ثوبیہ اللہ رکھا ۔میرپور
دین اسلام نے جہاں ماں باپ پہ اولاد کے فرائض و ذمہ داریاں عائد کی ہیں وہاں اولاد کو والدین کی فرنبرداری کا حکم بھی دیا ہے۔ جس طرح والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کی دینی و دنیوی تعلیم کا بندوبست کریں ۔اچھی تربیت کریں اور اخلاق سکھائیں اسی طرح اولاد کا فرض ہے کہ بڑے ہو کر والدین کا سہارا بنے اور ان کی خدمت کرے۔والدین اور اولاد کی محبت غیر مشروط ہوتی ہے۔اگر اولاد ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے تو والدین اولاد کے دل کا چین وقرار ہیں ۔ماں باپ دونوں ہی کڑی دھوپ میں سایہ ہیں۔جیسا کہ رومی کشمیر میاں محمد بخش فرماتے ہیں
باپ سراں دے تاج محمد
تے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں
باپ سر کا تاج ہے تو ماں ٹھنڈی چھاؤں ہے،باپ گھر کا مضبوط ستون ہے تو ماں گھر کا سکون،ماں محبت و ایثار کا مجسمہ ہے تو باپ شفقت و تحفظ کا حصار ،ماں ٹھنڈا سایہ ہے تو باپ ایک فصیل ،ماں زندگی کی بہار ہے تو باپ خزاں میں اک سائبان ہے۔ماں گھر کی روشنی ہے تو باپ چراغ ہے ۔اس لیے اولاد کا فرض ہے کہ وہ ماں باپ کی قدر کرے اور انکی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔ کیو ں کہ ان کی خدمت جنت کی ضمانت ہے۔قرآن و حدیث میں
ماں باپ دونوں کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا (23)
ترجمہ: کنزالایمان
“اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔”
اللہ تعالی نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے ساتھ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ۔انسان کا وجود تخلیق کرنے والی ذات تو اللہ کی ہے۔اور دنیا میں لانے کا ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہیں ۔اس لیے اللہ پاک نے پہلے انسان کے حقیقی خالق کی عبادت کا حکم دیا اور اس کے بعد ظاہری سبب یعنی والدین کی اطاعت و فرنبرداری کا حکم دیا۔نماز کے بعد پسندیدہ عمل ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک ہے ۔چنانچہ ایک مرتبہ ایک صحابی نے عرض کیا یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کیا ہے؟ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ صحابی نے عرض کیا اس کے بعد؟ فرمایا والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ صحابی نے عرض کیا اس کے بعد؟ فرمایا ﷲ کے راستے میں جہاد کرنا۔ (بخاری و مسلم)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا :’’تمہاری ماں ۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھر ماں کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔( بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، ۴ / ۹۳، الحدیث: ۵۹۷۱)
فرمان آخری نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق جہاں سب سے ذیادہ احسان کی مستحق ماں ہے وہاں باپ کو خوش کرنا دراصل پروردگار کی خوشنودی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناخوشی باپ کی ناراضی میں ہے۔‘‘(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین، ۳ / ۳۶۰، الحدیث: ۱۹۰۷)
ماں باپ کے ساتھ آپ کا رویہ اور سلوک آپکو جنت میں اعلی مقام بھی دلا سکتا ہے اور جہنم کے گڑھے میں بھی دھکیل سکتا ہے۔
ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم والدین کا اولاد پر کیا حق ہے؟ تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ دونوں تیری جنت اور جہنم ہیں (یعنی ان کے ساتھ حسن سلوک سے جنت ملتی ہے اور بد سلوکی سے جہنم میں جانا پڑے گا۔(سنن ابن ماجہ)
ماں باپ کے ساتھ اچھے سلوک پر جنت کی خوشخبری سنائی گئی ہے تو ان کے ساتھ بد سلوکی اور نافرمانی کا مظاہرہ کرنے پہ سخت وعید بھی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس شخص کی ناک خاک آلود ہو۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کس کی ناک خاک آلود ہو؟ ارشاد فرمایا ’’جس نے اپنے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوا۔( صحیح مسلم الحدیث:۲۵۵۱)
آہ! یہ انسان کی بدقسمتی یا کم عقلی ہی ہو سکتی ہے کہ ماں باپ حیات ہوں اور خدمت نہ کر کے وہ جنت سے محروم ہو جائے کیونکہ ماں باپ سے محبت ،انکی خدمت و فرنبرداری جنت کی ضمانت ہے۔رب کا کرم دیکھیے اپنے بندوں پر کہ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک نہ صرف ان کی حیات میں ہو سکتا بلکہ ان کے انتقال کے بعد ان کے لیے دعائے مغفرت بھی والدین سے نیک سلوک ہے۔
حضرت ابو اسید بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک سے یہ بات ہے کہ اولاد ان کے انتقال کے بعد ان کے لئے دعائے مغفرت کرے۔(کنز العمال، الحدیث: ۴۵۴۴۱)
ہمیں چاہیے کہ ہم والدین کے ساتھ نرمی و محبت سے پیش آئیں۔ماں اور باپ دونوں کی خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں۔
کیو ں کہ باپ ہی وہ ہستی ہے جو کڑی دھوپ کی سختیاں جھیل کر اولاد کی خواہشوں کی تکمیل کے لیے اپنے ساری خواہشیں مار دیتا ہے اور ایک کھلونادلانے کی خاطر اپنے سب خواب بیچ دیتا ہے۔ اولاد کی زندگی میں بہار لانے کی خاطر اپنی زندگی کی کئی بہاریں لٹا دیتا ہے تو ماں اپنے بچوں کی خوشی کی خاطر اپنے غم کو خاطر میں نہیں لاتی۔انکے چہروں پہ مسکراہٹیں بکھیرنے کے لیے اپنی تکلیف کو چھپا کر مسکرا تے ہوئے اپنی اولاد کو آغوش میں لے لیتی ہے۔قرآن و حدیث میں ماں باپ کی فرنبرداری و نیک سلوک کا درس ملتا ہےاور ان کی نافرمانی و ناراضگی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ماں باپ دونوں کے ساتھ نیک سلوک میں ہی کامیابی ہے ۔اللہ تعالی ہم سب کو والدین کی فرنبرداری اور خدمت کرنے کی توفیق عطا کرے اور ان کی نافرمانی سے بچائے۔ آمین