہتر انداز میں پیش کررہی ہے۔

. سونا آنگن 

مستعار  کے دیئے سے اپنا گھر روشن کرنے والی حمنہ کی سنگ دلی کی داستان ۔

کاش سعد ،حمنہ کی پہلی  بات مان لیتا تو یوں ایک ماں کی گود ویران نہ ہوتی ۔۔زندگی کی ایک اور حقیقت  کو چابک دستی سے بیان کرتی کہانی 

. روز محشر 

اپنے اعمال کا احتساب کرتی کہانی ۔۔۔ زندگی کو صحیح ڈگر پر لے جانے والے اعمال ۔۔ قلم اور قلم کار کی داستان ۔

۔ توکل 

زندگی دو افراد کے تعلق کا نام ہے دو کے درمیان تیسرے کی گنجائش میں کسی ایک کا ہاتھ تو ہوتا ہے ۔ٹوٹتے رشتوں اور بکھرتے گھر کو بچانے کی ایک اور کاوش۔

___۔ 

پلاٹ :-

 ” آئینے کے اس پار ” میں شامل تمام افسانے عام زندگی کے افسانے ہیں ۔۔ان کا ماخذ ہمارے معاشرے کے کردار ہیں ۔ہر کردار سے جڑے حقائق ہیں ۔۔ یہ کردار عام ہیں اور عام ہو کر اپنی اپنی جگہہ خاص ہیں ۔

اسلوب :- 

مہوش کے ہاں استعاروں اور تشبیہات کا استعمال نہیں ملتا ۔سادہ واقعے کو سادگی سے بیان کرتی ہیں  داستان کو مشکل الفاظ کے استعمال سے گنجلک نہیں بناتیں ۔عوام کی باتیں عوام کے انداز میں لکھتی ہیں جس سے قاری تک پیغام کی ترسیل بہت آسان ہوجاتی ہے ۔مہوش زندگی کے اتار چڑھاؤ کو افسانوں میں ڈھالتی ہیں اور کرداروں کی زبانی سلگتے مسائل کا حل پیش کرتی ہیں ۔ اکثر افسانوں میں سبق موجود ہے۔ جو مہوش کے اچھے قلم کار ہونے کاثبوت ہے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.